Siasi Balayen
سیاسی بلائیں

یاد آتا ہے۔۔ کبھی پڑھا تھا کہ ایک سیاسی رہنما کی خاطر کسی نے خود پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا لی۔۔ پڑھ کر جھرجھری آگئی کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ کیا انسان کی محبت دوسرے انسان کو اس موڑ پر لے جا سکتی ہے؟
یاد آتا ہے۔۔ کسی کو کرسی اقتدارِ سے اترنے کے بعد انقلابی بننے کا خیال آیا۔ انقلاب کے اس سفر کے دوران ایک کم عمر لڑکا لیڈر کو دیکھنے کے شوق میں پروٹوکول کی گاڑی سے ٹکرا کر جان کی بازی ہار گیا۔ لیڈر نے اسے انقلاب کے راستے کا پہلا شہید قرار دیا۔ غریب والدین کے اس عظیم نقصان کا ازالہ ہوگیا؟ اکثر یہ سوچ ذہن میں آتی ہے۔
یاد آتا ہے۔۔ ایک بہادر سیاسی لیڈر کی حفاظت پر معمور ایک جوان لڑکا بے دردی سے مارا گیا۔ جس کے والدین سے اپنے گھر بلا کر تعزیت کی گئی۔۔ کیا والدین نے اس لیے مشقتیں اٹھا کر جوان کیا تھا۔۔ یہ سوچ دل اداس کر دیتی ہے۔۔
یاد آتا ہے۔۔ ایک جوان غریب لڑکا جو جلسوں میں اردو تقریریں کرتا تھا۔ اپنے غیر ملک میں بیٹھے لیڈر کے نظریہ کی خاطر نظمیں پڑھتا تھا۔۔ اسے اپنی ہی جماعت کے لوگوں نے قتل کردیا۔ میڈیا پر فوٹیج بھی چلی۔۔ مگر کیا انصاف ملا؟
ایسے ہزاروں واقعات ہوں گے۔ جو وقت کی دھول تلے دب گئے۔۔ سیاسی لیڈر انھیں بھول کر آگے بڑھ گئے۔ کسی نے پلٹ کر نہیں پوچھا کہ والدین اور خاندان کے دل پر کیا گزری۔۔
پھر بھی عام عوام کیوں بیوقوف بنتی ہے۔ سمجھ سے بالاتر ہے۔
اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی حضرت محمد ﷺ کی محبت کے علاؤہ کسی کی محبت میں حد سے بڑھ جانے کی شدید ممانعت ہے۔ حتی کہ آپ کی خود کی پیدا کی ہوئی اولاد کو بھی آزمائش قرار دیا گیا ہے۔ شوہر اور بیوی کے لیے بھی حکم ہے کہ ایک دوسرے سے محبت کرو۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔
پھر ہم کیوں ان سیاسی لیڈرز کی اندھی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں؟ اس سوال کا جواب کوئی دے گا؟
یاد رکھیں اولاد اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ یہ صرف پیدا کرنے والے کے لیے اہم ہے۔ کوئی سیاسی لیڈر کبھی بھی اپنے بیٹے یا بیٹی کی جگہ آپ کو کبھی نہیں دے گا۔ چاہے آپ اس کے آگے اپنے وجود کو کاٹ کر پیش کر دیں۔ وہ آپ کا کندھا تھپتھپا کر آگے نکل جانے گا۔
یہ سیاسی بلائیں ہیں جو آپ کے بچوں کو ورغلا کر بہلا کر ان کا خون چوستی ہیں اور اقتدار کی طاقت حاصل کرتی ہیں۔
کیا اتنا کم ہے کہ ہم عوام انھیں ووٹ دے کر اقتدارِ کی منصب پر بٹھا دیتے ہیں اور یہ سیاہ و سفید جو چاہیں وہ کریں۔ انھیں اختیار دے دیتے ہیں۔
خدارا اندھی محبت سے چھٹکارا پائیں۔ اپنے بچوں کا مستقبل داؤ پرمت لگائیں۔ لیڈر سے محبت اس کے فلاحی کاموں یا نظریات کی وجہ سے ہو جاتی ہے۔ مگر اس پسندیدگی کے پیچھے اپنی زندگی برباد مت کریں۔ کیوں کہ یہ شرک ہے اور شرک کی معافی ہرگز نہیں ملے گی۔