تین بڑی بد دعائیں

حضرت کعب بن عجرہؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ ممبر کے قریب آ جائو، تو ہم لوگ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ممبر کے قریب پہنچ گئے، پھر آپ ﷺ نے ممبر کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا اور فرمایا آمین، پھر دوسری سیڑھی پر قدم رکھا اور فرمایا آمین، پھر تیسری سیڑھی پر قدم رکھا اور فرمایا آمین۔ نبی کریم ﷺ جب خطبے سے فارغ ہو کر نیچے اترے تو ہم نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسولﷺ! آج ہم نے آپ سے ایسی بات سنی جو پہلے کبھی نہیں سنی، تو آپ ﷺ نے فرمایا جبرئیلؑ میرے پاس آئے تھے، جب میں نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو انھوں نے کہا "ہلاک ہو جائے وہ شخص جس نے رمضان المبارک کامہینہ پایا اور پھر بھی اپنی بخشش نہ کروائی، یعنی اس شخص نے اس مہینے کا حق ادا نہیں کیا۔ آپﷺ نے فرمایا، اس پہلی بد دعا پر میں نے آمین کہا۔ جب میں نے دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو جبرئیلؑ نے بد دعا کی "ہلاک ہو جائے وہ شخص جس کے سامنے آپ کا ذکر ہو اور وہ آپ پر درود نہ بھیجے"آپﷺ نے فرمایا میں نے اس بددعا پر بھی آمین کہا۔ جب میں نے تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو جبرئیلؑ نے کہا"ہلاک ہو وہ شخص جس کے والدین یا ان دونوں میں سے ایک، بڑھاپے کو پہنچ جائے اور وہ ان کی خدمت کرکے جنت نہ کما سکے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں نے اس بدعا پر بھی آمین کہا۔
آپ پہلی بد دعا کو دیکھیں، ہم سب کی زندگیوں میں رمضان کا مہینہ آتا ہے مگر ہم اسے کیسے گزارتے ہیں، ہم "موسمی نمازی" ہونے کے باوجود رمضان کا مہینہ منافع خوری، سود، رشوت، جھوٹ، بددیانتی اور گالم گلوچ میں گزار دیتے ہیں، ہم یہ جانتے ہوئے بھی کہ کیا معلوم اگلے سال یہ عظیم مہینہ ہمیں میسر آئے، نہ آئے، ہم وہ سب کرتے ہیں جو ہمیں عام مہینوں میں بھی نہیں کرنا چاہیے۔ ہم رشوت کو گناہ نہیں سمجھتے کیوں کہ یہ ہمارے لیے محض چائے پانی ہوتا ہے، ہم سود کو بھی گناہ نہیں سمجھتے کیوں کہ ہمارے کاروبار کا حصہ ہے۔
ہم گالم گلوچ بھی اعزاز سمجھ کر دیتے ہیں بلکہ مزاح مزاح میں گالیوں کے انبار لگا دیتے ہیں، ہمارے نزدیک صرف یہ مزاح ہوتا ہے مگر رمضان کے مہینے میں بھی ہم اس مزاح سے باز نہیں آتے۔ بددیانتی ہماری زندگیوں میں ایسے داخل ہو چکی، اب تو ہمیں یہ اچنبھے کی بات لگتی ہی نہیں، ہم کاروبار سے لے کر اپنے معاملات زندگی تک دو نمبری کرتے ہیں، ہم رمضان کے مہینے میں بھی اس دو نمبری سے باز نہیں آتے کیوں کہ ہمارے نزدیک یہ عام سی بات ہے مگر خدا کے نزدیک بددیانتی کتنا بڑا جرم ہے، یہ آپ احادیث کی کتب سے دیکھیے۔
منافع خوری، ہمارے تاجر حضرات جو پانچ وقت کے نمازی ہوتے ہیں، صدقہ و خیرات میں بھی پہل کرتے ہیں، ہر سال عمرے کی آدائیگی بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں آپ ان کا انداز تجارت ملاحظہ فرمائیں، یہ رمضان کا انتظار کرتے ہیں، جو مال سال کے دیگر مہینوں میں فروخت نہیں ہو سکتا، یہ رمضان میں کرتے ہیں، یہ تاجر حضرات رمضان میں اشیائے خوردونوش اس قدر مہنگی دیتے ہیں کہ عام آدمی اچھی افطاری کا سوچ بھی نہیں سکتا، کوئی سبزی فروش ہے یا پھل فروش، ہاتھ نہیں پڑتا لہٰذا نبی کریم ﷺ کی بددعا کا اندازہ لگائیں کہ ہمارا رمضان کیسا ہونا چاہیے اور ہم کیسے گزارتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ کے دوسرے آمین پر سوچیں، ہم آپ ﷺکے نام پر کتنی مرتبہ درود پڑھتے ہیں، آپ اندازہ کریں جس عبادت کا ذکر خدائے لم یزل نے قرآن مقدس میں کر رکھا ہے، آیت کا مفہوم ہے کہ میں اور میرے فرشتے بھی حضرت محمد ﷺ پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والے لوگو! آپ بھی درود بھیجا کرو، اس سے بڑی کیا عبادت ہوگی مگر صدحیف ہمارے سامنے دن میں درجنوں مرتبہ آپ ﷺ کا اسم مبارک لیا جاتا ہے مگر ہم دھیان سے سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔
اذان کے دوران بھی دن میں پانچ مرتبہ آپ کا ذکر مبارک ہوتا ہے، تکبیر میں بھی پانچ مرتبہ مگر ہم اپنی دنیا میں مگن، کچھ علم ہی نہیں کہ اپنا کتنا بڑا نقصان کر رہے ہیں۔ درود و سلام ایک ایسا پاکیزہ عمل ہے جو انسان کے تن اور من کو ہر قسم کی آلائشوں، کثافتوں اور آلودگیوں سے پاک کر دیتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ راوی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا تھا کہ قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے زیادہ مجھ سے قریب وہ لوگ ہوں گے جو مجھ پر کثرت سے درود پڑھتے ہوں گے۔
تیسری بد دعا کے بارے سوچیں، کیا ہم سب اپنی زندگیوں میں والدین کا بڑھاپا نہیں دیکھتے، ہم ان کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں، ہم ان کے حکم اور ان کے مزاج کی پروا تک نہیں کرتے ہیں، ہم انہیں اتنا دکھ دیتے ہیں کہ وہ رو پڑتے ہیں، ہم ان کے سامنے چیختے چلاتے بھی ہیں اور کچھ بد بخت تو والدین پر ہاتھ تک اٹھاتے ہیں، دنیاوی جاہ و جلال اور دولت کی خاطر والدین کے ساتھ اجنبیوں والا سلوک اس معاشرے کا مزاج بن چکا ہے۔
ہمیں لگتا ہے کہ شاید یہ معمولی گناہ ہے مگر جس گنا ہ کے بارے جبرائیلؑ بددعا کریں، اللہ کے رسولﷺ آمین کہیں اور جگہ بھی مسجد نبوی ﷺ ہو تو آپ بتائیں کیا ایسی بددعائیں رد ہوں گی؟ بددعا کرنے والا فرشتوں کا سردار، بددعا پر آمین کہنے والا انبیا کا سردار اور جگہ، دنیا کی اہم ترین مسجد، کیا اس کے بعد بھی اس بددعا کی مقبولیت میں کوئی شک ہو سکتا ہے۔
آج ہم سب رمضان کے بابرکت مہینے سے گزر رہے ہیں، ان برکتوں سے فیض یاب ہو سکتے ہیں اگر ہم آج ہی تہیہ کر لیں کہ ہمارا رمضان کیسے گزرنا چاہیے اور ہم کیسے گزار رہے ہیں، ہمیں آج ہی سوچنا چاہیے کہ والدین کے بارے اللہ تعالیٰ کا حکم کیا ہے، نبی کریم ﷺ کے احکامات کیا ہیں اور ہم سب کہاں کھڑے ہیں، ہمیں یہ فیصلہ آج ہی کرنا ہوگا کہ درود کا اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں گے، زیادہ بھی نہین تو کم از کم روزانہ کی ایک تسبیح معمول ہونی چاہیے، جب جب نبی کریم ﷺ کا ذکر ہو، کم از کم اس وقت ہمیں ایک مرتبہ درود پڑھنا چاہیے۔ یہ تینوں عمل، ہماری زندگیوں کا رخ بدل سکتے ہیں، یہ تینوں عمل ہمیں خدا اور اس کے رسول ﷺ کا قرب عنایت کر سکتے ہیں۔