Tuesday, 07 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Yousaf
  4. Zia Ki Khudkushi

Zia Ki Khudkushi

ضیا کی خود کشی

ہمارے تعلیمی نظام نے ایک اور نوجوان کی شہ رگ کاٹ دی۔ ایک باپ کا غرور چھین لیا اور ایک ماں کا لعل درس گاہ کی قربان گاہ میں ذبح کر دیا۔ ایک خاندان سے اس کی آس امید ہی چھین لی۔ تعلیم جو باطن کو روشنی سے منور کرتی ہے۔ اس نے ضیا کے باطن کو تاریکی کے سمندر میں ڈبو دیا۔ ہمارا نظامِ تعلیم کمال بخشنے کی بجائے زوال کی داستان سنہری حروف سے لکھ رہا ہے۔ ضیاء جو اپر دیر کا رہنے والا ہے وہ روشنی کی تلاش میں اسلامی کالج پشاور کو چار سال کے لیے اپنا محور و مرکز بناتا ہے۔ یہ کالج اس کے لیے وہ شمع ہے جس سے وہ قانون کے تاریک و روشن باب سیکھ رہا تھا۔ اس نے 31 دسمبر کی رات گیارہ بجے کے بعد کالج کے ہاسٹل میں پنکھے سے لٹک کر خودکشی کر لی۔ آئیے اس کی کہانی اسی کی زبانی سنتے ہیں۔

میں ضیاء الدین نیاز ہوں۔ آج 2024 کا آخری دن ہے اور میں بھی اسی دن کے ساتھ ختم ہونا چاہتا ہوں۔ آخر کیا رکھا ہے زندگی میں؟ اتنا جی کر بھی کیا کرنا ہے؟ آخر 100 سال بعد بھی تو مرنا ہی ہے تو کیا فرق پڑتا ہے۔۔ آج یا کل۔۔ زندگی کی دلکشی بہت دیکھ لی۔ اب موت کا تماشہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ زندگی کا ذائقہ تو بالکل ہی بد مزہ رہا۔ اب دیکھتا ہوں کہ موت کتنی لذیذ ہے۔

جانے سے پہلے مجھے اپنے کچھ دوستوں سے ملنا ہے اور ہاں آپ سے بھی کچھ کہنا ہے۔ پتہ ہے زندگی سے اتنی نفرت کیوں؟ اتنی نفرت کہ میں اس کا گلہ گھوٹنا چاہتا ہوں۔

اس کی کئی وجوہات ہیں میں سب بتا ہی نہیں سکتا اگر سب بتانے کی ہمت جمع کر پاتا تو میں بھی آپ کے ساتھ 2025 کا چمکتا ہوا سورج دیکھتا۔ میری روح شرم ساری کی ذلت سے جسم کے تاج محل میں پچھلے ایک سال سے گل سڑ رہی ہے۔ اب تو مجھے اپنے جسم سے بھی بدبو آنے لگی ہے۔ آپ سے اتنی التجا کرتا ہوں کہ ان خرافات کا کچھ حساب کرو۔۔ آج اگر میں تو کل کوئی اور۔۔ مجھ سے پہلے بھی کئی طلبہ ان شرمناک حقائق کا قصہ پارینہ ہو گئے۔ تعلیمی درسگاہوں کو، ان درندوں اور شیطانوں کے چنگل سے آزاد کرواؤ۔ دینی اور دنیاوی سب درس گاہیں اس ذلت سے اٹی پڑی ہیں۔ قومِ لوط کے سردار زندہ ہو کر ہماری درس گاہوں کو قحبہ خانہ بنائے ہوئے ہیں۔

ہمارے نظام تعلیم کا وہ زہر جو طالب علم کی صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔۔ وہ ہے نمبر گیم۔۔ نمبر گیم نے طالب علم کے ذہن کو تخلیقی کی بجائے مشینی بنا دیا ہے۔ یہ اذیت تب سے ہی شروع ہو جاتی ہے جب ایک معصوم ساشرارتی بچہ، نازک سی کمر پہ، کتابوں، کاپیوں کا بوجھ اٹھائے اسکول کی دہلیز پہ پاؤں دھرتا ہے تو دیکھتے ہی دیکھتے چند ہی دنوں میں اس کے پھول سے چہرے کی پتیاں بکھر جاتی ہیں۔ آہستہ آہستہ وہ شرارتی کی بجائے سنجیدہ بابا ہو جاتا ہے۔ تعلیم سب سے پہلے بچے کی معصومیت چھینتی ہے۔ وہ اس کی روح کو خوبصورت بنانے کی بجائے بدصورت بنا رہی ہے۔ اسے زندگی سے بھرنے کی بجائے موت کے منہ میں انڈیل دیتی ہے۔ اس کی دماغ کی بتی جلانے کی بجائے، اس کی روح کا چراغ بجھا دیتی ہے۔ وہ جیسے جیسے تعلیمی زاویے طے کرتا جاتا ہے۔ اس کے اندر کی تاریکی اور خلا بڑھتا جاتا ہے۔ ایک احساس طالب علم کا یہ خلا تب ختم ہوتا ہے جب اس کی سانس کی ڈور پتنگ کی طرح کٹ جاتی ہے۔

دوسری طرف ہمارا معاشرتی تقاضا جان لیوا حد سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ میرے خیال میں، ہمارے معاشرے میں لوگ کینسر سے زیادہ اس معاشرتی تقاضے سے مر جاتے ہیں۔ جب فیملی میں کسی کے اچھے نمبر آ جائیں تو پھر سب اپنے جانشینوں سے یہی تقاضا کرتے ہیں کہ تیرے نمبر اس سے زیادہ نہ آئے تو پھر مجھے اپنی شکل نہ دکھانا۔۔ کیا ہے یہ نمبر کا سلسلہ۔۔ مجھے تو غصہ آتا ہے اس بات پہ۔۔ کسی طالب علم کی ذہانت ماپنے کا یہ کون سا طریقہ ہے؟ اگر اچھے نمبر ذہین ہونے کی علامت ہوتے تو پھر اس وقت ہمارا ملک سائنس دانوں کی منڈی ہوتا۔ میں والدین سے، معاشرے سے، ہاتھ جوڑ کر رحم کی اپیل کرتا ہوں۔ خدارا اپنے بچوں پر رحم کھاؤ۔ انہیں تعلیم دو۔ شعور دو۔ لیکن ان پر نمبر گیم کا پریشر نہ ڈالو۔ ورنہ اگر وہ اس پریشر میں کچلے گئے تو پھر آپ ساری عمر دیواریں پکڑ پکڑ کر روتے پھرو گے۔

کافی وقت گزر گیا ہے اب میں اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر 2024 کی کہانی ختم کرنا چاہتا ہوں۔ یہ میرے دوست بہت اچھے ہیں آج میں ان کے ساتھ کچھ گیم بھی کھیلوں گا تاکہ زندگی کا کھیل کھیلتے کھیلتے ختم ہو۔

پورے دو گھنٹے دوستوں کے نام کرکے میں وآپس آچکا ہوں۔ یہ دو گھنٹے میری یادداشتوں کا حصہ رہیں گے اور میں یہ انعام کے طور پر اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ میں اپنے تمام دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے مجھے سات سمیسٹر اپنی خوبصورت صحبت کا سہارا دیا۔

میرے اندر پلنے والا زہر اب کینسر بن چکا ہے۔ میرا ذہن بالکل ماوف ہو رہا ہے۔ مجھ سے زندگی کا بوجھ مزید برداشت نہیں ہو رہا۔ میرا نجات دہندہ، میرا مسیحا، پنکھے کے ساتھ لٹکا ہوا پھندا، شدت سے میرا منتظر ہے۔ بس آپ سب سے کہنا چاہتا ہوں کہ خدارا اپنے تعلیمی اداروں کو بچاؤ۔۔ قومِ لوط کے شیطانوں سے۔۔ جو پاکیزہ روحوں کو شل کر رہے ہیں۔ اس لیے معاشرے کو، ان تعلیمی اداروں کو، ان درسگاہوں کو، ان بھیڑیوں، درندوں سے پاک کرو۔ ب مجھ سے کچھ نہیں لکھا جا رہا۔ عزرائیل میرا منتظر ہے۔ فرشتے پوری تیاری میں ہیں۔

آخر میں مجھے والد صاحب سے کہنا ہے کہ پاپا مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں۔ کوئی گلہ نہیں۔ مجھے معاف کرنا۔ میں آپ کے خوابوں کو حقیقت میں نہ ڈھال سکا۔ میرے پیارے ابو جان! میں کتنی زیادہ اذیت میں ہوں آپ اندازہ نہیں کر سکتے۔ میرا ذہن اتنے خیالوں میں الجھا ہے کہ یہ گتھی سلجھانی زندگی کے بس میں ہی نہیں۔ میرے اندر باہر انتشار ہی انتشار ہے۔ اس لیے میں موت کی گود میں سونا چاہتا ہوں۔ پاپا نہ تو میں کسی کی زلفوں کا اسیر ہوں اور نہ ہی میرے سینے میں محبت کا مارا ہوا شکستہ دل ہے بلکہ میرے مرنے کی وجہ عشق و محبت سے بھی بہت آگے کی ہے۔ عشق و محبت تو فخر کی بات تھی مگر جو وجہ میرے پاس ہے وہ باعثِ شرمندگی ہے میرے لیے بھی اور آپ کے لیے بھی اور یہ احساسِ شرمندگی وہ پھندا ہے جس سے میں ابھی لٹک کر موت کا جھولا جھولنے والا ہوں۔۔ آئی ایم سوری۔۔ مجھے معاف کر دینا۔۔ اللہ حافظ۔۔

ایک قانون کے طالب علم کو آخر کس احساسِ ذلت نے موت کی وادی میں دھکیل دیا۔ کیا صرف امتحانی تیاری اس کی ذمہ دار ہے؟ اچھی تیاری کرنے کے لیے ابھی اس کے پاس کافی وقت تھا۔ جس بچے نے چھے سمسٹر اچھے نمبروں سے پاس کیے۔ اس کے لیے ساتویں سمسٹر کی تیاری کرنا کتنا بڑا مسئلہ ہو سکتی تھی کہ وہ زندگی ہار جائے۔ ویسے بھی سردی کی چھٹیاں چل رہی تھیں اور امتحان کی تیاری کا مسئلہ ہوتا تو وہ ان چھٹیوں میں اچھی تیاری کر سکتا تھا۔ صرف امتحانی تیاری مسئلہ ہوتا تو وہ آخری خط میں کھل کر بات کرتا۔ پہلے بھی جتنے بچوں نے امتحانی پریشر کی وجہ سے خود کشیاں کی ہیں انہوں نے واضح الفاظ میں لکھا کہ ان کی خودکشی کی وجہ کیا ہے؟ مگر ضیا کا خط اذیت اور شرم ساری سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں معاملہ کچھ اور ہی ہے۔

ضیا کا ایک دوست کہتا ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ اسے بلیک میل کیا جا رہا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے ساتھ کسی نے غلط کیا ہو اور پھر اس کی ویڈیو بنا لی ہو، پھر اسے بار بار بلیک میل کر رہا ہو۔ ایک حساس نوجوان لڑکے کے لیے یہ شرمناکی موت سے بھی زیادہ اذیت ناک ہوتی ہے۔ اسی کالج میں ایک سال پہلے بھی ایک نوجوان طالب علم نے ہاسٹل کے اندر خودکشی کی تھی۔ اس کی موت کیوں کر ہوئی وجہ آج تک معلوم نہ ہو سکی کیونکہ ایسے ایشوز پر انتظامی ہمیشہ پردہ ڈالتی ہے۔

انتظامیہ، ادارے، تعلیمی نظام اور معاشرتی پریشر یا پھر کچھ گھناونے کردار۔۔ جو بھی اس کا ذمہ دار ہے اس کو سامنے لایا جائے۔ نہیں تو کل کو کوئی اور ضیا، ضائع ہو جائے گا۔ ویسے اگر ضیا کی موت کا معمہ حل نہ بھی ہوا تو کیا ہوگا؟ بس یہی ناں! کہ کل کو کوئی اور ضیا خود کشی کر لے گا۔ اس بات سے آپ کو یا مجھے، یا ہمارے تعلیمی نظام کو یا کالج، یونیورسٹیز، درسگاہوں کو کیا فرق پڑتا ہے؟

Check Also

Bangladesh Bhi Bharat Mukhalif Saf Mein

By Hameed Ullah Bhatti