گھروں کی چھتوں پر سولر پینلز لگوانے والے "مراعات یافتہ"

عمر کے آخری حصہ میں عرصہ ہوا داخل ہوجانے کے باوجود ہفتے کے پانچ دن صبح اٹھ کر یہ کالم لکھنا ضروری ہے۔ صرف میری کمائی سے مگر گھر کا خرچہ پورا ہو نہیں سکتا۔ اپنے ماں باپ کی بہت لاڈلی اور دو بھائیوں کی اکیلی بہن ہوتے ہوئے بھی میری بیوی نے شادی کے تین ماہ بعد سے کام شروع کردیا۔ اس کی وجہ سے ہمارے گھر کی پہچان سفید پوش، ہوگئی۔ سفید پوشی برقرار رکھنے کی خاطر ہی وہ ابھی تک کام کرنے کو مجبور ہے اور اس کا کام میرے کام سے زیادہ مشکل اس وجہ سے بھی ہے کیونکہ ہفتے میں دو تین بار اسے اسلام آباد سے نکل کر دوسرے شہروں میں تحقیق کی خاطر جانا ہوتا ہے۔ ہم دونوں کو اپنے کام سے جو معاوضے ملتے ہیں ان پر واجب ٹیکس ہمیں عوضانہ ملنے سے قبل ہی کاٹ لیے جاتے ہیں۔ عمر تمام مشقت کی چکی میں پس کر سفید پوشی برقرار رکھنے کے باوجود لیکن حکومت نے مجھے مراعات یافتہ، طبقات میں شمار کرنا شروع کردیا ہے۔
گنتی بھر مراعات یافتہ، افراد کی صف میں محض اس وجہ سے ڈالا گیا ہوں کیونکہ آج سے تقریباً تین سال قبل جب ہم میاں بیوی کی اجتماعی آمدنی کا تقریباً 30 فیصد بجلی کے بل ادا کرنے میں صرف ہونا شروع ہوگیا تو ہم نے مشکل سے بچائی رقوم خرچ کرکے اپنے گھر کی چھت پر سولر پینل لگوالیا۔ وہ لگنے کے باوجود گزشتہ ایک برس سے ہم پریشان ہونا شروع ہوگئے کیونکہ حکومت نے دن کے اوقات میں سورج سے پیدا ہوئی بجلی خریدنے، کے جو دام طے کررکھے تھے اس قیمت کا آدھا بھی نہیں تھے جو نام نہاد پیک آورز، یعنی شام ڈھلنے کے بعد خرچ ہوئی بجلی کے لیے ادا کیے جاتے ہیں۔ ہماری اور حکومت کی فراہم کردہ بجلی کے نرخوں کے مابین تیزی سے بڑھتے فرق کی پریشانی کے ساتھ بے شمار عنوانات سے اضافی رقوم بھی بلوں میں شامل کی جاتی ہیں۔ ان کا بوجھ برداشت کرتے ہوئے دل کو مگر یہ سوچ کر تسلی دیتے رہے کہ اگر سولر نہ لگا ہوتا تو شاید ہم میاں بیوی کی اجتماعی کمائی کا کم از کم 40 فیصد بجلی کے بلوں کی نذر ہوجاتا۔
حکومت مگر سفید پوشوں کی محدودات جاننے کو آمادہ نہیں۔ نہایت رعونت سے بتائے چلی جارہی ہے کہ ہمارے معاشرے کے محض چند مراعات یافتہ، افراد نے اپنی چھتوں پر سولر پینل لگواکر غریب عوام کی وسیع تر اکثریت کے لیے بجلی کی قیمت کو ناقابل برداشت بنادیا ہے۔ غریبوں کی زندگی اجیرن بنانے کے جرم کی وجہ سے اب ہمیں جرمانہ، ادا کرنا ہوگا۔
سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لیے مان لیتا ہوں کہ میں اپنے گھر کی چھت پر سولر پینل لگوانے کی وجہ سے مراعات یافتہ، ہوگیا ہوں۔ اس کی وجہ سے غریب کے لیے بجلی خریدنا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ میں جو بجلی خرچ کرتا ہوں اس کی قیمت لہٰذا غریبوں، کی طرح ہی ادا کروں۔ مراعات یافتہ، افراد کی صف میں کھڑے ہونے کا جرمانہ ادا کرنے کے باوجود مجھے یہ خوف لاحق ہے کہ غریب آدمی کے لیے بجلی اتنی ہی مہنگی رہے گی جتنی اس وقت ہے۔ وجہ اس کی بنیادی اور واضح ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے آپ کو علم معاشیات کی ڈگری درکار نہیں اور یہ وجہ ہے گردشی قرضہ، جو حکومت کے ذمہ واجب ہے۔
میرے اور آپ کی رائے پوچھے بغیر سرکار مائی باپ نے آج سے چند دہائیاں قبل یہ فیصلہ کیا کہ وہ بجلی پیدا کرنے کے قابل نہیں۔ نجی شعبے سے درخواست کی جائے کہ وہ بجلی پیدا کرے۔ اس کی پیدا کردہ بجلی کی قیمت بھی میں نے اور آپ نے طے نہیں کی۔ یہ فیصلہ بھی غریب عوام نے نہیں کیا تھا کہ حکومت سیٹھوں کے لگائے کارخانوں سے خریدی بجلی کے یونٹوں کی ادائیگی کے بجائے انھیں زیادہ سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کو راغب کرنے کے لیے ان کے لگائے کارخانوں کی Capacity (استعداد) کے برابر ادائیگی کرے گی۔ فرض کیا ایک صنعت کار نے جو کارخانہ لگارکھا ہے وہ مثال کے طورپر روزانہ کی بنیاد پر بجلی کے سویونٹ پیدا کرسکتا ہے۔ حکومت مگر اس سے 50یا 60یونٹ ہی خرید سکتی ہے۔ بقیہ 40 یا 50 یونٹ کی کھپت ممکن نہیں۔ کھپت کے ذرائع نہ ہونے کے باوجود حکومت مگر نجی شعبے میں بجلی پیدا کرنے والے کو سو یونٹ خریدنے، کی ادائیگی کررہی ہے۔
نجی شعبے کو بجلی پیدا کرنے کی جانب راغب کرنے کے لیے سرکار مائی باپ نے جو معاہدے کیے وہ کسی بھی اعتبار سے سرمایہ ادارانہ نظام سے بھی مطابقت نہیں رکھتے۔ سرمایہ داری کی بنیاد ہی طلب اور رسد کی حرکیات ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے حقیقی طلب، کے مطابق کارخانے لگوانے کے بجائے خود کو مستقبل، کے لیے تیار کرنے کا بہانہ بنایا اور کل، کی تیاری کرتے ہوئے آج، کو مشکل سے مشکل تر بنادیا۔ ضرورت کے مطابق بجلی خریدنے کے بجائے اسے پیدا کرنے والے کی استعداد، کی ادائیگی شروع کردی اور اب بحیثیت قوم ہم گردشی قرضوں کے گرداب میں پھنس چکے ہیں۔
بجلی پیدا کرنے والے سیٹھوں نے کمال مکاری سے قانونی اعتبار سے معاملہ ایسا بنایا کہ نجی شعبے میں بجلی پیدا کرنے والے عمومی طورپر غیر ملکی سرمایہ کار، نظر آئے۔ ہمارے سیٹھوں کی غیر ملکی سرمایہ کار، کے ساتھ شراکت داری، نے نجی شعبے میں بجلی پیدا کرنے والوں کو حکومت کے مقابلے میں طاقتور بنادیا۔ حکومت ان کے ساتھ بس بھئی بس، والا رویہ اختیار کرے تو نہ صرف غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی، ہوگی بلکہ معاہدوں کی خلاف ورزی کے سبب پاکستان بین الاقوامی عدالتوں میں بھی رگیدا جائے گا اور وہاں سے ویسے ہی فیصلے آئیں گے جیسے ریکوڈک کے حوالے سے آئے تھے۔ سوجوتوں کیساتھ سوپیاز کھانے والا معاملہ۔
آئی ایم ایف بھی غیر ملکی سرمایہ کار، کے ساتھ کھڑا ہے۔ حکومت کو صاف بتاچکا ہے کہ ملک کو دیوالیہ سے بچانا ہے تو گردشی قرضوں کی جلد از جلد ادائیگی یقینی بنانے کے لیے شہریوں کو مجبور کرو کہ وہ ہر صورت حکومت کی فراہم کردہ بجلی کو زیادہ سے زیادہ خرچ کریں اور اس خرچ کی وہ قیمت ادا کریں جو کسی بھی اعتبار سے معقول نہیں ہے۔ اسی باعث آئی ایم ایف کے وفد کی گزشتہ ہفتے پاکستان موجودگی کے دوران ہی مجھ جیسے سفید پوش افراد کو مراعات یافتہ، ٹھہرادیا گیا ہے۔ نیشنل گرڈ کے لیے دن کے اوقات میں حکومت کے لیے نسبتاً سستے داموں بجلی پیدا کرنے والے صارف سورج ڈھلنے کے بعد خرچ ہوئی بجلی کی کم از کم ڈھائی گنا زیادہ قیمت ادا کرتے ہیں۔ ان کی مگر حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔
ٹیکنالوجی اگرچہ بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ مارکیٹ میں ایسی بیٹریاں موجود ہیں جو آپ کے چھت پر لگے پینلوں سے پیدا ہوئی بجلی کو کسی نہ کسی انداز میں سورج ڈھلنے کے بعد استعمال کے قابل بناسکتی ہیں۔ سفید پوشی سے مراعات یافتہ، ہوئے افراد بتدریج اس ٹیکنالوجی سے رجوع کرنے کو مجبور محسوس کریں گے۔ سرکار مائی باپ بجلی کے حوالے سے مراعات یافتہ، طبقے کے خلاف نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کے خلاف جنگ چھیڑبیٹھی ہے اور نت نئی ایجادات کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہونے والی طاقتور ترین حکومتیں بھی بالآخر تھک کر ڈھیر ہوگئیں۔ خلافت عثمانیہ کے زوال کی گھڑی اس دن شروع ہوئی جب چھاپہ خانہ کی ممانعت ہوئی اور گھڑیال، کو مکروہ ٹھہراکرپھانسی کی سزا سنائی گئی۔