Thursday, 09 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saleem Zaman
  4. Main Te Mera Dilbar Jani

Main Te Mera Dilbar Jani

میں تے میرا دلبر جانی

بابا جی میں جس سے بھلا کرتا ہوں۔۔ وہی منہ پر مارتا ہے۔۔ ذلیل بھی کرتا ہے اور نیکی برباد گناہ لازم ہو جاتا ہے میں کیا کروں۔۔

بابا جی نے دور کہیں خلا میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔ دیکھو۔۔

یہ سامنے جو لاش تین دن سے بغیر دفنائے پڑی ہے اس کے متعلق یہ کہا جا رہا ہے کہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں اس لئے دفن نہیں ہونے دیا جائے گا کیونکہ انہوں نے قرآن کی بے حرمتی کی ہے۔ یہ تلوار سے کٹا بدن اس کا ہے جس کا سب سے چھوٹا احسان اس اس مسلم معاشرے پر (جس کی حکومت 4 براعظموں تک پھیل چکی ہے) یہ ہے کہ جب انہیں نو مسلم غریب لوگوں کو پانی پینے کوئی نہیں دیتا تھا تب اس نے ان کے لئے کنواں خریدا تھا اور آج تک اس کی کمائی سے یونیورسٹیوں کی کفالت ہو رہی ہے۔

یہی وہ شخص تھا جس نے جب رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی پھر مرتے دم تک اس ہاتھ سے اپنا ننگا بدن نہیں چھوا۔۔ یہی وہ شخص تھا جس کو جب کفار نے کہا تم عمرہ کر لو کونسا رسول اللہ ﷺ دیکھ رہے ہیں۔ وہ بولا میرا عمرہ روزہ حج نماز سب میرے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہیں ان کے بغیر کچھ نہیں اور عمرہ کرنے سے انکار کر دیا۔۔ یہی وہ ہستی ہے جس کے ہاتھ کو رسول خدا نے اپنا ہاتھ کہہ کر بیعت لی اور پھر قرآن نے فرمایا کہ ان ہاتھوں پر خدا کا ہاتھ ہے۔۔ نیچے رسول خدا کا ہاتھ تھا، پھر صحابہ کرام کے ہاتھ پھر آقا ﷺ کا دوسرا ہاتھ جسے انہوں نے عثمان ذوالنورین کا ارشاد فرمایا اور پھر اس پر خدا کا دست رحمت۔۔ کرم بالا کرم۔۔

ہاں ذوالنورین سے یاد آیا یہ تو وہ ہیں جسے دو لاکھ صحابہ کرام دو نور والے کہہ کر بلاتے اور انہیں نہ یہ شرک لگتا اور نہ بدعت کیونکہ نبی کریمﷺ کی دو صاحبزادیاں یعنی دو نور ان کے گھر کو منور کر رہے تھے اور آقا ﷺنے فرمایا اگر تیسری ہوتی تو وہ بھی انہیں دے دیتا۔ یہ مٹی سے لپٹی ہوئی لاش دیکھ کر مجھے وہ دن یاد آگئے جب مدینہ میں قحط پڑا تھا کھانے کو کچھ نہیں تھا پھر ان کا قافلہ مدینہ میں یوں داخل ہوا کہ اس کے اونٹوں کی چال کی دھمک ہماری مائیں اپنے حجروں میں محسوس کر رہی تھیں۔ پھر اسی بے گور و کفن صاحب نے عرب تاجروں کو یہ کہہ کر کہ میرا سودا اس سے طے ہوگیا جو مجھے ایک پر 700 کا منافع دے رہا ہے۔ میں کسی تاجر سے سودا نہیں کرنا چاہتااور سارا مال مدینہ کے غربا میں بانٹ دیا۔۔ آج جو انہیں جنت البقیع میں دفن نہیں ہونے دے رہے۔ شاید ان کے باپ، دادا، نانا اس قحط میں اسی غنی کے مال سے گھر چلاتے ہوں گے اور اگر دنیا کی سب سے خوبصورت اور مثل جنت بستی میں محسنوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے تو پھر۔۔

ارے رکیں۔۔ رکیں۔۔ یہ منظر دیکھیں۔۔ 14 ہزار کا لشکر ایک مختصر سے خاندان کو نرغے میں لئے کھڑا ہے اور ان کو کہتا ہے تم غدار ہو۔۔ جس ہستی کو وہ غدار کہہ رہے ہیں۔۔ یہ ان کے رسول کا نواسہ ہے۔۔ وہ بھی ایسا نواسہ جس کی خوشی میں رسول اللہ ﷺ خوش اور جس کی خفگی رسول خدا کو دکھ دیتی تھی۔ جس سے مل کر جبرائیل اور میکائیل کھیلا کرتے تھے اور اس نبی کے نواسے کو اور ان کے خاندان کو غدار کہہ رہے ہیں جس کی بدولت انہیں اندھیروں سے نجات ملی اور جو قیامت کی سخت گھڑی اور میدان حشر میں ان کے گناہوں پر رب سے رو رو کر ان کی بخشش کرائیں گے۔

آج کربلا کا دسواں دن ہے اور ابھی ظہر کی نماز ادا ہوئی ہے۔۔ یہ حسین ابن حیدر اکیلا تلوار لئے کھڑا ہے۔۔ 14 ہزار سامنے کھڑے ہیں پہل کوئی نہیں کر رہا۔۔ یہ پہلا تیر آیا آب سب نے ایک ساتھ ایک 54 سالہ شخص پر حملہ کر دیا۔۔ اس کی پیٹھ پر سوائے خاندان کی باپردہ خواتین کے اور کوئی نہیں۔ نیزے، تیر، تلوار۔۔ یہ منظر جبرائیل دیکھ رہیں ہیں۔ میکائیل تلملا رہے ہیں بالکل اسی دن کی طرح جس دن آقا کریمﷺکی خدمت میں طائف میں پہاڑوں کا فرشتہ لے کر حاضر ہوئے تھے اور غصے سے کانپ رہے تھے۔۔ آج بھی کانپ رہے ہیں۔۔ حیدر کرار نوارانی شمشیر پکڑے ان کے حکم کا انتظار کر رہے ہیں جنہوں نے فرمایا تھا۔۔ "میں جس کا مولا یہ علی اس کا مولا" وہ تمام فرشتے پھر سے صف بندی ہو گئے جنہوں نے بدر میں اتر کر مقرب ہونے کا اعزاز پایا تھا کہ اچانک حکم نہ مل جائے۔ مگر آقا ﷺنے اپنی امت کا اسماعیل قربان کر دیا۔ وہ جو قربانی ابراہیمی تھی وہ چھری آج پھیری گئی۔

یہ سامنے آقاﷺ کے لعل کا بے سر کے دھڑ پڑا ہے۔ آسمان میں جبرائیل ایک بار جھکے ہوں گے کہ یہ سر مٹی میں گر جائے۔۔ مگر کیا کیا جائے۔۔ وہاں بات اور عمل کی گنجائش نہیں۔۔ اگر شاہ سالار سے قبل کوئی قدم اٹھا یا پلکیں بھی ہلیں تو اس کا کفارہ پھر جان دے کر بھی پورا نہیں ہو سکتا۔۔ سب آسمان و زمین میں دم بخود کھڑے ہیں۔۔ یہ گھڑ سوار ان کے جسم پر گھوڑے دوڑا رہے ہیں۔۔ چھلنی جسم جسے آقاﷺ چوما اور سونگھا کرتے تھے۔ مٹی، ریت، پسینہ اور خون میں لت پت پڑا ہے۔۔ کربلا کی مٹی جلد جلد خون چوس رہی ہے کہ کہیں خون پر پاوں نہ آجائیں بے حرمتی نہ ہو جائے۔۔ لیکن کہاں امت کے زیادہ اسلام سمجھنے والے مسلمان آج اپنے رسول اللہ کی محبت کا حق ادا کر رہے ہیں۔ ان کے احسانوں کا بدلہ دے رہے ہیں۔ احسانوں کے بدلے سے یاد آیا کہ ابھی ان بھپرے ہوئے مسلمان غازیوں کا رخ خیموں کی طرف ہوگیا ہے اب ان خیموں کو آگ لگائی جا رہی ہے۔۔ جن کی قدر ومنزلت خدا کے آگے جنت کے خیموں سے زیادہ ہے اور ان میں بیٹھی بیبیاں حوروں سے زیادہ طاہر اور طیب۔

آج حوروں نے اپنے سر ننگے کر لئے ہیں کیونکہ بیبیوں کے سر سے چادر کھینچی جا رہی ہے۔۔ آج تمام جنت کی دوشیزائیں اپنے زیور نوچ رہی ہیں۔۔ کیونکہ بیبیوں کے کانوں سے بالیاں کھینچی گئی ہیں۔۔ یہ بدلہ ہے امت کے جری، بہادر غازیوں کا اپنے محبوب کریمﷺ کو۔ یہ بدلا اس دنیا میں احسان کرنے والوں کا ہے۔ یہ بدلہ ان کا ہے جنہوں نے اپنے گھر اور بچے بھوکے رکھے تاکہ امت کا پیٹ پالنے سکیں اور یہ بدلہ ہے اس احسان کا جب آقاﷺ کے بیٹے پاک کی وفات ہوئی تو اماں جی بولیں آپ انہیں واپس مانگ لیں ایک دعا تو اللہ نے ہر نبی کو ایسی دی ہے کہ وہ اسی وقت پوری ہوگی۔ تو آقاﷺکی آنسو بھری نگاہیں بلند ہوئیں اور کہا عائشہ وہ دعا تو میں نے اپنی امت کی بخشش کے لئے بچا رکھی ہے۔ میں تو اللہ سے راضی ہوں۔ میری دعا تو امت کے کالوں کے لئے کام آئے گی۔۔ آج کربلا میں امت کے کالے اسی دعا کے آسرے میں انہیں کاٹ رہے ہیں۔ جن کی تکلیف پر آقاﷺ کی بے چینی سےکائنات کا سانس رک جاتا تھا۔

تم کہتے ہو تمہارے ساتھ لوگ اچھا نہیں کرتے۔ تم جس سے بھلا کرتے ہو جواب میں لوگ دکھ دیتے ہیں اور اپنا مطلب نکال کر اذیت اور بےعزتی دے جاتے ہیں۔ میں تو کہتا ہوں اگر کائنات کے بہترین دور کے انسانوں نے کائنات کی سب سے اعلی و افضل ہستیوں کا احسان نہیں مانا تو تم اور میں کیا حیثیت رکھتے ہیں۔

ایک روز آقاکریمﷺ نے کہا تھا نا کہ "نسب کا علم حاصل کرو تاکہ صلہ رحمی کر سکو صلہ رحمی سے لوگ تم سے محبت کرنے لگیں گے تمہارے مال اور تمہاری زندگی میں اللہ برکت دے گا"۔ [سنن ترمذي: 1979، قال الشيخ الألباني: صحیح]

یہ نسب کا علم اس لئے تھا کہ یہ شناخت ہو کہ کون کس خاندان سے کم از کم اس خاندان کا طریقہ، بزرگ اور شرافت و مقام و مرتبہ کا علم تاکہ بندہ اپنی شناخت کر سکے۔ ورنہ تو حجتہ الوداع میں آقا کریمﷺ نے واضح فرما دیا تھا کہ "ابن جریر کی اس روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے حسب نسب کو قیامت کے دن نہ پوچھے گا، تم سب میں سے زیادہ بزرگ اللہ کے نزدیک وہ ہیں جو تم سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں"۔ کیونکہ اللہ کو نسب کی کوئی ضرورت نہی وہاں لگے ترازوں میں اعمال سے شناخت ہوگی۔۔

پھر کیا دنیا، خاندان اور لوگوں کا احسان لینا یا کسی پر اس کی زندگی آسان کرکے اس کے شر کا انتظار کرنا۔۔!

جس نے یوم محشر آپ کی سرپرستی کرنا ہے، جس نے روز حشر خدا کے حضور سجدہ ریز ہو کر امتی امتی کرنا ہے۔ اس کا شجرہ پھر یاد ہونا چاہئے۔ ہمارا نبی بھی وہی ہیں۔ ہماری جد بھی وہی ہیں۔ ہمارا وسیلہ بھی وہی ہیں اور ہمارے آقا بھی وہی ہیں۔ پھر ہم ان کا شجرہ یاد رکھتے ہیں۔۔ ان کی خاطر معاف کر دیا کریں اور ان ہی کی خاطر لوگوں سے پیار کریں۔

بیٹا! میرے بابا جی کہا کرتے تھے۔ روحانیت کی منافقت یہ ہے کہ آپ نبی کریمﷺکے خاطر اور اللہ کی خاطر لوگوں سے پیار کریں۔ مگر لوگ اسے یہ سمجھیں کہ آپ ان سے پیار کر رہے ہیں اور ان کی چاہت میں لٹ رہے ہیں اور ان کی چاہت میں فریفتہ ہوکر اپنا مال و دولت لٹا رہے ہیں۔ صرف یہی منافقت جسے (تکوین) کہا جاتا ہے قابل قبول ہے ورنہ باقی سب دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔

میرے بابا جان کہتے تھے روحانیت میں ریاء کاری ہم نے تم سے سیکھی ہے کیونکہ تم کسی کی محبت میں کسی سے پیار کرتے ہو۔۔

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فُروع ہیں

اَصُلُ الُاُصُول بَنُدَگی اُس تاجُوَر کی ہے

Check Also

Hamara Azeem Mohsin

By Maaz Bin Mahmood