Karachi Walon Ki Kya Baat Hai
کراچی والوں کی کیا ہی بات ہے
بارہ جنوری تک آفس بند ہے۔ کرسمس و نیوائیر کی سالانہ چھٹیاں ہیں۔ اتنے دن میں گھر میں نہیں بیٹھ سکتا۔ مطلب میری ٹانگوں کو بے چینی ہونے لگتی ہے۔ مطلب میں دن رات بالکل فری نہیں رہ سکتا۔ لوگ چھٹیاں سو کر یا اپنی پسند کے پروگرامز دیکھ کر انجوائے کرتے ہیں مجھ سے ایسا نہیں ہو پاتا۔ بیگم صاحبہ فجر سے درس و تبلیغ کا سلسلہ شروع کر دیتی ہیں جس کے مطابق ان کی آنکھ کھولنے سے لے کر آج تک جو محرومیاں رہ گئیں ان کا ذمہ دار صرف و صرف میں ہوں۔ بچے ان کے لیکچر کے پیچھے ویسے ہی جھومتے جیسے ننھے بچے "آہا ٹماٹر بڑے مزیدار" پر جھومتے ہیں۔ مجھے اپنا وجود اقلیت سا لگتا ہے۔
موسم ساؤتھ کی جانب سفر کرنے کے لیے موزوں ہے۔ ساؤتھ میں میرا پسندیدہ مقام تھرپارکر اور نگرپارکرکے مقامات ہیں۔ اسی جانب پھر سے سفر کروں گا۔ اس خطے میں بڑی شانتی ہے۔ پھر وہاں سے نکل کر سندھ کوسٹل ہائی وے پر سفر کرتا ونڈ مل سائیٹ پر جاؤں۔ وہاں سے ایک دو دن کے لیے کراچی نکل جاؤں گا۔ کراچی سے مجھے عہد جوانی سے ہی محبت ہے۔ میرا اس شہر سے عقیدت کا تعلق رہا ہے۔ اول تو میرے سابقہ و موجودہ سسرال کا تعلق بھی کراچی سے ہے۔ دوم، جامعہ کراچی سے بیچلرز آف آنرز ٹیلی کمیونیکیشن کی ڈگری لی ہے تو اس شہر کے ہوسٹل میں بتائے دن رات یاد ہیں۔ پرانی یادوں کا اس شہر میں جگہ جگہ ملبہ بکھرا ہوا ہے۔ محبتیں بھی اور رنجشیں بھی۔
خیر، کراچی کی یادداشتیں بہت بار یہیں لکھ چکا ہوں۔ یہ ایک غزل کے تین اشعار کراچی میں چلتے آمد ہوئے تھے۔
ڈھنگ کا کوئی کام میں نے نہیں کرا
زندگی کا اہتمام میں نے نہیں کرا
جا تو ریا ہوں اور ہاتھ ملتا جا ریا ہوں میں
پرِچ (پان کی پچکاری تھوکنے کی آواز)، ترلوں کا انتظام میں نے نہیں کرا
چاہا تجھے ون ٹو ون گٹکے کے مافق جاناں
کسی کا اس قدر احترام میں نے نہیں کرا
اپن کے مقدر میں دو ٹانکے کراچی سے ہی لگے۔ پہلی والی جو تھیں، وہ بھی کراچی سے تھیں۔ حاضر سروس بیگم بھی وہیں سے ہیں۔ عزیزو، کراچی والوں کی کیا ہی بات ہے۔ اک بار فٹ پاتھ پر کھڑا تھا کہ منی بس عین اوپر آن کر رکی، اندر بیٹھے ایک درمیانی عمر کے انسان نے گٹکے کی پیک مجھ پر پھینک ڈالی مگر اس سے قبل کہ میں کچھ کہتا وہ صاحب فوری بولے "ابے کیا کر ریا اے، دیکھ کر نئیں چل ریا تو؟"
تین روز قبل زوجہ محترمہ نے کیفے سے چائے پینے کی فرمائش کر دی۔ اب آپ شادی شدہ شریف النفس حضرات تو بخوبی آگاہ ہوں گے کہ بیگمات کی فرمائش کو ٹالنا گرہستی کی آب و ہوا کو گدلا کرنے کے مترادف ہوا کرتا ہے۔
فرمائش چونکہ چائے کی تھی لہذا سستی سی تھی۔ میں ان کو خوش کرنے اپنے دوست کے کیفے لے گیا۔ وہاں مجھے دیکھ کر تین چار دوست جمع ہو گئے۔ بیگم بھی ساتھ بیٹھی تھیں۔ ان دوستوں میں دو کا تعلق کراچی سے تھا جو اب لاہور میں بزنس کے سلسلے میں آباد ہو چکے ہیں۔ بات کا رخ کراچی کی جانب مڑ گیا۔ احباب کچھ عرصہ پہلے تک کراچی میں بڑھے ہوئے سٹریٹ کرائم و چھینا جھپٹی کے ذاتی تجربات بتاتے رہے۔ کسی کا موبائل متعدد بار چھینا گیا تھا تو کسی کو راہ چلتے کئی بار لوٹا گیا تھا۔ میں چپ کرکے سنتا رہا۔ بلآخر ایک دوست بولا "شاہ صاحب آپ بھی کچھ بولیئے، کراچی آپ نے بھی دیکھ رکھا ہے"۔
بھائیو، خدا گواہ ہے کہ یہ جملہ بے ساختہ منہ سے نکل گیا۔ مجھے احساس نہ ہو سکا کہ بیگم برابر میں ہی بیٹھی ہیں۔ میں نے از رہ مزاح ہنستے ہوئے کہا "بھائیو، اپنا تجربہ بھی تلخ ہے، دو بار بارات لے کر کراچی گیا، دونوں بار لوٹا گیا"۔ جیسے ہی جملہ ادا ہوا دوستوں کے قہقہے چھوٹے اور برابر والی کرسی سے میری پسلیوں میں کسی نے کوہنی چبھو دی۔ چہرہ موڑ کر دیکھا تو بیگم بظاہر تو مسکرا رہی تھی مگر بند ہونٹوں کے اندر اس نے دانت سختی سے بھینچے ہوئے تھے!
کیفے سے رخصت ہوتے ہی، دوستوں سے الگ ہوتے ہی بیگم کے اندر کا سمندر بپھر گیا۔ بڑی بڑی لہریں اٹھنے لگیں اور مجھ سے آ ٹکرانے لگیں۔ میں ساحل کی چٹان بنا چپ چاپ سہتا رہا۔ گھر پہنچ کر میں نے اسی میں عافیت جانی کہ بالائی پورشن میں واقع ایک خالی کمرے میں کتاب کھول کر لیٹ جاؤں۔ سیڑھیوں میں گھپ اندھیرا تھا۔ بیگم کو اندھیرے سے بہت ڈر لگتا ہے۔ یہ اس کا فوبیا ہے۔ سیڑھیوں کی لائٹ بالائی پورشن میں لگے بٹن سے ہی آن ہو سکتی ہے کیونکہ گراونڈ پورشن والا بٹن سپارک کرکے کام کرنا چھوڑ چکا ہے۔ بیگم نے مجھے تلاش کرتے اوپر آنا چاہا۔ سیڑھیوں میں اندھیرا پا کر اس نے ڈر کے مارے نیچے سے آواز دی کہ میں اوپر سے لائٹ آن کروں۔
مجھے تو بخوبی معلوم تھا کہ بیگم صاحبہ نے اوپر آ کر کیا کرنا ہے۔ میں نے سوئچ آن نہیں کیا۔ وہ نچلے پورشن میں سیڑھیوں کے آغاز میں کھڑی بار بار فرمانے لگیں "لائٹ آن کریں ناں۔ اب کیوں ڈر کر چھپ رہے ہیں۔ دوستوں میں تو آپ بہت چہک رہے تھے"۔ بلآخر بار بار کی صداوں سے خیال آیا کہ لائٹ آن کر ہی دوں وگرنہ جوں جوں وقت بیتتا جائے گا اس کا خمیازہ مجھے ہی چکانا پڑے گا۔ بتی آن کی گئی، وہ اوپر آئی اور اس نے مجھے کتاب میں مصروف پا کر روایتی زنانہ طعنہ دیا "دوستوں میں آپ کو بڑی باتیں آتی ہیں، میرے سامنے ایکدم بزدل بن جاتے ہیں۔ بولتے نہیں اب آپ؟ ڈرپوک "۔۔ آپ ہی بتایئے کیا بولتا؟ مجھے تو دلیر خان کا قصہ یاد آ رہا ہے۔
دلیر خان ایک سرکس میں شیروں کے ٹرینر کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ ایک روز صبح ناشتہ کرتے ہوئے اپنی بیگم سے اس کی تکرار ہوگئی۔ دلیر خان کو غصہ آ گیا اور وہ ناشتہ چھوڑ کر سرکس چلا گیا۔ بیگم بھی غصے میں آگ بگولہ تھیں۔ انہوں نے بھی شوہر کو روکا نہیں۔ شام کو اچانک موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔ دلیر خان کا غصہ ابھی تک ٹھنڈا نہیں ہوا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ آج رات گھر نہیں جاوں گا چنانچہ وہ شیر کے ساتھ ہی پنجرے میں لیٹ گیا اور کمبل تان کے سو گیا۔
رات زیادہ گزر گئی تو گھر پر بیگم کو تشویش ہوئی۔ موبائل پر رابطہ کیا لیکن دلیر خان گہری نیند سو رہا تھا۔ فون سنا ہی نہیں۔ بیگم کی پریشانی عروج پر پہنچ گئی۔ انہوں نے کار نکالی اور خود ڈرائیو کرکے سرکس جا پہنچیں۔ دیکھا دلیر خان شیر کے پنجرے میں خراٹے لے رہا ہے۔ بیگم نے ایک چھڑی اٹھائی اور ڈرتے ڈرتے پنجرے کے قریب گئیں اور چھڑی اپنے شوہر کو چبھوتے ہوئے بولیں۔
ڈرپوک، بزدل کہیں کے، یہاں چھپے بیٹھے ہو؟