Islam Mein Dil Azari
اسلام میں دل آزاری
اسلام دین فطرت ہے جو انسانی زندگی کے ہر پہلو کو احسن طریقے سے سنوارنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس میں جہاں عبادات کو اہمیت دی گئی ہے، وہیں اخلاقیات کو بھی بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ دل آزاری اسلام کی نظر میں ایک ایسا گناہ ہے جو نہ صرف دوسروں کے لیے تکلیف دہ ہوتا ہے بلکہ اللہ کے نزدیک بھی ناپسندیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے حقوق کی ادائیگی پر بہت زور دیا ہے اور یہ حقوق اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتے جب تک انسان دوسروں کے جذبات اور احساسات کا خیال نہ رکھے۔ دل آزاری ایک ایسا عمل ہے جو تعلقات کو کمزور کرتا ہے، دلوں میں دوریاں پیدا کرتا ہے اور انسانوں کے درمیان اختلافات کی دیواریں کھڑی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس عمل سے بچنے کی سخت تاکید کی ہے۔
قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ مسلمان کو اپنی زبان اور اعمال پر قابو رکھنا چاہیے تاکہ وہ کسی کے دل کو ٹھیس نہ پہنچائے۔ سورۃ الحجرات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کسی کا مذاق نہ اڑاؤ اور نہ ایک دوسرے کو برے القابات سے پکارو، کیونکہ یہ عمل دل آزاری کا باعث بنتا ہے اور اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ قرآن کی یہ آیت ہمیں دوسروں کے جذبات کا احترام کرنے اور ان کے ساتھ شفقت و محبت سے پیش آنے کی تلقین کرتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی حیاتِ طیبہ اس بات کی بہترین مثال ہے کہ ایک مسلمان کو کیسا ہونا چاہیے۔ آپ ﷺ نے کبھی کسی کے دل کو دکھایا نہیں بلکہ ہمیشہ نرم رویہ اختیار کیا، چاہے مخالفین کی جانب سے کیسی ہی سختی کیوں نہ کی گئی ہو۔ آپ ﷺ نے ہمیشہ معافی، درگزر اور شفقت کے اصول اپنائے اور یہی اصول ہمیں اپنے کردار میں اپنانے کی تلقین کی گئی ہے۔
دل آزاری کے مختلف پہلو ہو سکتے ہیں۔ یہ صرف الفاظ تک محدود نہیں بلکہ اعمال اور رویوں کے ذریعے بھی کسی کو دکھ پہنچایا جا سکتا ہے۔ سخت لہجے میں بات کرنا، طنز کرنا، کسی کی کمزوریوں کا مذاق اڑانا یا انہیں سب کے سامنے نمایاں کرنا، یہ سب دل آزاری کے مختلف انداز ہیں۔ بعض اوقات دل آزاری غیر ارادی طور پر بھی ہو سکتی ہے، جیسے کسی کے مسائل کو نظر انداز کرنا یا اس کے جذبات کی قدر نہ کرنا۔ لیکن اسلام نے ہر صورت میں یہ تعلیم دی ہے کہ ہمیں دوسروں کے ساتھ ایسا رویہ اپنانا چاہیے جو ان کے دل کو خوش کرے، نہ کہ ان کے جذبات کو مجروح کرے۔
رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث ہے: "مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں"۔ یہ حدیث اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ اسلام میں زبان اور اعمال پر کس قدر زور دیا گیا ہے۔ انسان کے الفاظ اور اعمال اس کی شخصیت اور ایمان کا عکس ہوتے ہیں اور ایک مومن کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے الفاظ اور اعمال سے کسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔ نبی کریم ﷺ نے ہمیشہ دوسروں کے جذبات کا احترام کیا اور صحابہ کرام ؓم کو بھی یہی تعلیم دی کہ وہ لوگوں کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آئیں۔
دل آزاری کے اثرات صرف انفرادی سطح تک محدود نہیں رہتے بلکہ یہ معاشرتی سطح پر بھی سنگین نتائج کا باعث بنتے ہیں۔ جب کوئی شخص کسی کے جذبات کو مجروح کرتا ہے، تو یہ عمل دلوں میں کینہ اور بدگمانی پیدا کرتا ہے۔ یہ رشتوں میں دراڑ ڈال سکتا ہے اور محبت کے بندھن کو کمزور کر سکتا ہے۔ بعض اوقات دل آزاری کے سبب لوگ ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں اور یہ فاصلے کبھی کبھار مستقل جدائی کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس عمل کو نہایت سنگین قرار دیا ہے اور اس سے بچنے کی تاکید کی ہے۔
اسلام میں دل آزاری کا کفارہ یہ ہے کہ فوراً معافی مانگ لی جائے اور جس شخص کا دل دکھایا گیا ہو، اس کے جذبات کو بحال کرنے کی کوشش کی جائے۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور معافی مانگنے سے نہ صرف گناہ کم ہوتا ہے بلکہ دلوں میں محبت اور قربت بھی پیدا ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی زندگی اس بات کی گواہ ہے کہ معافی اور درگزر انسان کے کردار کو بلند کرتی ہے۔ آپ ﷺ نے کبھی کسی کے ساتھ سخت رویہ نہیں اپنایا بلکہ ہمیشہ محبت اور شفقت کا مظاہرہ کیا۔ یہی رویہ ہمیں بھی اپنی زندگی میں اپنانا چاہیے۔
دل آزاری سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے الفاظ اور اعمال پر قابو رکھیں۔ بات کرنے سے پہلے یہ سوچیں کہ آیا ہماری بات کسی کو تکلیف تو نہیں دے گی۔ اگر کوئی ایسی بات یا عمل ہو جائے جس سے کسی کا دل دکھے، تو فوراً اپنی غلطی کو تسلیم کریں اور معذرت کریں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ یا تو اچھی بات کرے یا خاموش رہے"۔ اس حدیث سے یہ سبق ملتا ہے کہ زبان کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے تاکہ کسی کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے۔
اسلام نے دل آزاری کے بجائے محبت، شفقت اور درگزر کو فروغ دینے کی تعلیم دی ہے۔ یہ اصول نہ صرف انفرادی زندگی کو بہتر بناتے ہیں بلکہ معاشرے میں امن اور ہم آہنگی پیدا کرتے ہیں۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انسان خطا کا پتلا ہے اور ہر شخص سے غلطی ہو سکتی ہے، لیکن معافی اور درگزر ہی وہ اوصاف ہیں جو انسان کو دوسروں کے قریب کرتے ہیں۔ دل آزاری کے بجائے ہمیں دوسروں کے دل جیتنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ یہی وہ راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا سبب بنتا ہے۔
زندگی بہت مختصر ہے اور اسے ناراضگی یا دل آزاری میں ضائع کرنے کے بجائے محبت اور ہمدردی میں گزارنا چاہیے۔ ہر انسان کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنے الفاظ اور اعمال کے ذریعے دوسروں کے لیے سکون اور خوشی کا ذریعہ بنے، نہ کہ تکلیف کا۔ یہی اسلام کی اصل روح ہے اور یہی پیغام ہمیں رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ سے ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دوسروں کے جذبات کا احترام کرنے اور دل آزاری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔