Ye Kainat
یہ کائنات

لاکھوں کروڑوں درود و سلام آپ سرکارﷺ کی ذاتِ اقدس پر۔
وُسعتِ کائنات کا اندازہ کرنا بہت مشکل ہے۔ زمین کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے ساحل سمندر پر ریت کا ایک ذرہ۔ یہ بھی ایک اندازہ ہی ہے۔ کائنات اس سے بھی وسیع ہے۔ اگر زمین ایک ذرہ ہے ساحلِ سمندر کی ریت پر تو زمین میں ایک ملک، ملک میں ایک شہر، شہر میں ایک گھر اور اس گھر میں بیٹھا انسان کیا حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مقام ہے غور و فکر کا۔
اتنی وسیع کائنات کیوں تخلیق کی گئی کیا ضرورت تھی اتنی وسیع کائنات تخلیق کرنے کی اور حضرتِ انسان کی اُس میں کیا حیثیت ہے اور کیوں ہے۔ انسان کے لیے تو سیارہ زمین ہی کافی تھا۔
سائنس کائنات کی تخلیق کو بگ بینگ تھیوری سے تعبیر کرتی ہے، کہ ایک آفاقی دھماکے کے نتیجے میں وجود میں آئی، لیکن اگر یہ ایک بے ترتیب دھماکہ تھا تو اس میں اتنا حُسنِ ترتیب کیوں موجود ہے۔ یہ سمندر یہ پہاڑ یہ دریا یہ درخت یہ سورج یہ چاند، ستارے وغیرہ ایسے ہیں جیسے حضرتِ انسان کے فائدے اور غور و فکرکے لیے تخلیق کیے گئے ہیں۔
اگر کائنات کا وجود بگ بینگ تھیوری سے ہی تعبیر کیا جائے تو ایک بے ہنگم بے ترتیبی اِس کا خاصہ ہونی چاہیے تھی۔ مگر ایسے نہیں ہے، ذہن نہیں مانتا۔ تمام اجزائے کائنات ایک ترتیب کے ساتھ موجود ہیں یہ سیارے یہ ستارے یہ سورج یہ چاند اپنی اپنی ترتیب میں اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں۔ یہ بے ہنگم اور بے ترتیب نہیں ہیں۔
کیا یہ کائنات جو انسانی آنکھ دے سکتی ہے صرف اتنی ہے اس کا پھیلاؤ اس کی وسعت کس حد تک ہوگی۔ سائنس تو ظاہری کائنات کو ہی دریافت نہیں کر سکتی پوری طرح سے مخفی کائنات کو کون دریافت کرے گا۔
یہ میلہ تو کن فیکون کے بعد کا ہے جو آنکھ دیکھ سکتی ہے، کن فیکون سے پہلے کیا تھا۔ کائنات سے پہلے کون سی کائنات تھی انسانی ذہن لاجواب ہے۔
ایک ظاہری کائنات ہے اور ایک باطنی کائنات ہے انسان کے اندر کا اندر۔ باطنی کائنات کا اس ظاہری کائنات سے کیا رشتہ ہے کیا اثرات ہیں کائنات کے انسان کے ظاہری اور باطنی وجود پر یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب کے لیے انسان آج بھی سرگرداں ہے اور سرگرداں رہے گا، عقل پرست سبب پر یقین رکھتے ہیں سبب سے آگے نہیں دیکھ سکتے، بات سمجھ آ جائے گی جب آپ مسبب پر یقین کریں گے۔
قران پاک میں ارشاد ہوتا کہ کائنات کو چھ سے سات دنوں میں تخلیق کیا گیا۔ ایک صدا آئی کن فیکون کی اور کائنات کا وجود عمل میں آیا، عقل لاجواب ہے اِس تخلیق کے سامنے عقل کی پہنچ سبب تک ہے یہ سبب سے آگے نہیں سوچ سکتی سبب سے آگے آپ کو صرف عقیدہ ہی لے کے جا سکتا ہے۔
اس کائنات کے واضح اثرات ہیں انسانی وجود پر، موسموں کی تبدیلی دن اور رات سردی اور گرمی یہ تمام چیزیں انسانی وجود پر اثرات رکھتی ہیں۔ یہ جو موسیقی میں راگ تخلیق کیے گئے ہیں یہ بھی وقت کے حساب سے ہیں دن کا اور دوپہر کا اور شام اور رات کے راگ اور ہیں، ہر وقت کا راگ آپ کے وجود پر مختلف اثرات رکھتا ہے۔
غور و فکر والے کہتے ہیں کہ بہترین وقت غور و فکر کا رات ہے رات کے پچھلے پہر خاص طور پر ایک بجے سے لے کر صبح کاذب تک۔ جو چیز آپ کو دن میں سمجھ آتی ہے رات کو اُس کا کچھ اور پہلو سمجھ میں آئے گا۔
گویا وقت بھی انسان کے باطن میں تبدیلی کرتا ہے اور اثرات رکھتا ہے۔ باطن کا باہری کائنات سے کیا رشتہ ہے کائنات تو بنی ہی حضرت انسان کے لیے ہے یہ منظر یہ نظارے انسانی آنکھ کے لیے ہیں، تاکہ وہ اللہ تعالی کی عظمت اور کبریائی کو جان سکے اور پہچان سکے۔ کوئی منظر کوئی نظارہ آنکھ دیکھتی ہے تو بات سمجھ آ جاتی ہے۔
شعراء نے مختلف استعارے کائنات سے لیے ہیں شاعری میں استعمال کرنے کے لیے، جیسے چاند، چاندنی، ستارے وغیرہ، چاند کو تعبیر کیا گیا ہے محبوب سے اور چاندنی کو محبوب کی یاد سے۔
اہلِ ذوق اِن کے مختلف پہلو اور جہتیں بیان کرتے رہتے ہیں۔ کروڑوں انسان اِس کائنات میں آئے اور گزر گئے ایک فرد کا کائنات میں آنا کوئی چھوٹا واقعہ نہیں ہے، کروڑوں سال کی انویسٹمنٹ ہے کائنات کی ایک انسان کے پیچھے۔
کروڑوں سال کا وقت گزرنے کے بعد حضرت انسان آج اِس مقام اور اِس زمانے میں موجود ہے آپ کا آنا بیکار نہیں ہے اور آپ کا یہاں سے جانا بھی بیکار نہیں ہے یہ ایک راز ہے بات صرف غور و فکر اور سمجھنے کی ہے۔
کائنات کا وجود اشارہ ہے حضرت انسان کے لیے غور و فکر کرنے کا کائنات پر اور اس کے مظاہر پر، آنے والے زمانے ہو سکتا ہے نئی جہتیں اور نئی دریافتیں کریں۔ نئی سے نئی تھیوریاں پیش کی جائیں کائنات کو سمجھنے کے لیے اور اس کا رشتہ انسان کے ظاہر اور باطن سے جوڑنے کے لیے جوں جوں زمانہ اور اگے بڑھے گا کائنات کے راز افشاں ہوں گے اور حضرت انسان پر کھلیں گے، غور و فکر کا دروازہ بند نہیں ہونا چاہیے۔
ایک یقین اور ایک عقیدے کے ساتھ۔ اللہ تعالی آپ کے لیے آسانیاں فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔