Tuesday, 07 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Meri Kahani

Meri Kahani

میری کہانی

ہر انسان کی ایک کہانی ہوتی ہے۔ کسی کی دلچسپ اور دل کو چھو لینے والی تو کسی کی دلگیر اور دل کو نچوڑ دینے والی۔ کہانی بہرحال ہر ذہن میں ہوتی ہے۔ کسی کو سنانے کا موقع ملتا ہے تو کوئی اسے ساتھ لیے رخصت ہو جاتا ہے۔ کوئی لکھتا ہے تو کوئی زبانی بیان کرتا ہے۔

میں ایک خالص دیہاتی ہوں اور بنیادی طور پر ایک کسان ہوں۔ میری والدہ کسان تھیں تو ہم بہن بھائیوں نے بھی ان کے ساتھ ایک کسان کے طور پر اپنا پہلا کیریر کا آغاز کر دیا، کھیتی باڑی کرتے رہے، ماں اپنی محبت ہم پر نچھاور کرتی رہی۔ ہم سب مل کر مختلف فصلیں اگاتے، جانور پالتے۔ گائیں، بکریاں، بھیڑیں، مرغیاں، حتٰی کہ گدھے، کتے اور بلیاں بھی۔

ہمارا جہاں بہت وسیع تھا۔ کھلے کھیت اور کھلیان تھے۔ جنگل تھے، بارشیں تھیں۔ لہلہاتی ہری بھری فصلیں تھیں۔ طرح طرح کے اناج اگتے اور ان میں سے بہت سے ہم خام حالت میں کھا پی جاتے۔ کھیلتے، بھاگتے، پرواز کرتے۔

جہاں ہم رہتے وہاں جنگل میں طرح طرح کے پرندے تھے۔ طرح طرح کے طریقوں سے ہم انہیں پکڑتے، غلیل سے مارتے، جال سے پکڑتے، بھگا تھکا کے پکڑتے، کڑّکی سے پکڑتے، انہیں ذبح کرتے اور مزے سے کھاتے۔ ہم ظالم بھی تھے کچھ کو پنجروں میں بند بھی کر لیتے اور انہیں دانہ دنکا ڈالتے۔ تو کچھ کو دھاگے سے باندھ کر اور چھوٹی سی چھڑی پر بٹھا کر یہاں وہاں گھومتے تھے۔

ہر قسم کے کھیل کھیلتے۔ ہاکی، کرکٹ، فٹ بال، والی بال، پیٹو گرم، بنٹے، اٹی ڈنڈ، اخروٹ کہ اخروٹ کھیلے بھی جاتے ہیں صرف کھائے نہیں جاتے۔ گھوڑ سواری کا شوق گدھا سواری سے پورا کرتے۔ بارش سے اکھٹا ہو جانے والا پانی ہمارا سؤمنگ پول بن جاتا اور اس میں ہم تیراکی کا شوق پورا کرتے۔

ناشتہ اماں کے پاس چولہے کے قریب پیڑھی پر بیٹھ کر کرتے، لنچ اکثر چلتے ہوئے گُڑ کی ڈلی یا کچے پیاز کے ساتھ کرتے۔ ایسا لذیذ لنچ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ گرمیوں کے لمبے دنوں اور سکول کی چھٹیوں میں دوپہر کو گرم گرم روٹی تندور پر پکتی اور مکھن لگا کر لسی سے کھاتے۔ مجھے ذاتی طور پر لسی زیادہ مرغوب نہیں تھی لیکن میرے آس پاس کے لوگوں کے لئے یہ انتہائی لذیذ مشروب تھا۔

کبھی کبھار باجرے اور چنے کی دال لگی روٹی بھی پکتی تو یہ ایک سپیشل لنچ ہوتا۔ چنے بھون کر گرما گرم کھاتے۔ یہ جب آگ پر بھونے جاتے تو گرم ریت میں یہ پٹاخے مارتے تو ہم اس منظر سے بہت لطف اندوز ہوتے۔ کچھ تو پٹاخہ مار کر اتنے اچھلتے کہ برتن سے باہر آ کر لینڈ کرتے اور لینڈ ہوتے ہی ہمارا شکار ہو جاتے۔ یہ شاید لذیذ ترین خوراکوں میں ایک تھی۔ اتنی تازہ اتنی گرم۔

سکول میں داخل ہوئے تو سکول دو کچے کوٹھوں اور ایک برآمدے پر مشتمل تھا۔ اس کا نقشہ بڑے مزے کا تھا۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ برآمدہ عام طور پر ایک، دو، تین یا زیادہ کمروں کے سامنے بنایا جاتا ہے لیکن میرے پیارے سکول کا برانڈا دو کچے کوٹھوں کے درمیان تھا۔ ایک کوٹھے میں کچھ روشنی تھی کہ اس میں ایک دروازے کے علاوہ اس کی پچھلی دیوار میں ایک یا دو کھڑکیاں بھی تھیں لیکن دوسرے کے اندر گھپ اندھیرا تھا کہ اس کا صرف ایک دروازہ تھا اور وہ بھی برانڈے کے اندر کھلتا تھا۔

برانڈے کے آگے کی جانب دو ستون اور پیچھے کی طرف ایک دیوار تھی جس میں بغیر کھڑکی کے تین بڑے بڑے سوراخ تھے جو ہمیشہ کے لئے ہوا کی آمدورفت کے لئے کھلے رہتے۔ ہوا کو وہاں سے گزر کر اندر آنے اور اندر سے باہر جانے سے روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ ہوا مکمل آزادی کے ساتھ جب چاہتی باہر سے اندر آنا شروع کر دیتی یا جب چاہتی اندر سے باہر جانا شروع کر دیتی۔

اب کیا ہوا ان دو کوٹھوں اور اکلوتے برانڈے کا وصل ہمیں محض تین سال نصیب ہوا۔ ایک سال گرمیوں کی چھٹیوں میں مون سون نے ہمارے پیارے کوٹھے اور برآمدہ ہم سے چھین لیا۔ منہ زور بارشوں نے انہیں زمیں بوس کر دیا۔

ہم جب چھٹیوں سے واپس آئے تو باہر صحن میں یا صحن میں لگے درختوں کے نیچے بیٹھنے لگے اور پھر باقی ماندہ تین سال اسی طرح باہر ہی بیٹھے کہ ہم بچے اور ہمارے پیارے استاد سب مل کر ایک ہی کوٹھا اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کر سکے۔ نہ کوئی فنڈ تھا، نہ فنڈ نہ ہونے رونا رویا گیا، نہ کسی ٹھیکیدار یا مزدور سے رابطے کی نوبت ہی آئی کہ انہیں دینے کے لئے پیسے ہی نہیں تھے، نہ کوئی پی سی ون منظور ہوا۔ کوئی کمشن لیا گیا نہ دیا گیا۔ بچے مزدور بن گئے اور استاد مستری۔ نہ کچھ خرچ ہوا۔ کام شروع کر دیا گیا اور مکمل ہوگیا۔

قریبی مہربان کنویں سے ہم پانی نکالتے، بالٹیوں میں بھرتے، بالٹی کے کنڈے میں ایک چھ فٹ لمبی ڈانگ ڈالتے، ڈانگ کا ایک سرا ایک بچہ اپنے کندھے پر رکھتا اور دوسرا سرا دوسرے بچے کے ناتواں کندھے پر ہوتا۔

کچھ بڑے اور بہادر بچوں نے صحن کھود کر مٹی نکالی، اس میں وہ پانی ڈالا، گارا بنایا، گارے سے بڑے بڑے ڈھیلے بنائے، انہیں صحن میں خشک ہونے کے لئے چھوڑ دیا۔

بنیاد کھودی گئی، بھری گئی، حضرت ابراہیمٌ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے انہیں ڈھیلوں سے دیوار استاد نے اپنے ہاتھ سے اٹھائی، حضرت اسمٰعیلٌ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ہم بچے گارا اور ڈھیلے اٹھا اٹھا کر استاد کو دیتے رہے اور وہ لگاتے رہے اور تارے ہی یہ دعا بھی کرتے رہے کہ یا اللہ اسے ہماری طرف سے قبول فرما۔ حتٰی کہ چاروں دیواریں کھڑی ہوگئیں۔

گرے کوٹھوں سے کارآمد لکڑیاں نکال کر اور کچھ آس پاس کے جنگل سے کاٹ کر چھت ڈال دی گئی، سکول کی کل متاع، جو ایک لکڑی کے مضبوط میز، دو کرسیوں اور دو سٹیل کے صندوقوں پر مشتمل تھی اس کوٹھے کے اندر پورے سلیقے سے رکھ دی گئی۔

کوٹھے کو وہی پرانا دروازہ اور وہی پرانا جندرہ چابی خلاف گھڑی وار گھما کے لگا دیا گیا۔ کوئی ایک چیز بھی خریدنے کی نوبت نہیں آئی اور نہ ہی خریدنے کے لئے پیسے تھے۔ سکول چلتا رہا، ہم پڑھتے اور آگے بڑھتے رہے اور پڑھتے پڑھتے اور بڑھتے بڑھتے یہاں پہنچ گئے۔

Check Also

Social Media, Mayari Mawad Ya Tawajo Ka Karobar?

By Qaswar Abbas Baloch