Mera Ishq (1)
میرا عشق (1)

کالج کے زمانے میں جب کبھی کوئی شہری کلاس فیلو (ہم جماعت) کسی گاؤں والے کلاس فیلو کو چڑانے کیلئے یا احساسِ کمتری میں مبتلا کرنے کیلئے مخصوص اصطلاح "پِینڈو" استعمال کرتا تھا تو میں بن بلائے مہمان اور مفت وکیل کی طرح گاؤں والے کلاس فیلو کے دفاع کیلئے بیچ میں کود پڑتا تھا اور بعض اوقات تو نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ جا تی تھی تو میرے کلاس فیلو دوستوں کا گروپ فوری موقع پر پہنچ کر مجھے ریسکیو کرتا تھا۔
میرے چند سمجھدار قسم کے دوست بڑے پیار سے مجھے سمجھاتے تھے کہ یار وہ کونسا تمہیں کچھ کہ رہا تھا تم خامخواہ ہی پھڈے میں پڑ گئے اگر ہم وقت پر نہ پہنچتے تو آج تمہاری پٹائی ہو جانی تھی، میں سینہ چوڑا کرکے بڑے فخر کے ساتھ کہتا کہ یار مجھ سے کسی بھی گاؤں یا گاؤں والے کیلئے توہین آمیز الفاظ برداشت نہیں ہوتے کیونکہ مجھے اپنے گاؤں کے ساتھ جزباتی لگاؤ ہے باقی اللہ رب العزت میرے دوستوں کو سلامت رکھے جس کے دوست تمھارے جیسے ہوں اسے ہاتھ لگانا تو دور کی بات، مجال ہے کوئی اونچی بات بھی کر جائے۔
میرے دوست اپنی وفاداری اور کھری دوستی پر میرے منہ سے اپنی تعریف سن کر پھولے نہ سماتے اور ایک شرارتی قسم کا دوست اپنی مخصوص پنجابی زبان میں یہ فقرہ بھی اچھالتا "اِینے نہیں جے ٹلنا تسی جِنا مرضی سمجھا لؤ" (اس نے باز نہیں آنا آپ جتنا مرضی سمجھا لیں)۔
یہ ایک فطری بات ہے کہ ہر انسان کو اپنی جنم بھومی اور بچپن کے ساتھ ایک خصوصی لگاؤ اور محبت ہوتی ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ میں اپنے بچپن والے گاؤں سے محبت نہیں عشق کرتا ہوں کیونکہ اس زمانے کی خوبصورت یادیں آج بھی میرے دل اور دماغ میں ایک حسین خواب کی طرح سمائی ہوئیں ہیں، اگر سہولیات، آسائشیں اور پیسے کو دیکھا جائے تو جوکچھ الحمداللہ آج ہمارے بچوں کو میسر ہے ہمارے پاس اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں تھا مگر پھر بھی مجھے یہ لگتا ہے کہ جو برکت، سکون، خلوص، مٹھاس اور رونقیں ہمیں میسر تھی ہمارے بچے اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
شاید ہماری آخری جنریشن تھی جس نے پہلے ٹاٹ پر اور پھر ڈیسک پر بیٹھ کر سرکاری سکول میں تعلیم حاصل کی تھی ہمارے بچے آج لنچ باکس اور پاکٹ منی ساتھ لے کر پِک اینڈ ڈراپ سہولت کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر پرائیویٹ سکول میں پڑھنے جاتے ہیں اور ان کے پاس سردیوں اور گرمیوں کی الگ الگ وردیاں (یونیفارمز) کپڑے اور سکول شوز (جوتے) اور عام جوتے ہیں ہم پورے سال میں صرف عید کے موقع پر نیا سوٹ سلواتے تھے تو بھی ہمارے والدین کی کوشش ہوتی تھی کہ ہم سکول کی وردی کے رنگ والا سوٹ اور سکول والے رنگ کے جوتے خریدیں تاکہ عید کے بعد سکول کے کام بھی آجائیں۔
سردیوں میں ان کے ساتھ ہاتھ کے بنے ہوئے سویٹر کا اضافہ ہو جاتا تھا، لنچ باکس کا ہمارے دور میں رواج نہیں تھا ہم سرکاری پرائمری سکول میں تفریح کے وقت (بریک ٹائم) اپنے گھر پیدل آکر اپنی ماں جی کے ہاتھ کی بنی ہوئی روٹی کبھی دیسی گھی شکر والی چوری (گھی شکر میں روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے مکس کرنا)کے ساتھ انجوائے کرتے تھے اور کبھی مٹی سے بنے ہوئے کھُڈے ٹائپ مخصوص جگہ جسے ہم اپنی مقامی زبان میں آلا (دودھ کڑھنی) کہتے تھے اس میں پاتھیوں (اپلوں) کی ہلکی آنچ والی آگ پر صبح سے اپنے ہی گھر کی بھینس کے خا لص دودھ سے بھری ہوئی کاڑھنی (مٹی کا برتن) رکھی ہوتی تھی ہماری تفریح ہونے کے وقت تک کاڑھنی میں موجود دودھ کے اوپر ہلکی آنچ والی آگ کی وجہ سے کَڑ کَڑ کر موٹی دَبیز تہ والی ہلکے پیلے رنگ کی ملائی آ جاتی تھی، جسے ماں جی دودھ سے اتار کر اس میں شکر ملا کر دیسی گھی والی روٹی کے ساتھ بڑے پیار اور لاڈکے ساتھ ہمیں کھلاتی تھی اور ہم کھانے کا ایسا سادہ مگر لذیذ لطف اٹھاتے تھے جو ہمیں آج تک کبھی دوبارہ نصیب نہیں ہوا۔
پاکٹ منی ہمیں روزانہ نہیں ملتی تھی مگر کبھی کبھی ہمیں دو یا پانچ روپے کا نوٹ مل جاتا تھا تو ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا تھاکیونکہ اُس دن ہم نے بابا ذوالفقار علی المعروف بابا بھٹو سے پلاسٹک کے پیالہ نما برتن میں کھٹے والے پانی میں ڈوبی ہوئی گرما گرم شکر قندی کھانی ہوتی تھی بابابھٹو (مرحوم) روزانہ اپنے گھر (گاؤں کی جنوبی نکر) سے شکر قندی کا ٹوکرا اپنے سر پر اٹھا کرپیدل سکول (گاؤں کی شمالی نکر) پہنچتا تھا تاکہ اپنے گھر والوں کیلئے نان نفقے کا انتظام کر سکے، اب یہ سوچ کر دل کی عجیب کیفیت ہو جاتی ہے کہ پورے گاؤں میں کوئی ایک بھی ایسا صاحبِ استطاعت شخص نہیں تھا جس کے دل میں یہ خیال آتا کہ بابا بھٹو کو ایک سائیکل ہی دلوا دیتا تاکہ اسے مشقت بھری زندگی میں کچھ تو آسانی میسر ہو ہی جاتی۔
سکول سے چھٹی والے دن میں اورماں جی روٹی لے کرابا جی کے پاس اپنے کھیتوں میں جاتے تھے، جہاں ابا جی دو خوبصورت بیلوں کو جوت کر ہل چلا رہے ہوتے تھے پھر ہم وہیں کھیت میں بیٹھ کر کسی پیڑ کے سایے تلے تازہ مٹی کی مہک میں آرگینک کھانے سے لطف اندوز ہوتے تھے، کھانے میں ابا جی کی مرغوب "چٹنی" جسے ہری مرچ دھنیا اور پودینہ کے پتے مکس کرکے پھر اچھی طرح کونڈے (دوری ڈنڈا) میں کوٹ کرتیار کیا جاتا تھاپھر اسے مکھن کے ساتھ چوپڑی (مکھن لگی ہوئی) گرم روٹی کے اوپر رکھ کر کھانے کا لطف اٹھایا جاتا تھا وہ چٹنی او رلسی جس میں مکھن کا پیڑا تیرتا ہوا نظر آتا تھا کھانے میں ضرور شامل ہوتی تھی، پھر کھیت کو ہموار کرنے کیلئے ابا جی جب سواگہ (سوہاگہ) چلاتے تھے تو میں اپنے پسندیدہ شغل سے لطف اندوز ہونے کیلئے ابا جی کی دونوں ٹانگوں کو مضبوطی سے تھام کر سواگے کے درمیان میں بیٹھ کر جھولے لیتا تھا۔
ہمارے بچوں کی زندگی میں تو روزانہ صبح عربی پھر سکول پھر ٹیوشن اور پھر ہوم ورک مکمل کرتے ہی رات چھا جاتی ہے اب بچوں کی گرمیوں کی لمبی تعطیلات بھی اے سی والے کمرے میں ہی ہوم ورک اور آئی پیڈ، ٹیبلٹ یا موبائل کے ساتھ گزر جاتیں ہیں ہمیں گرمیوں کی تعطیلات کا بڑی بے صبری سے انتظار ہوتا تھا گرمیوں کی تعطیلات کا اعلان ہمارے لئے ایسے ہی تھا جیسے عید کے چاند کا اعلان، ہم ٹیوشن صرف گرمیوں کی چھٹیوں میں ہی صبح صبح پڑھنے جاتے تھے پھر لمبی گرم دوپہریں کسی گھنے شجر کے نیچے چھٹیوں کا کام لکھتے اور مختلف روایتی کھیل کود میں گزارتے، کبھی کبھی بہت زیادہ گرمی محسوس ہونے پر یا گرمی کا بہانہ بناکر گھر والوں سے آنکھ بچا کرتربوز یا خربوزے لے کر چھوٹی نہر پر نہانے نکل جاتے واپسی پرراستے میں جتنے بھی پھل دار درخت آتے ان پر ہاتھ صاف کرتے جاتے، دوپہر کے بعد دیوار کے سایے میں چارپائیوں پر بیٹھ کر پوری جوائنٹ فیملی کے ساتھ گڑ والی چائے نوش فرماتے مجھے نہیں یاد پڑتا کہ ہماری گرمیوں کی کوئی شام بھی سکول گرانڈ میں پہلے کرکٹ اور پھر فٹ بال کھیلے بغیر گزرتی تھی۔
گندم کی کٹائی کے بعد جس دن تھریشر مشین لگتی تھی ہمارے لئے وہ بڑا خاص دن ہوتا تھا سب رشتہ دار یار دوست مل کرکام میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے تھے، کام کے دوران ہی چائے اور جلیبی کا دور بھی چلتا تھا اور پھر اس دن کا سپیشل لنچ "دیسی مرغ کا سالن اور ساتھ زردہ چاول" مزا دوبالا کر دیتے تھے، شام کو دادا جی کھیت میں نکلے ہوئے تازہ گندم کے ڈھیر سے مولوی صاحب (امام مسجد) کے حصے کے دانے، عُشر اور سیپی (نائی، لوہار، کمہار) والوں کے دانے الگ کر دیتے تھے پھر ہماری باری آتی تھی ہم اور ہمارے قریبی رشتہ داروں کے سبھی بچوں کو داداجی باری باری جھولی بھر کر بالا (گندم) دیتے تھے جسے سبھی بچے اپنی اپنی پسند کے مطابق خرچ کرتے تھے، کوئی کھوئے والی قلفی کھانا پسند کرتا تھا تو کوئی برف کا گولا جس میں تُخمِ بالنگا موٹی موٹی سیویاں (سویاں) اور مختلف رنگوں والا شیریں مشروب ڈال کر تیار کیا جاتا تھا، کچھ بچے اور زیادہ تر بچیاں گندم، مکئی کے دانے، چھولے(چنے) اور باریک کوٹا ہوا گڑ تقریباً ہر شام مائی دارو کی پٹھی پر لے جاتے تھے اُس وقت مائی دارو کی بٹھی پر تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی تھی۔
مائی دارو معاوضے کے طور پر گندم اور مکئی کے دانوں میں سے ہی کچھ حصہ نکال کر اپنے پاس رکھ لیتی تھی نقد روپے بہت کم ہی کسی کے پاس ہوتے تھے۔ گرمیوں میں ہمارے محلے کی نکر پر ادھیڑ عمر خواتین مل جل کر ایک تنور لگا لیتی تھیں جس پر کبھی کبھی میٹھی یا نمکین روٹی لگائی جاتی تھی اس کڑکنی گرم روٹی پر مکھن لگا کر لسی کے ساتھ لطف اٹھایا جاتا تھا، ہمارے محلے کی ایک بزرگ بڑھیا چاند کی ہر گیارھویں تاریخ کو کھیر یا حلوا بناتی تھی تو اُس شام پورے محلے کے بچوں کی خوشی دیدنی ہوتی تھی، ہمارے ایک بزرگ جو رشتے میں ہمارے دادا جی ہی لگتے تھے ان کے کھیتوں میں بہت بڑے اور پرانے بیری کے پیڑ تھے وہ بیری کے پھل والے موسم میں روزانہ شام کو ہمیں بیر بھی کھلاتے تھے اوراپنی فوج میں گزری ہوئی زندگی سے دلچسپ قصے اور کہانیاں بھی سناتے تھے۔۔
جاری ہے۔۔