Taleem, Deen Aur Tibb Mein Farq Aur Iske Asraat
تعلیم، دین اور طب میں فرق اور اس کے اثرات

کسی بھی معاشرے کی ترقی کا دار و مدار اس کے تعلیمی، دینی اور طبی شعبوں پر ہوتا ہے۔ اگر یہ تینوں شعبے درست ہاتھوں میں ہوں، تو قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے، لیکن اگر ان میں غیر مستند اور غیر اہل افراد شامل ہو جائیں، تو پورا معاشرہ انحطاط کا شکار ہو جاتا ہے۔ آج کا پاکستان اسی مسئلے سے دوچار ہے، جہاں تعلیم، دینی مدارس اور طبی شعبے میں اصل اور نقل کی تمیز کمزور پڑتی جا رہی ہے۔
تعلیمی شعبہ کسی بھی قوم کی بنیاد ہوتا ہے، کیونکہ یہ نسلوں کی تعمیر کرتا ہے۔ ایک اچھا استاد نہ صرف طلبہ کو علم فراہم کرتا ہے بلکہ انہیں شعور، اخلاقیات اور تنقیدی سوچ کا درس دیتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ایسے اساتذہ بھی موجود ہیں جو تدریس کو محض ایک نوکری سمجھتے ہیں۔ یہ وہ نقل کے استاد ہیں جو خود بھی کمزور علمی بنیادوں پر کھڑے ہوتے ہیں اور اپنے طلبہ کو محض رٹا سسٹم کے ذریعے آگے بڑھاتے ہیں۔ نتیجتاً، ہمارے تعلیمی ادارے تخلیقی سوچ رکھنے والے طلبہ پیدا کرنے کے بجائے ایسے نوجوان پیدا کر رہے ہیں
جو ڈگریاں تو رکھتے ہیں مگر عملی زندگی کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ دوسری طرف، اصل استاد وہ ہیں جو اپنے مضمون پر عبور رکھتے ہیں، تحقیق اور عملی زندگی کے تجربات کو تعلیم کا حصہ بناتے ہیں اور طلبہ میں سوچنے اور سوال کرنے کی عادت پیدا کرتے ہیں۔ اگر ہمارا تعلیمی نظام نقل کے اساتذہ کے بجائے اصل اساتذہ پر مشتمل ہو، تو ہمارا معاشرہ ترقی اور کامیابی کی منازل طے کر سکتا ہے۔
دینی مدارس کا کردار بھی اسی طرح معاشرے میں اہم ہے۔ دینی تعلیم ایک ایسا شعبہ ہے جو لوگوں کی فکری اور روحانی نشوونما کرتا ہے، لیکن یہاں بھی اصل اور نقل کا فرق نظر آتا ہے۔ وہ مدارس جو جدید تقاضوں کے مطابق دینی تعلیم فراہم کر رہے ہیں، جہاں طلبہ کو نہ صرف قرآن و حدیث بلکہ منطق، فلسفہ اور دنیاوی علوم بھی سکھائے جاتے ہیں، وہ معاشرے میں مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں۔ ایسے علماء دین کو تحقیق کی روشنی میں سمجھنے اور اس کا درست مفہوم لوگوں تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف، کچھ مدارس ایسے بھی ہیں جہاں تعلیم کا مقصد محض روایات کو دہرانا اور غیر ضروری فقہی بحثوں میں الجھانا ہے۔
یہاں تحقیق اور منطق کی کوئی جگہ نہیں اور طلبہ کو ایک محدود سوچ کے ساتھ معاشرے میں بھیجا جاتا ہے۔ نتیجتاً، ایسے مدارس سے نکلنے والے علماء جدید دنیا کے مسائل کا ادراک نہیں رکھتے اور وہ دینی و دنیاوی علوم کے درمیان ایک غیر ضروری خلا پیدا کر دیتے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ دین کو ایک عملی اور ترقی پسند طرزِ زندگی کے طور پر سمجھنے کے بجائے، لوگ اسے محض ایک رسمی عبادات تک محدود کر دیتے ہیں۔ اگر مدارس میں تحقیقی کلچر کو فروغ دیا جائے اور انہیں جدید دنیا کے علوم سے ہم آہنگ کیا جائے، تو یہ معاشرے کے لیے ایک مثبت طاقت بن سکتے ہیں۔
طبی شعبہ بھی کسی معاشرے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ڈاکٹرز واقعی اپنے پیشے سے مخلص ہوں، جدید تحقیق سے واقف ہوں اور مریضوں کی خدمت کو اولین ترجیح دیں، تو معاشرہ صحت مند اور ترقی یافتہ ہوتا ہے۔ مگر یہاں بھی اصل اور نقل کا مسئلہ نظر آتا ہے۔ ایسے جعلی اور غیر مستند ڈاکٹرز کی کوئی کمی نہیں جو صرف پیسے کمانے کی نیت سے اس پیشے میں آئے ہیں۔ یہ مریضوں کی تکلیف کو کم کرنے کے بجائے، انہیں غیر ضروری دوائیوں، مہنگے ٹیسٹوں اور غیر معیاری علاج میں الجھا دیتے ہیں۔ ان کے برعکس، اصل ڈاکٹر وہ ہیں جو انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں، جدید میڈیکل تحقیق پر توجہ دیتے ہیں اور مریضوں کی بہتری کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ اگر ہمارا طبی نظام ان نقل کے ڈاکٹروں سے پاک ہو اور اصل ماہرین کو فروغ دیا جائے، تو صحت کے شعبے میں انقلابی تبدیلی آ سکتی ہے۔
یہ تینوں شعبے ایک ساتھ مل کر کسی بھی معاشرے کی ترقی یا تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔ اگر تعلیم کا معیار کمزور ہو، اگر دینی مدارس میں محدود اور فرسودہ سوچ پروان چڑھائی جائے اور اگر طبی شعبہ غیر مستند افراد کے ہاتھوں میں چلا جائے، تو اس کے نتائج تباہ کن ہوتے ہیں۔ ایک غیر معیاری تعلیمی نظام ایسا نوجوان پیدا کرتا ہے جو عملی زندگی کے چیلنجز کا سامنا نہیں کر سکتا، ایک ناقص دینی نظام ایسا عالم پیدا کرتا ہے جو حقیقت سے ناواقف ہوتا ہے اور ایک غیر مستند طبی نظام ایسا ڈاکٹر پیدا کرتا ہے جو مریض کی جان سے کھیلتا ہے۔ اگر ان تینوں شعبوں میں نقل کے بجائے اصل کی قدر کی جائے، یعنی حقیقی ماہرین کو ان کی جگہ دی جائے، تو ہمارا معاشرہ ایک ترقی یافتہ، باشعور اور صحت مند قوم کی صورت میں ابھر سکتا ہے۔