بیرون ملک بیٹھے "بیانیہ ساز"

کوئٹہ سے پشاور جاتے ہوئے 450 مسافروں سے بھری "جعفر ایکسپریس" کے وادی بولان کے بلند قامت پہاڑوں پر بچھائی سرنگ کے قریب دہشت گردوں کے ہاتھوں اغواء کے بعد میں ایک پل بھی چین سے نہیں بیٹھا۔ عرصہ ہوا عملی رپورٹنگ سے ریٹائر ہونے کے باوجود اپنے موبائل فون میں موجود نمبروں میں سے ہر اس نمبر سے رابطہ کیا جو میری دانست میں ہماری تاریخ میں پہلی بار ہوئی ایک انوکھی واردات کے بارے میں کچھ بتاسکتا تھا۔
بے شمار لوگوں سے رابطے اور گفتگو کے باوجود بدھ کی شام تک مجھے کامل یقین تھا کہ شاید بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات ہماری فوج کے خصوصی دستوں کومغویوں کی بازیابی کے لئے "دھاوا" بولنا ہوگا۔ اس کے نتیجے میں اموات کا جو تخمینہ میرے ذہن میں آرہا تھا اس پر غور کرتے ہوئے ریڑھ کی ہڈی میں دردمحسوس ہونا شروع ہوگیا۔ خوف کے مارے سوچنا ہی چھوڑ دیا۔ رات نو بجے سے قبل مگر آئی ایس پی آر کے سربراہ نے بذات خود حتمی آپریشن کامیاب ہونے کی خبر سنا دی۔
جس انداز میں حتمی آپریشن میرے تصور سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ جانی نقصانات کو محدود تر رکھتے ہوئے مکمل ہوا وہ قابل ستائش ہے۔ کاش میں اس کی تفصیلات جان کر آپ کو بیان کرسکتا۔ اپنی لاعلمی کے باوجود یہ کہنے کو مجبور ہوں کہ ٹرین اغواء کرنے والوں پر جس انداز میں قابو پایا گیا وہ کئی حوالوں سے دہشت گردی سے نبردآزما ہونے کے لئے "نصابی مثال"کی حیثیت اختیار کرسکتا ہے۔
جعفرایکسپریس کے حوالے سے میری پریشانی ایک صحافی کی پریشانی تھی۔ اغواء ہوئی ٹرین میں میرا کوئی دوست یا قریبی رشتے دار موجود نہیں تھا۔ صحافت کے تقاضوں کے علاوہ انسانی ہمدردی بھی میری پریشانی کے کلیدی اسباب تھے۔ پاکستان میں لیکن ایک منتخب ادارہ ہے۔ نام ہے اس کا قومی اسمبلی۔ وہ "ہمارے نمائندوں "پر مشتمل ادارہ تصور ہوتا ہے۔ خود کو ریاستِ پاکستان کے دیگر اداروں پر "بالادست" ثابت کرنے کو بضد بھی رہتا ہے۔ اصولی طورپر ہونا یہ چاہیے تھا کہ بدھ کے دن قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی بذاتِ خود اجلاس میں تشریف لاتے۔
تلاوت کلام پاک کے بعد بٹن دباکر سپیکر سے گفتگو کی اجازت طلب کرتے اور اجازت ملنے کے بعد ایک بیان پڑھتے جسے پارلیمانی قواعد کے مطابق "تحریری بیان" کہا جاتا ہے۔ اس "تحریری بیان" کے ذریعے وہ مختصر ترین الفاظ میں "جعفر ایکسپریس" کے اغواء کے بارے میں "تازہ ترین" سے آگاہ کردیتے۔ اسمبلی قواعد کے مطابق جب کوئی وفاقی وزیر کسی اہم معاملہ پر "تحریری بیان" پڑھ دے تو اس موضوع پر مزید بحث نہیں ہوسکتی۔ اراکین اسمبلی بھی "تحریری بیان" پڑھے جانے کے بعد متعلقہ وزیر کو سوالات کی بوچھاڑ سے زچ نہیں کرسکتے۔
وفاقی وزیر داخلہ نے مگر "تحریری بیان" تو کیا اسمبلی میں آنے کا تردد ہی نہیں کیا۔ ان کی عدم موجودگی میں کارروائی کا باقاعدہ آ غاز ہوتے ہی قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان اپنی نشست پر کھڑے ہوئے۔ پوائنٹ آف آرڈر کے ذریعے مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں ٹرین کے اغواء کو زیر بحث لایا جائے۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اس وقت اجلاس کی صدارت نہیں کررہے تھے۔ ڈپٹی سپیکر بھی ایوان میں موجود نہ تھے۔ ان دونوں کی عدم موجودگی میں پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔ پٹیل صاحب نے قائد حزب اختلاف کی تجویز یہ کہتے ہوئے رد کردی کے طے شدہ ایجنڈے کے مطابق قومی اسمبلی میں فی الحال فقط وہ تقریر ہی زیر بحث لائی جاسکتی ہے جو صدر پاکستان نے پیر کی سہ پہر پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں کی تھی۔ صدر کے خطاب کو زیر غور لاتے ہوئے "جعفر ایکسپریس" کے اغواء کا معاملہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔
پارلیمانی روایات سے کامل آگہی کی بنیاد پر لکھنے کو مجبور ہوں کہ پٹیل صاحب کا فیصلہ غلط تھا۔ وفاقی وزیر داخلہ کی ایوان سے غیر حاضری بھی ناقابل معافی تھی۔ ان دونوں کے رویے نے عوام کے وسیع تر حلقوں کے دل ودماغ میں بیٹھے اس تصور کو تائید فراہم کی کہ ہماری قومی اسمبلی محض ایک نمائشی ادارہ ہے جو عوام کے حقیقی مسائل کا حل ڈھونڈنا تو دور کی بات ہے ان پر تفصیلی بحث کے قابل بھی نہیں۔
ایوان میں وزیر دفاع خواجہ آصف بھی موجود تھے۔ ان سے ہزاروں اختلافات کے باوجود آپ یہ حقیقت جھٹلا نہیں سکتے کہ وہ موجودہ پارلیمان کے تجربہ کار ترین افراد میں شامل ہیں۔ "جعفر ایکسپریس" کو بالآخر اسی ادارے نے اغواء کنندگان سے بازیاب کروایا جو اصولی طورپر وزیر دفاع کے ماتحت کام کرتا ہے۔ نہایت دیانتداری سے میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ خواجہ آصف کو ایوان میں کھڑے ہوکر چیئرسے درخواست کرنا چاہیے تھی کہ عمر ایوب خان کی تجویز کے مطابق "جعفر ایکسپریس"کا اغواء زیر بحث لایا جائے۔
مجھے سو فیصد یقین ہے کہ دونوں جانب سے تلخ ترین الزامات کی بھرمار کے باوجود بالآخر اکثریتی رائے یہ ہی ابھرتی کہ بلوچستان میں "سب اچھا نہیں ہے"۔ معاملات سنبھالنے کے لئے لازمی ہے کہ پاکستان کی تمام (جی ہاں تمام) سیاسی جماعتیں باہمی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے ویسی ہی ایک کل جماعتی کانفرنس بلائیں جیسی اے پی ایس سکول کے سانحے کے بعد بلوائی گئی تھی۔ مذکورہ کانفرنس کے نتیجے میں نیشنل ایکشن پلان بنا۔ اس پر عملدرآمد کو موثر تر بنانے کے لئے آئین میں "عارضی ترمیم" بھی ہوئی۔ اس کی بدولت سنگین دہشت گردی کے جرائم میں ملوث افراد کو تیز تر بنیادوں پر سزائیں دلوانے کے لئے فوجی عدالتوں کے قیام کو بھی "قانونی چھتری" فراہم کردی گئی۔
مجھے گماں ہے کہ عمر ایوب خان کی تجویز مان کر بلوچستان کے مسائل پر عمومی بحث کے انجام پر بعداز اے پی ایس سانحہ جیسی کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد کی گنجائش نکالی جاسکتی تھی۔ تحریک انصاف اس سے دور رہنا افورڈ ہی نہیں کرسکتی تھی۔ پاکستان کی قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی نمائندگی کرنے والے اراکین کو مناسب توقیر دئے بغیر اس جماعت کے بیرون ملک بیٹھے "بیانیہ ساز" من پسند ترجیحات کے فروغ سے اپنی جماعت اور اس کے قائد کے لئے نت نئی مشکلات کھڑی کرتے رہیں گے۔ بیرون ملک بیٹھے "بیانیہ سازوں" سے تحریک انصاف کو واقعتا آزاد کروانا مقصودہے تو حکومت کو اس جماعت کی قومی اسمبلی میں نمائندگی کرتے افرادکو واجب عزت واحترام فراہم کرنا ہوگی۔