Monday, 17 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Iqbal
  4. Faisla

Faisla

فیصلہ

گیارہ مارچ کی صبح کوئٹہ سے چلنے والی جعفر ایکسپریس کو وادی بولان میں دہشتگردوں کا اغوا کر لینا انتہائی خطرناک اور غیر معمولی واقعہ ہے۔ ریاست پاکستان کا استعارہ جعفر ایکسپریس اور نہتے مسافروں پر دہشت گرد تنظیم کا منظم اور مسلح و پر تشدد حملہ درحقیقت ریاست پاکستان پر حملہ ہے۔ ریاست پاکستان پر حملہ کے اغراض و مقاصد اور بغاوت کے روپ دھارے دشمن کس ایجنڈا پر اور کن کی پراکسی ہیں؟ کیا یہ گوریلا وار فئیر محض حقوق کی جنگ ہے؟ گلوبل ورلڈ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نظریاتی دشمن الیکٹرانک، سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا پر حقوق و ہائی جیکنگ کے نام پر کیا پروپیگنڈہ اور کس کی پراکسی کا کردار ادا کر رہے ہیں؟ آج ان تمام موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔

بلوچستان پاکستان کے کل رقبہ کا چوالیس فی صد ہے اور جیو پولیٹکس میں پاکستان کی اہم ترین سٹرٹیجک لوکیشن پر واقع ہے۔ حسین ساحلوں، دشوار گزار پہاڑوں اور لق و دق صحراوں سے مزین بلوچستان ہمیشہ سے مشرقی ہمسایہ ملک کی خصوصی توجہ کا حامل رہا ہے اور بعین موجودہ علاقائی صورت حال میں پاکستان کے مشرقی و مغربی ہمسایہ کی پاکستان کے خلاف آپس میں بڑھتی محبتوں کی وجہ سے مغربی ہمسایہ ملک بھی بلوچستان کو ایک خاص نگاہ سے دیکھتا ہے۔

قوم پرست جماعتیں ہوں، یا ڈیولپمنٹ نہ ہونے کا شور مچانے والے، بلوچستان میں ہمیشہ سے پر تشدد اور ہتھیاروں کے ذریعے مطالبات منوانے کے قائل رہے ہیں۔ کوئٹہ میں موجود ہزارہ قوم پر مظالم ہوں یا قومیت کی بنا پر ایک خاص صوبے کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنانا اور برملا ایک خاص صوبے سے نفرت کا اظہار کرنا بلوچستان میں موجود ایک مخصوص سوچ کے حامل لوگوں کا ماضی میں وطیرہ رہا۔ مگر آج کے بلوچستان میں تشدد کے قائل اس مخصوص سوچ کے حامل ریاست پاکستان کی اکائی پر حملہ آور ہو چکے ہیں۔

ریاست پاکستان کی اکائی پر حملہ آور ہونے کے لیے قومیت، نسل، حقوق نہ ملنے کا بہانہ کرنے والے کتنے قبیح اور انسانیت سے گرے ہوئے ہیں کہ گوریلا وارفئیر کا استعمال کرتے ہوئے ہمیشہ آسان ٹارگٹس یعنی بسوں میں سے اتار کر اور شناخت کرکے ایک مخصوص صوبے و لسانی بنیادوں پر ایک مخصوص قوم کے مزدوروں یا رہائشیوں کو قتل و زبح کر دینا، اسی طرح بلوچستان میں مزدوری اور کام کی غرض سے آئے ہوئے دوسرے صوبوں کے عوام میں سے قومیت اور لسانیت کی بنیاد پر ایک مخصوص صوبے کے رہائشیوں یا لسانی بنیادوں پر قتل و غارت کرنا اور ان واقعات کی مسلسل ترویج اور بڑھاوا دینا کیا یہ محض حقوق اور قوم پرستی کی جنگ تھی؟ یا کہ پر تشدد دہشت گردی یا وائلنس کے ذریعے ریاست پاکستان کو توڑنے کا منصوبہ؟

بہرحال تشدد اور قتل و غارت گری کے قائل عناصر کی جب حقوق نہ ملنے اور ڈیویلپمنٹ نہ ہونے کا بہانہ لگا کر یہاں تک تسلی نہ ہو سکی تو گیارہ مارچ جعفر ایکسپریس کو سیکڑوں معصوم و نہتے شہریوں سمیت ہائی جیک کر ڈالا کہ اصل مقصود تو ریاست پاکستان کی اکائی کو توڑنا اور غیر ملکی ایجنڈا کو پھیلانا تھا۔ حقوق نہ ملنا اور ڈیویلپمنٹ کا نہ ہونا کا مطلب کیا یہ ہے کہ تشدد کا راستہ اپنایا جائے، نہتے، معصوم شہریوں کو اسلحہ و بربریت کے ذریعے یر غمال بنا کر دشمن ملک کے میڈیا کے ذریعے پوری گلوبل ورلڈ میں ریاست پاکستان کو چیلنج کیا جائے۔

جعفر ایکسپریس کو اغواء کرنے والے دہشت گرد گروپ کی سوشل میڈیا پر ایک ڈیمانڈ دیکھی گئی کہ چین اور پاکستان بلوچستان میں سی پیک کو موخر کر دیں۔ آخر کہ بلی تھیلے سے باہر آ ہی گئی کہ درحقیقت ریاست پاکستان پر حملہ آور تشدد و قتل و غارت گری کے قائل خاص طور پر بلوچستان و دیگر پاکستان میں چینی شہریوں پر حملوں میں ملوث بلوچستان اور پاکستان کی ترقی و مضبوطی کے دشمن ہیں، ان چہروں کے ہینڈلرز کون ہیں؟

یقینی طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نظریاتی دشمن مشرقی ہمسایہ ملک جن کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو انڈین حاضر سروس انٹیلی جنس ایجنٹ اور اس جیسے درجنوں بلوچستان میں قوم پرستی و علیحدگی پسندوں کے ذریعے بغاوت و شورش بپا کرتے پکڑے جاتے ہیں، گلزار امام جیسے بلوچ انتہا پسند لیڈرز بعد میں میڈیا پر آ کر دشمنوں کی پالیسیوں اور استعمال ہونے کی واردات کا مکمل احوال دیتے ہیں۔ جعفر ایکسپریس واقعہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دشمنوں کی انہی پالیسیوں کا تسلسل ہے اور ریاست پاکستان کی اکائی کو بلوچستان میں خاص طور تشدد و قتل و غارت و نفرت کے ذریعے چیلنج کرنا ہے۔

سی پیک جیسے بڑے معاشی منصوبے بلوچستان، پاکستان اور جنوبی ایشیا بلکہ خطہ بھر میں موجود دیگر ممالک کی سرمایہ کاری میں شدید اضافہ اور عالمی تجارت میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ مگر عالمی تجارت کے میدان میں نبرد آزما عالمی طاقتیں ایک دوسرے کو عالمی تجارت کی سطح پر زیر کرنے اور اپنا اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کے لئے سی پیک جیسے منصوبوں کو ناکام کرنا چاہیں گی یا پاکستان کو ڈی سٹیبلائز کرنا مقصد اول ہوگا کہ ترقی یافتہ اور معاشی طور مستحکم "اسلامی جمہوریہ پاکستان" مشرقی ہمسایہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو کسی طور قبول نہیں، تو جعفر ایکسپریس واقعہ و بلوچستان کو اسی خاص تناظر و پیرائے میں دیکھنا اور لینا چاہیے اور بلوچستان و پاکستان بھر میں موجود انتہا پسند اسی بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت پاکستان میں قومیت، لسانیت، حقوق نہ ملنے کی صورت میں ریاست پاکستان پر حملہ آور نظر آتے ہیں اور"تقسیم و نفرت" کی ترویج کرتے اور صوبائیت کے نام پر سوشل میڈیا پر ڈیجیٹل تقسیم و انتہا پسندی و بیمار سوچ پھیلاتے دیکھے جا سکتے ہیں۔

یہاں ایک بات بتانا اہم ہے کہ حقوق مانگنا اور حقوق کے لیے پر امن احتجاج کرنا جمہوریت کا حسن اور ترقی یافتہ معاشروں میں حق اول ہے مگر حقوق کے نام پر مسلح جتھہ گیری، تشدد و قتل و غارت گری کے ذریعے ریاست کو چیلنج کرنا پوری دنیا کے مہذب معاشروں میں سیدھا سیدھا دہشت گردی جانا اور مانا جاتا ہے اور ان دہشتگردوں کو حکومتیں آہنی ہاتھوں نبٹتی ہیں۔ خیر موضوع کی طرف واپس آتے ہیں تو قومیت و لسانیت اور مذہبی فرقہ واریت کو پھیلانے اور خاص طور پر بلوچستان میں موجود علیحدگی پسند دہشت گردوں کو بنگلہ دیش کو آج کے تناظر میں ضرور دیکھنا چاہیے کہ دہائیوں ہندوستان کی پراکسی کا کردار ادا کرنے والے بنگلہ دیش نے دہائیوں کے سفر کے بعد کیسے ہندوستان سے جان چھڑائی اور آج کا بنگلا دیش اپنے معاملات و مفادات کو خود دیکھتا ہے اور آج بنگلا دیش کی ترجیح اول پاکستان ہے نہ کہ وہ نظریہ جس بنا پر بنگلا دیش الگ ہوا تھا۔

خیر جعفر ایکسپریس واقعہ میں ریاست پاکستان کی مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک جنگ وادی بولان میں دہشتگردوں کے خلاف لڑی، وہیں ایک جنگ عالمی میڈیا، ایکس(ٹویٹر)، فیس بک وغیرہ پر بھی لڑی گئی جس میں انڈین میڈیا اور پاکستان میں سیاست کے ذریعے دفاعی اداروں کے خلاف نفرت پھیلانے والے بیرون ملک سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے ریاست پاکستان اور دفاع پاکستان کے ذمہ داران اداروں پر حملہ آور دکھائی دئیے۔ پوری دنیا میں صرف مذکورہ "دو"نے ٹرین واقعہ پر دفاعی اداروں کے خلاف بھر پور میڈیا کمپین چلائی جبکہ باقی دنیا کے بیشتر ممالک و اقوام متحدہ نے ٹرین ہائی جیک اور قتل و غارت کی شدید مذمت کی۔

بلوچستان میں جاری گوریلا وار کا نفسیاتی اور ابلاغی بیانیہ (حقوق نہ ملنا، انڈر ڈویلپمنٹ وغیرہ) دہشت گردی میں سہولت کاری کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس بیانیہ کے بغیر گوریلا وار جاری نہیں رہ سکتی۔ ریاست پاکستان کو انڈر ڈیویلپمنٹ، نسل و قوم پرستی و دیگر تمام اگر مگر چونکہ چنانچہ کے بیانیہ کو سختی سے ڈیل کرنا چاہیے۔ ڈائیلاگ کا راستہ صرف سرینڈر کرنے والوں کے لیے ہونا چاہیے، تشدد پر قائل اگر مگر چونکہ چنانچہ کے بیانیہ والے دہشتگردوں کو "سہولتکاروں" اور ڈیویلپمنٹ و حقوق نہ ملنے کے بیانیہ سمیت ادھیڑنا ہوگا۔ کیونکہ ڈیویلپمنٹ نہ ہونے کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہو سکتا کہ ٹرین ہائی جیک کرکے، نہتے و معصوم شہریوں کو بسوں سے اتار کر شناخت کرکے قتل و زبح کر دیا جائے۔

آج "اسلامی جمہوریہ پاکستان" کو گوریلا اور میڈیا وارفئیر میں مبتلا کرنے والے ریاست کے خلاف لسانیت، قومیت، مذہبی، علاقائی بنیادوں پر تقسیم و نفرت پیدا کرکے وطن عزیز کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ مگر آج ہمیں سمجھنا ہوگا کہ تقسیم زدہ معاشرے، دہشت، وحشت، نفرت، جاہلیت میں ہی بستے ہیں تو آج ریاست پاکستان اور عوام الناس کو ان تقسیم و نفرت پھیلانے والوں کی سرکوبی کا "فیصلہ" کرنا ہوگا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو دہشت، وحشت، نفرت و جاہلیت و قتل و غارت گری سے دور رکھا جاسکے۔

Check Also

Danish Waro Ki Nahi Danish Mandon Ki Zaroorat

By Abdul Hannan Raja