Monday, 17 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Najeeb ur Rehman
  4. Imtihanat Aur Booti Mafia

Imtihanat Aur Booti Mafia

امتحانات اور بوٹی مافیا

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اس نے زندگی میں کبھی کوئی امتحان چاہے معمولی ہو یا اہم ترین، دیا ہو اور اس پر ایک انجانا خوف طاری نہ ہوا ہو۔ امتحان چاہے بڑا ہو یا چھوٹا اور اسی امتحان کے نتیجہ کا ایک خوف ہر ایک کا خون خُشک کر دیتا ہے۔ جس طرح ہمارے توہمات کے مطابق بھوت نظر نہیں آتا، بالکل اسی طرح کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ امتحان میں کیا پوچھا جائے گا، کون سے سوالات آئیں گے اور کیا وہی آئیں گے جن کو امیدوار نے ذہن نشین کیا ہو۔ انسانی زندگی کو بھی اسی لیے ایک امتحان کہا گیا ہے کہ انسان کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اُسے زندگی میں کن حالات و واقعات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یہاں تک کہ ایک ذہین طالبعلم بھی امتحان اور رزلٹ کے خوف کے سائے سے بچ نہیں پاتا کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے امتحانات کے امتحانی سنٹرز، پرچوں کی ترسیل کے دوران اور پیپرز کی چیکنگ کے وقت کیا کیا دو نمبریاں، ناجائز ذرائع اور اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں، کن وَن سَونے طریقوں سے بوٹیاں لگوائی جاتی ہیں، کیسے پورے کے پورے امتحانی سنٹرز خریدے جاتے ہیں، کیسے طلباء یونینز کے کارندے امتحانی عملے کو ہراساں کرکے طالب علموں کو بوٹیاں لگواتے ہیں اور کیسے امتحانی عملہ چند ٹکوں کی خاطر طلباء کو ناجائز ذرائع کے ذریعے نقل کروا کر حقدار طلباء کا حق مارتا ہے۔

تعلیم کا مقصد حصولِ علم ہوتا ہے نہ کہ حصول ڈگری۔ جہاں حصولِ علم مقصد ہو وہاں پر امتحانات میں ناجائز ذرائع استعمال کرکے کامیابی حاصل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے ہم کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ہمارے نظام تعلیم کے کرتا دھرتا اپنی نااہلیوں، کوتاہیوں اور خامیوں و کمزوریوں کو طلباء کے سر تھوپ کر گلو خلاصی چاہتے ہیں کہ طلباء پڑھتے نہیں ہیں اس لیے بوٹیاں مار کر امتحانات میں پاس ہوتے ہیں۔ حالانکہ طلباء کو تعلیم دینا تعلیمی پالیسی سازوں، اساتذہ اور پیپر تیار کرنے والوں معہ پیپرز چیک کرنے والوں کی ہے۔ اگر وہ بچوں کو حصول علم کی غرض و غایت سے تعلیم دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ بچے بوٹیوں کا سہارا لیں۔ یہ اساتذہ ہی ہیں جو بچوں کو امتحانات میں کامیابی کے لیے شارٹ کٹس بتاتے ہیں، انہیں گیس پیپرز دیتے ہیں، انہیں مختلف پبلشرز کے چھاپے ہوئے خلاصے خرید کر پڑھنے کو کہتے ہیں۔ حالانکہ اساتذہ اگر خود نصاب مکمل کروائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ بچے کامیابی حاصل نہ کر سکیں اور اعلیٰ گریڈز امتحانات میں حاصل نہ کر سکیں۔

جب طلباء امتحانات میں نقل کا سہارا لیتے ہیں تو اس سے یہ بھی واضح طور پر آشکار ہو جاتا ہے کہ ہمارا تعلیمی سسٹم بچوں میں درستگئی اخلاق پیدا نہیں کر سکا جو کہ بذات خود تعلیم کا ایک بڑا اور افضل ترین مقصد ہوتا ہے۔ آج طلباء و طالبات جس قسم کے اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں، وہ ہماری آپ کی نسبت محکمہ تعلیم کے اربابِ حل و عقد اس سے کہیں زیادہ واقف ہیں۔ اس اخلاق کے کئی ایک مظاہرے آئے روز دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ طالب علم کمرہ امتحان میں ببانگ دھل نقل کرتے ہیں۔ نگرانوں کو چاقوؤں سے زخمی کرتے ہیں۔ سپرنٹنڈنٹ پر اپنا رعب و دبدبہ ڈالنے کے لیے پستول تک نکال کر سامنے میز پر رکھ دیتے ہیں۔

افسوسناک امر تو یہ ہے کہ معمولی باتوں پر طالبعلم کمرہ امتحان میں ہی مشتعل ہو جاتے ہیں اور فرنیچر، دروازے، کھڑکیاں، ڈیسک، لائٹس توڑ دیتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ایسے طالبعلم چند ایک ہوتے ہیں مگر اپنے اس غیراخلاقی طرز عمل سے دیگر سنجیدہ طالب علموں کو بھی غلط راہ پر ڈالنے کا باعث بنتے ہیں اور وہ طلباء بھی جذباتی پن میں آ کر ہلڑ بازی میں شامل ہو جاتے ہیں۔ حکومت وقتی طور پر چند ایک رٹے رٹائے بیان دے دیتی ہے حالانکہ لوگ جانتے ہیں کہ یہ سیاسی پارٹیوں کے طلباء گروپ ہی ہوتے ہیں جو امتحانات کے ماحول کو تباہ کرتے ہیں۔

امتحانات میں نقل کی ایک بڑی وجہ امتحان کا ناقص طریقہ ہے۔ یہ ایسا طریقہ ہے کہ ہر پاس شدہ طالب علم کی ذہانت و لیاقت پر بھی شک و شبہ کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اے پلس گریڈ کے ساتھ امتحان پاس کرنے والے نے کسی دوسرے طالب علم سے مدد نہیں لی ہوگی یا امتحان میں نقل نہیں کی ہوگی۔ ایسے طالب علم کو نکما اس لیے بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس نے جن چند سوالوں کو رٹا لگایا تھا خوس قسمتی سے وہی پیپر میں سوالات آ گئے ہوں گے۔ کسی طالب علم کی شاندار کامیابی بارے اس کے رشتہ دار اپنے حسد کو ایسی ہی باتیں سُنا کر چھپاتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ اے پلس گریڈ والے طالب علم نے پوری کتابیں پڑھنے کی بجائے محض بنے بنائے سوالات کے جوابات پر مشتمل خلاصے ہی پڑھے ہوں جبکہ وہ کتابوں کے باقی ماندہ حصوں میں پوشیدہ علم سے ناواقف رہ گیا ہو۔

کتابیں پڑھنے سے علم تو حاصل ہو جاتا ہے مگر انسان کے اخلاقی اور روحانی پہلوؤں کی نشوونما نہیں ہوتی۔ کتابوں کا تو امتحان لیا جاتا ہے مگر ہمیں یہ پتہ نہیں چلتا کہ امتحان میں ایک کامیاب طالب علم کا اخلاقی و روحانی معیار کیا ہے کیونکہ ان کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔ اسی لیے طالب علم کے شعور میں علم کی صحیح عظمت کا تصور پیدا نہیں ہو پاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ تعلیم کا مقصد صرف چند کتب پڑھنا ہی نہیں ہوتا بلکہ تعلیم اس وقت تک نامکمل رہتی ہے جب تک کہ تعلیم و تربیت کا چولی دامن کا ساتھ نہ ہو۔ کچھ ایسی ہی صورتحال بارے علامہ اقبال نے کہا تھا:

وہ سجدہ، روحِ زمیں جس سے کانپ جاتی تھی
اُسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب

رواں دنوں بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کی زیر نگرانی میٹرک کے امتحانات ہو رہے ہیں۔ بورڈ نے امتحانات میں نقل کی روک تھام اور امتحانات میں سو فیصد شفافیت حاصل کرنے کے ہدف کے تناظر میں چند نئے طریقے استعمال کیے ہیں۔ ان میں قابل ذکر امتحانی مراکز میں ڈرونز کا استعمال اور کیو آر کوڈڈ رول نمبر سلپس کا اجراء ہیں۔ کیو آر کوڈ سے رول نمبر سلپ آن لائن کُھل سکے گی اور امیدوار کا تمام ڈیٹا مثلاً رول نمبر، تصویر، نام، ولدیت وغیرہ سے موقع پر تصدیق کا عمل مکمل کیا جا سکے گا۔ نتیجتاً نہ ہی جعلی رول نمبر سلپ تیار ہو سکے گی اور نہ ہی جعلی امیدوار کے بیٹھنے کی گنجائش باقی نہ رہے گی۔

ہم سمجھتے ہیں کہ بورڈ کے یہ اقدامات عارضی اور سطحی ہیں۔ امتحانات میں نقل اور ناجائز ذارئع استعمال کی بیخ کنی کے لیے قومی شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس خوفناک بے راہ روی کے خلاف سول سوسائٹی کو سامنے آنا چاہیے۔ احتجاجی جلسے جلوس نکلنے چاہیئیں۔ سیمینار منعقد کیے جائیں اور پمفلٹ شائع کیے جائیں۔ طلباء کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے والے سیاستدانوں کا گھیراؤ کیا جائے تاکہ وہ تعلیمی یونینز کے لیڈروں کو کھلی چھٹی نہ دیں کہ امتحانی سنٹرز پر ھلہ بول دیں۔ ناجائز ذرائع میں ملوث پائے جانے والے امتحانی عملے کے خلاف آہنی ہاتھوں کا استعمال کیا جائے۔ اساتذہ کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے تاکہ وہ بوٹیاں لگوا کر اپنی دیہاڑی بنانے کی سوچ ترک کر سکیں۔ امتحانات میں نقل کے بڑھتے رحجان کو روکنے کے لیے امتحانات کے طریقہ کار میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ طالب علموں میں اخلاقی اقدار کو پروان چڑھانے پر خصوصی توجہ دی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ امتحانات میں نقل کے رحجان کو جڑوں سے نہ اکھاڑا جا سکے۔ بقول پروین شاکر:

ممکن ہے باغ کو بھی نکلتی ہو کوئی راہ!
اس شہرِ بے شجر کو بہت بے ثمر نہ جان

Check Also

Danish Waro Ki Nahi Danish Mandon Ki Zaroorat

By Abdul Hannan Raja