Makhne Yahooda Aur Kutub Ki Kharidari
ماخنے یہودا اور کتب کی خریداری
یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں نئے شہر جاوں اور کسی کتابوں کی دکان میں نہ جھانکوں۔ یروشلم میں اپنے میزبان یشایا سے اس کی فرمائش کی۔ یشایا کو یروشلم کے چپے چپے کا پتا ہے۔ شہر کے صرف جغرافیے نہیں، تاریخ کا بھی علم ہے۔ طے پایا کہ جب مشہور بازار ماخنے یہودا کا دورہ کریں گے تو وہیں سے بک شاپ کا رخ کریں گے۔
عربی میں بازار کو سوق کہتے ہیں۔ دبئی جانے والوں کو اس بات کا علم ہوتا ہے کیونکہ وہاں کی گولڈ سوق مشہور ہے۔ عبرانی میں مارکیٹ کو شوک کہا جاتا ہے۔ ماخنے یہودا یروشلم ہی نہیں، اسرائیل کی سب سے بڑی شوک یعنی مارکیٹ ہے۔ انگریزی میں آپ اس کا نام ماہانے یہودا پڑھیں گے لیکن عربی اور عبرانی بولنے والے ح کو حلق سے ایسے نکالتے ہیں کہ خ کی آواز بن جاتی ہے۔
ماخنے یہودا دراصل ایک تاریخی محلے کا نام ہے۔ اس کے بازار میں کپڑوں جوتوں اور تبرکات یا سووینئیرز کی بھی چند دکانیں ہیں لیکن اصل مارکیٹ اشیائے خورونوش کی ہے۔ بازار کا بڑا حصہ چھتا ہوا ہے لیکن مرکزی گلی کھلی ہوئی ہے۔ گاڑیاں اس میں داخل نہیں ہوسکتیں۔ دائیں بائیں پھلوں، سبزیوں، گوشت، خشک میوے، مسالوں اور مشروبات کی دکانیں ہیں۔ الیسا نے کہا کہ انھوں نے دنیا میں کہیں ایسا انوکھا بازار نہیں پایا۔ میں نے کہا کہ مجھے مشہد یاد آرہا ہے۔ وہاں آپ کو بالکل ایسا ہی ماحول ملے گا۔ الیسا نے تعجب کا اظہار کیا لیکن ظاہر ہے کہ وہ ایران نہیں جاسکتیں۔ فلاڈیلفیا کی ریڈنگ ٹرمنل مارکیٹ بھی مجھے یاد آئی، اگرچہ اس کا ماحول کچھ مختلف ہے۔
یروشلم کی کئی سوغاتوں میں سے ایک اس کا حلوہ ہے۔ اٹارہ نے مجھے بتایا تھا کہ وہ ماخنے یہودا کے قریب کہیں رہتی ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہاں سب سے اچھا حلوہ کون بناتا ہے؟ وہ مجھے ایک دکان میں لے گئیں جہاں دسیوں اقسام کے حلوے موجود تھے۔ تازہ حلوے کھلے پڑے تھے اور دعوت عام تھی کہ سب ذائقے باری باری چکھیں اور جو پسند آئے، وہ گھر لے جائیں۔ میں نے دکاندار سے کہا کہ مجھے کھلا حلوہ نہیں، ڈبا چاہیے تاکہ امریکا لے جاسکوں۔ وہ مجھے اس شیلف تک لے گیا جس میں طرح طرح کے ڈبے موجود تھے۔ ایک ڈبا چالیس شیکل کا تھا۔ میں نے سو شیکل کا نوٹ دیا تو اس نے لوٹ سیل کا نعرہ لگا کر تین ڈبے حوالے کردیے۔
اب اٹارہ نے کہیں، چلیں آپ کو ایک خاص قسم کا جوس پلاتی ہوں جو دور دور سے لوگ پینے آتے ہیں۔ ہم ایک بغلی گلی میں گھسے جہاں بہت رش تھا۔ اس دکان پر پہنچے تو طویل قطار لگی ہوئی تھی۔ اٹارہ کو مایوسی ہوئی۔ ہمارے گروپ کے لوگ اتنا انتظار کرنے کو تیار نہ تھے کیونکہ صبح پارلیمان کے دورے کے بعد تھک گئے تھے۔ فیصلہ ہوا کہ جوس کسی اور دن پی لیں گے، فی الحال ہوٹل چلتے ہیں۔
مرکزی سڑک پر پہنچے تو وہاں شرابوں کی کئی دکانیں نظر آئیں۔ ایک دوست مچل گئے کہ اسرائیل کی مشہور شراب خریدنی ہے۔ اب مجھے یاد نہیں لیکن شاید ہنی وائن تھی۔ مجھے وہ پاکستانی سیاستدان یاد آئے، جن کے قبضے سے بوتل ملی تو انھوں نے اسے شہد قرار دیا۔ خیر، ہنی وائن ایک دکان پر نہیں ملی۔ دوسری پر شاید مہنگی تھی۔ تیسری پر گوہر مقصود مناسب نرخ پر دستیاب ہوگیا۔
لیکن میرے نشے کا بندوبست باقی تھا اس لیے یشایا نے دوستوں سے کہا، جو ہوٹل جانا چاہتا ہے، وہ یہاں سے رخصت ہوجائے۔ جو کتابیں خریدنا چاہتا ہے، وہ آگے میرے ساتھ چلے۔ میرے علاوہ نیلوفر مغل اور حسن مجتبی بھی ساتھ ہولیے۔
کتابوں کی دکانیں دو بلاک کے فاصلے پر تھیں۔ یشایا نے باقی دکانوں کو دور سے دکھایا کہ ان کا مال ہمارے مطلب کا نہیں تھا اور ایک دکان کے اندر لے گئے۔ ان کے انتخاب کی داد دینا پڑی۔ بک گیلری کے نام سے اس کتب خانے میں عبرانی کے علاوہ انگریزی اور دوسری زبانوں کی کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ تھا۔ نایاب اور دستخط شدہ کتابیں بھی موجود تھیں۔ مچان کے اوپر سیکڑوں کتابیں رکھیں تھیں۔ میں ان تک پہنچنے کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ یشایا ہاتھ پکڑ کر ہمیں تہہ خانے میں لے گئے۔ وہاں بے شمار کتابیں پرانے شیلفوں میں لگی تھیں۔ میں نے اور حسن بھائی نے کئی کتابیں پسند کیں۔
کاونٹر پر پہنچے تو حسن بھائی نے بتایا کہ وہ شاعر ہیں اور شاعری کی کتابیں ڈھونڈ رہے ہیں۔ سیلزمین نے چند نسخے دکھائے۔ ایک کتاب دیکھ کر میں چلا اٹھا، ارے یہ یہودا امیخائے کی کتاب ہے۔ سیلزمین نے پوچھا، آپ ان سے واقف ہیں؟ میں نے کہا، ابھی چند دن پہلے میں نے اس کی ایک نظم کا ترجمہ کیا ہے۔ سیلزمین نے کہا، آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ اس کتاب پر یہودا امیخائے کے دستخط ہیں۔
میں خوشی سے اچھل پڑا اور کہا، یہ کتاب مجھے چاہیے۔ لیکن اس وقت وہ کتاب حسن بھائی کے پاس تھی۔ انھوں نے کہا، چونکہ یہ میرے ہاتھ میں ہے تو اس پر پہلا حق میرا ہے۔ سیلزمین نے اپنا کمپیوٹر دیکھ کر کہا، ہمارے پاس یہودا امیخائے کے کئی کتابیں اور ہیں۔ میں نے کہا، فوراََ نکالیں۔ ایک خاتون سیلزمین سیڑھیاں چڑھیں اور ایک دو کتابیں لے کر آئیں۔ لیکن وہ دستخط شدہ نہیں تھیں۔ میں دل مسوس کر رہ گیا۔ بہرحال عبرانی شاعری کا ایک دیوان، افسانوں کا ایک مجموعہ اور اسرائیلی نوبیل انعام یافتہ ادیب شموئیل ایگنن کی ایک کتاب خریدی اور اس تبرک کو آنکھوں سے لگایا۔