Aziyat Dena Ya Aziyat Sehna Aik Pecheeda Falsafa
اذیت دینا یا اذیت سہنا ایک پچیدہ فلسفہ

زندگی کی حقیقتیں بے شمار پہلوؤں پر مشتمل ہوتی ہیں، جن میں ایک اہم پہلو اذیت دینا اور اذیت سہنا ہے۔ انسان کی فطرت میں خیر اور شر دونوں پہلو موجود ہوتے ہیں اور وہ ان دونوں کے درمیان الجھتا رہتا ہے۔ کبھی وہ اذیت دینے والے کے روپ میں سامنے آتا ہے اور کبھی اذیت سہنے والے کے طور پر اپنی برداشت کا امتحان دیتا ہے۔ یہ دونوں رویے انسانی زندگی کی پیچیدگیوں کو ظاہر کرتے ہیں اور ہر انسان ان سے کسی نہ کسی طرح گزرتا ہے۔ اذیت دینا اور اذیت سہنا ایک دوسرے کے متضاد رویے ہیں، لیکن دونوں میں ایک قدر مشترک ہے کہ یہ انسانی جذبات اور احساسات کی عکاسی کرتے ہیں۔
اذیت دینا ایک عجیب طرح کا رویہ ہے۔ بعض لوگ اپنی طاقت، رتبے یا اختیار کے نشے میں دوسروں کو اذیت دیتے ہیں۔ وہ دوسروں کے دلوں کو زخمی کرکے اپنے آپ کو مضبوط محسوس کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ ایک طرح کی فتح ہے جو ان کی انا کو تسکین پہنچاتی ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ رویہ ان کی اندرونی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ ایسے لوگ بظاہر تو مضبوط نظر آتے ہیں، لیکن ان کے اندر خوف، ناکامی اور احساسِ کمتری کا زہر پھیلا ہوتا ہے۔ وہ اپنے اندرونی خلفشار کو چھپانے کے لیے دوسروں کو تکلیف پہنچاتے ہیں، تاکہ اپنی ذات کی ٹوٹ پھوٹ کو کسی نہ کسی طرح دبا سکیں۔
انسان جب اذیت دیتا ہے تو وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ خود بھی کبھی اس اذیت کا شکار ہو سکتا ہے۔ زندگی کے حالات بدلتے رہتے ہیں اور انسان کے رویے بھی۔ جو آج کسی کو اذیت دے رہا ہے، کل خود اسی اذیت کا سامنا کر سکتا ہے۔ اللہ کی سنت یہی ہے کہ ظلم اور زیادتی کرنے والا کبھی نہ کبھی اپنے کیے کا خمیازہ بھگتتا ہے۔ لیکن افسوس کہ انسان وقتی فتح کے نشے میں اپنی حقیقت کو بھول جاتا ہے اور اپنی طاقت کے نشے میں چور ہو کر دوسروں کے دلوں کو مجروح کرتا ہے۔
اذیت دینے کے مختلف پہلو ہیں۔ کبھی یہ جسمانی ہوتی ہے تو کبھی ذہنی اور روحانی۔ جسمانی اذیت براہِ راست ہوتی ہے، جس میں انسان دوسروں کے جسم کو تکلیف پہنچاتا ہے۔ لیکن ذہنی اور روحانی اذیت کہیں زیادہ گہری اور دردناک ہوتی ہے۔ ذہنی اذیت میں انسان دوسروں کے جذبات سے کھیلتا ہے، ان کی خودداری کو مجروح کرتا ہے اور ان کے ارمانوں کو پامال کرتا ہے۔ روحانی اذیت اس سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے، جب انسان دوسروں کے عقیدے، محبت یا بھروسے کو روند ڈالتا ہے۔ یہ اذیت نہ صرف دل کو زخمی کرتی ہے بلکہ روح کو بھی چیر کر رکھ دیتی ہے۔
بعض اوقات اذیت دینے کا عمل خود انسان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ جو شخص دوسروں کو تکلیف دے کر خوشی محسوس کرتا ہے، وہ دراصل اپنے اندر کی تاریکی سے جنگ کر رہا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ اندر سے کھوکھلے اور بکھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کے دلوں میں نفرت، بغض اور حسد کی آگ جل رہی ہوتی ہے، جو انہیں اندر سے کھا رہی ہوتی ہے۔ وہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے دوسروں پر اپنی برتری ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن یہ وقتی سکون ان کے ضمیر کو مطمئن نہیں کر پاتا۔ ایسے لوگ بظاہر مسرور نظر آتے ہیں، لیکن اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں۔
اذیت سہنا ایک الگ مگر پیچیدہ حقیقت ہے۔ انسان جب اذیت سہتا ہے تو اس کے دل پر بوجھ بڑھ جاتا ہے، لیکن وہ اپنی ذات کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اذیت سہنے کا عمل صبر اور حوصلے کا متقاضی ہے۔ جو لوگ اذیت کو برداشت کرتے ہیں، وہ وقت کے ساتھ ساتھ مزید مضبوط اور باشعور ہو جاتے ہیں۔ ان کے دل میں سکون اور اطمینان پیدا ہوتا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہر تکلیف کے بعد راحت آتی ہے۔ اذیت سہنے والے لوگ اپنے دل کی گہرائیوں میں ایک عجیب قسم کی روشنی محسوس کرتے ہیں، جو ان کی روح کو تقویت بخشتی ہے۔
اذیت سہنے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ انسان کو عاجزی سکھاتا ہے۔ جب انسان کسی کی دی گئی تکلیف کو صبر کے ساتھ سہتا ہے تو وہ اپنی انا کو مجروح نہیں ہونے دیتا۔ وہ جانتا ہے کہ اللہ کی رضا کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ وہ اپنی آزمائش کو اللہ کی طرف سے سمجھ کر خاموشی سے سہتا رہتا ہے۔ یہی صبر اور حوصلہ اس کی روحانی ترقی کا باعث بنتا ہے۔ اذیت سہنے کا عمل دراصل اللہ کے قریب ہونے کا ذریعہ بن جاتا ہے، کیونکہ اللہ صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
کبھی کبھار اذیت سہنا انسان کے لیے ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی برداشت کی حد تک پہنچ جاتا ہے اور پھر بغاوت پر اتر آتا ہے۔ یہ بغاوت کبھی خاموش ہوتی ہے اور کبھی پرتشدد۔ لیکن جو لوگ صبر کا دامن نہیں چھوڑتے، وہی اصل کامیاب ہوتے ہیں۔ ان کی روحانی بلندی اور اللہ پر بھروسہ انہیں سکون عطا کرتا ہے۔ اذیت سہنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ انسان کو معاف کرنے کی قوت عطا کرتا ہے۔ جو لوگ دوسروں کی زیادتیوں کو معاف کر دیتے ہیں، وہ دراصل اپنی روح کو آزاد کر لیتے ہیں۔ معافی انسان کو ہلکا اور پرسکون کر دیتی ہے، جبکہ انتقام کی آگ اسے مزید جلاتی ہے۔
اذیت دینا اور اذیت سہنا دونوں رویے انسانی نفسیات کے مختلف پہلوؤں کو ظاہر کرتے ہیں۔ جو لوگ دوسروں کو اذیت دیتے ہیں، وہ اندر سے ٹوٹے ہوئے اور شکست خوردہ ہوتے ہیں۔ ان کے دل میں بے چینی اور اضطراب ہوتا ہے، جو انہیں سکون سے محروم کر دیتا ہے۔ جبکہ اذیت سہنے والے لوگ اپنی برداشت، صبر اور معاف کرنے کی صلاحیت سے خود کو مضبوط بناتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ زندگی کی مشکلات کو صبر کے ساتھ برداشت کرنا ہی اصل کامیابی ہے۔
زندگی کے اس فلسفے میں سب سے اہم سبق یہ ہے کہ انسان کو دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور محبت کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ کسی کو اذیت دینا انسانیت کے منافی ہے۔ انسان کا اصل جوہر اس کی انسانیت اور شفقت میں ہے، نہ کہ اس کی طاقت اور برتری میں۔ جو لوگ دوسروں کو اذیت دینے کے بجائے ان کے دکھوں کو بانٹتے ہیں، وہی اصل میں کامیاب ہیں۔ ان کے دل میں سکون، روح میں اطمینان اور ضمیر میں پاکیزگی ہوتی ہے۔
اذیت سہنے والوں کو اللہ کے قریب رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ ان کے صبر کو ضائع نہیں کرتا اور ان کے دلوں کو اطمینان عطا کرتا ہے۔ جو لوگ اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں اور دوسروں کی زیادتیوں کو معاف کر دیتے ہیں، وہی اصل میں عظیم لوگ ہیں۔ اذیت سہنے والوں کو کبھی بھی اپنی برداشت کو کمزوری نہیں سمجھنا چاہیے، کیونکہ یہی ان کی اصل طاقت ہے۔ اللہ ان کے دلوں کو مضبوط اور ان کی روحوں کو پاکیزہ بنا دیتا ہے۔
زندگی میں اگر ہمیں اذیت سہنی پڑے تو ہمیں صبر کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اللہ کی رضا کے بغیر کچھ نہیں ہوتا اور جو تکلیف ہمیں پہنچی ہے، وہ بھی اللہ کی حکمت کا حصہ ہے۔ ہمیں اپنی تکلیفوں کو اللہ کے حضور پیش کرنا چاہیے اور اس سے مدد مانگنی چاہیے۔ اذیت دینے والوں کے لیے دعا کریں کہ اللہ انہیں ہدایت دے اور ان کے دلوں کو نرم کر دے۔
زندگی کا یہ سبق ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اذیت دینا بظاہر طاقتور ہونے کا احساس دلاتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ اندرونی شکست کا اظہار ہے۔ جبکہ اذیت سہنا انسان کو مضبوط، پختہ اور اللہ کے قریب کر دیتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ دوسروں کے ساتھ محبت اور شفقت کا رویہ اپنائیں اور کسی کو تکلیف نہ دیں۔ اللہ ہمیں صبر اور استقامت عطا فرمائے اور ہمارے دلوں کو سکون سے بھر دے۔