برطانیہ کی مقتول مائیں اور عورت مارچ

کہا جاتا ہے کہ دنیا میں رشتہ کے اعتبار سے ایک ہی ہستی ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے، وہ ماں ہے، جس کو یاد کرنے کے لئے کسی خاص دن، لمحہ کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اگر یہ کہا جائے یہی وہ مقدس رشتہ ہے، جس کی یاد دل کی دھڑکن کی طرح سینے میں رواں رہتی ہے تو بے جا نہ ہوگا، انسان کسی بھی سماج، مذہب، قبیلہ، نسل، رنگ سے تعلق رکھتا ہو، کسی بھی عمر کو پہنچ جائے وہ اپنی ماں کو کسی صورت بھول نہیں سکتا، مشاہدہ میں آیا کہ مرد ہو یا خاتون اپنی مرحومہ ماں کو یاد کرتے ہی انکی آنکھوں میں آنسو چھلک پڑتے ہیں، یہ بے لوث محبت کا ایسا لازوال رشتہ ہے، جسکی کوئی قیمت نہیں یہ ہر دور میں انمول ہے۔
دنیا کے ہر مذہب میں اس کے احترام کی تاکید کی گئی ہے، صراحت کے ساتھ ساتھ ایسے واقعات پڑھنے اور سننے کو ملتے ہیں انبیاء جہاں اللہ کے برگذیدہ بندے ہونے پر نازاں اور احسان مند تھے وہاں وہ اپنی ممتاکے احترام اور حکم بجالانے کو اپنے لئے اعزاز اور خوش نصیبی خیال کرتے تھے۔
ماہر نفسیات کہتے ہیں عورت کے لئے سب سے خوبصورت لمحات وہ ہوتے ہیں، جب وہ اپنے بچے کی پرورش کرتی ہے، اسے گود اٹھاتی ہے، اس سے محبت کرتی ہے، سماجی کہانیاں ماں کی عظمت اور قربانیوں سے بھری پڑی ہیں جس نے اپنی اولاد کے روشن مستقبل کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا، اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے زیور بیچنا تو عام سی بات ہے، لیکن جو بچے اس معمولی احسان کو بھی فراموش کرتے ہیں، انکی توجہ کے لئے اسلم کولسری کا یہ شعر ہے۔
شہر میں آکر پڑھنے والے بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا
ذرا چشم تصور میں لائیں کہ اپنی اولاد کیلئے فکر مند ہونے اور دوڑ دھوپ کرنی والی اس ہستی کو اپنے ہی جگر گوشوں کے ہاتھوں دکھ اٹھانا پڑے تو اس بیچاری ہستی پر کیا بیتے گی، لیکن مائیں پھر بھی اعلی ظرف ہوتی ہیں وہ اپنی اولاد کی بڑی سے بڑی غلطی بھی معاف کرکے اس کو گلے لگا لیتی ہیں جس کی کسی دوسرے خونی رشتہ سے توقع اورامید رکھنا ہی عبث ہے۔
نہیں معلوم برطانیہ کی ان مقتول ماؤں کے اس وقت کیا جذبات ہوں جب وہ اپنے ہی لخت جگرکے ہاتھوں ابدی نیند سو رہی ہوں گی، یہ ناقابل یقین واقعات برطانیہ جسے مذہب معاشرہ میں پیش آئے جہاں میڈیا کی وساطت سے دن رات انسان اور جانوروں کے حقوق کا درس دیا جاتا ہے، کانفرنسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے، یورپ کا معاشرہ اپنی تہذیب کو دنیا پر مسلط کرنے کے خبط میں نجانے کیوں مبتلا ہے، حالانکہ اسکی ناک کے نیچے ایسے درد ناک اور دل سوز سانحات وقوع پذیر اور میڈیا میں رپورٹ ہوتے ہیں کہ انسانیت سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔
خونی رشتوں کے ساتھ بیہمانہ سلوک کرنا، انکی جان لینا اور انکی لاش کو ڈیپ فریزر میں بند رکھنے کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہے، عمومی رائے ہے جب سے یورپی اقوام نے اپنی حیاتی سے مذہب کو دیس نکالا دیا، اس عہد سے اس کا خاندانی نظام زمین بوس ہے، نسل نو بہت سی خرافات کا شکار ہے، کچھ ذہنی امراض میں مبتلا ہیں، بعض منشیات کے دلدادہ، مال ودولت اور تمام تر آسائشوں کے باجود اطمینان قلب سے محروم چلے آرہے ہیں، جب اندر کا انسان کسی جرم پر محاسبہ کرنا چھوڑ دے، باہر کا فرد اضطراب میں مبتلا ہو جاتا ہے، جب دونوں ایک پیج پر ہوں تو سکون ملتا ہے۔
برطانوی میڈیا میں شائع ہونے والی چشم کشا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ 15 سالوں کے مابین کم و بیش 170 مائیں اپنے بیٹوں کے ہاتھوں قتل ہوئی ہیں، اس طرح کے واقعات میں 58 فیصد کا تعلق مجرموں کی ذہنی، دماضی صحت اور منشیات کے استعمال سے ہے، ان میں کچھ خواتین ایسی بھی ہیں جو اپنے پوتوں کے ہاتھوں ماری گئی ہیں، ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ بالغ بچے سستی رہائش کی کمی کی وجہ سے طویل عرصہ سے والدین کے ساتھ رہتے ہوئے تناؤ کا شکار تھے، دوسری وجہ بدگمانی بھی بتائی جاتی ہے۔
بدقسمت ماؤں پر موت کے وقت کیا گزری ہوگی، کس اذیت سے انھیں دوچار ہونا پڑا ہوگا، گمان ہے کہ ان کے قاتل انھیں اکیلا پا کر یا نشہ میں گہری نیند سلا کر بربریت کے مرتکب ہوئے ہوں گے۔
لاچارگی اور بے بسی میں اپنی اولاد کے ہاتھوں قتل شائد دنیا کی سب سے بڑی سزا ہے جو ان بیچاریوں کو ملی، اس پر ماتم کے سوا کیا کیا جاسکتا ہے؟ حالانکہ عیسایت اور بائبل کی تعلیمات کے مطابق ماں اور باپ کی عزت کا پہلا حکم ہے، اس کے نتیجہ میں وعدہ کیا گیا ہے"کہ تیرا بھلا ہوگااور تیری عمر دراز ہوگی" ان نافرنانوں نے اپنے ہاتھوں موت دے کر پہلی خلاف روزی تو اپنی مقدس کتاب بائبل ہی کی ہے، جس میں بھلائی کی بات ہے۔
ہمیں ان قاتلین کا بھی ممنون ہونا ہے کہ انھوں نے اپنے قبیح جرم کی وڈیوز اس ڈیجیٹل دور میں جاری نہ کرکے برطانوی عوام کو ایک بڑی اذیت سے بچا لیا ہے ورنہ ان سے یہ بھی ممکن تھا، ہو سکتا ہے کہ قاتلین قانونی عدالت سے بچ نکلیں مگر اللہ کی عدالت میں انصاف ضرور ہوگا۔
عورت مارچ کے منتظمین کو ہمارا مخلصانہ مفت مشورہ ہے کہ ہمارے مضبوط خاندانی نظام میں نقب لگانے اور غیر ملکی ایجنڈا پر عمل پیرا ہونے کی بجائے وہ اپنی خفتہ صلاحتیں برطانوی معاشرے میں صرف کریں، جہاں ماں جیسی عظیم ہستی اپنی اولاد کے ہاتھوں بھی محفوظ نہیں اور کچھ اپنے سابقہ اور موجودہ ساتھیوں کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار چکی ہیں، اس سماج کو انکی خدمات کی اس وقت اشد ضرورت ہے، ہماری سوسائٹی میں کم از کم ایسی جہالت نہیں پائی جاتی، یہاں عورت کو ہر حیثیت میں عزت اور احترام، تحفظ، وقار حاصل ہے، عورت مارچ کے بیانیہ پر اس لئے کان نہیں دھرا جاتا بلکہ اس منفی سرگرمی کو بے وقت کی راگنی سمجھا جاتا ہے۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 213 خواتین میں سے 85 فیصد کو خنجر گھونپ پر قتل کیا گیا ہے، اذیت سے مرنے والی 10 فیصد بد قسمت وہ خواتین تھیں جواپنے قاتل کو جانتی تک نہیں برطانیہ کی ظالم اولاد نے خنجر سے ماں جیسے مقدس رشتہ کو قتل کرکے اپنی تہذیب پر خو د کش حملہ کرکے علامہ اقبال کی اس پیشن گوئی کو سچ ثابت کر دیکھایا ہے، تاہم برطانوی سرکار کو چاہئے کہ قاتل اولاد کو نشان عبرت بناکر ایک مثال قائم کرے۔
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پے آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا