Tuesday, 01 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Irfan Javed
  4. 12 October Aur Ata ul Haq Qasmi

12 October Aur Ata ul Haq Qasmi

12 اکتوبر اور عطاء الحق قاسمی

12 اکتوبر1999ء کی رات تھی۔ میں گجرات میں جی ٹی روڈ پر واقع سبحان ریسٹورانٹ، میں چند دوستوں کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا۔ اچانک خبر آئی کہ ملک میں کوئی بڑا واقعہ ہوگیا ہے۔ پی ٹی وی کی نشریات بند ہوگئیں اور ریڈیو بھی خاموش ہوگیا۔ یاد رہے تب سوشل میڈیا اور بے شمار ٹی وی چینلز نہیں ہوتے تھے۔ خبر کے ذرائع پی ٹی وی، ایک آدھ چینل، ریڈیو اور اخبارات تھے۔ ہر سُو سراسیمگی پھیل گئی۔ رات میں پی ٹی وی کی نشریات بحال ہوئیں اورملک میں جمہوریت کی بساط لپیٹے جانے کی خبر آئی۔ اب تک معلوم نہ تھا کہ وطنِ عزیز میں کیا ہو رہا ہے۔

جب کوئی خبر نہ نکلے تو تب ہی سب سے زیادہ خبریں نکلتی ہیں، افواہیں اور چہ میگوئیاں۔ رات گئے پرویز مشرف ٹی وی پر آئے اور اعلان کیا کہ ملک کے بہترین مفاد میں، انھوں نے ملکی قیادت سنبھال لی ہے۔ معزول وزیراعظم نواز شریف کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا کہ وہ زندہ ہیں یا نہیں۔ اس سے پچھلے مارشل لا میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی تھی۔ سو امکان اغلب یہی تھا کہ نواز شریف کا انجام بھی یہی ہوگا۔ مزید یہ کہ ان کے ساتھیوں اور حواریوں کو گرفتار کرلیا گیا ہوگا اور انھیں بھی عبرت ناک انجام کی جانب دھکیل دیا جائے گا۔ اگلے روز کے جنگ اخبار میں خبرشائع ہوئی کہ اسلام آباد میں ریڈزون کے نزدیک گولیاں چلنے کی آوازیں سُنی گئیں۔

خوف کے اِن حالات میں ملک بھر کے تجزیہ کار اور صحافی مُرغِ بادنُما کی طرح اپنے رخ بدل گئے۔ ایک روز پہلے جو نواز شریف کے حمایتی تھے اگلے روز وہ نئی حکومت کی مدح سرائی میں غرقاب ہو گئے۔ ان ہی دنوں ایک کتاب آئی تھی جس کا نام" کالم نگاروں کی قلابازیاں "تھا۔ اس میں کالم نگاروں کے 12 اکتوبر سے پہلے اور بعد کے کالم شائع کیے گئے تھے اور ان کی آرا کے تضاد پر طنزیہ چوٹ کی گئی تھی۔ ان سیاہ ایام میں تین بلند آہنگ آوازیں ایسی تھیں جو ملک میں روشنی کا استعارہ تھیں۔ ایک آواز لاہور سے اور دو آوازیں حیران کُن طور پر کراچی سے تھیں جو کبھی بھی نواز شریف کا حلقہ نہیں رہا تھا۔ لاہور سے عطاء الحق قاسمی اور کراچی سے زاہدہ حنا اور مشاہد اللہ کی آوازیں۔

عطاء الحق قاسمی اس امر سے بے خوف ہوکر کہ ان کے اوپر کچھ بھی بیت سکتا ہے پوری قوت سے للکار رہے تھے۔ آج کے حالات میں اس بے خوفی کا ادراک نہیں ہوسکتا۔ تب میاں نواز شریف کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا امکان تو دور کی بات ہے ان کے زندہ رہ جانے کی صورت بھی نظر نہ آتی تھی۔ امریکی صدر بِل کلنٹن نے اُن ہی دِنوں پاکستان کا دورہ بھی کیا جس میں انھیں یقین دہانی کروائی گئی کہ جمہوری لیڈر کو موت کی سزا نہیں دی جائے گی۔

آج جب لوگ عطاء الحق قاسمی پر مفاد اٹھانے کاالزام لگاتے ہیں تو مجھے اُس دور کا قاسمی یاد آجاتا ہے، جری اور باضمیر۔ اُن دنوں میں لڑکپن کی حدود میں تھا اور قاسمی صاحب ایک بلند قامت صحافی ودانش ور۔ میری جب بھی ان سے بات ہوتی ان کا بے لوث عزم اور بہادری دیکھ کر میری نظروں میں اُن کا قد مزید بڑھ جاتا تھا۔ قاسمی صاحب ایک خالص محبِ وطن آدمی ہیں اور خلوصِ نیت سے ملک کی بہتری و ترقی کے خواہاں ہیں۔ ان کے سیاسی نظریات سے سو اختلاف ہوسکتا ہے مگر ان کے خلوصِ نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا۔

ان کے مزاج میں شامل ہے کہ وہ جس کے ساتھ ہوتے ہیں پورے خلوص اور دل وجان سے ہوتے ہیں۔ بھلے وہ احمد ندیم قاسمی جیسے جیّد ادیب ہوں جن کی خاطر انھوں نے کئی لوگوں سے لڑائی مول لی اور آج بھی ان کے تذکرے پر آب دیدہ ہوجاتے ہیں یا ان کے ذاتی دوست ہوں۔ قاسمی صاحب نے ناروے کی سفارت اس یقین دہانی کے باوجود کہ وہ اسے جاری رکھ سکتے ہیں اصولی بنیادوں پر چھوڑ دی تھی۔ 12 اکتوبر کے بعد ان کی کتاب بارہ سنگھے بھی شائع ہوئی جس کی تعارفی تقریب کی صدارت بابائے جمہوریت نواب زادہ نصراللہ خان نے کی تھی۔ وہ ان معدودے چند مزاح نگاروں میں سے ہیں جن کے مزاج میں بھی ظرافت شامل ہے۔ البتہ چند معاملات میں وہ حد درجہ سنجیدہ ہیں جن میں اپنی اولاد کی تربیت بھی شامل ہے۔

یاسر پیرزادہ کے خیالات سے اختلاف ممکن ہے مگر ان کے کھرے اورمنافقت سے پاک ہونے پر دو رائے نہیں، یہی امر ایک صاحبِ کردار کو دیگر سے ممتاز کرتا ہے، عمرقاسمی سرکاری افسر ہیں اور اپنی طبع کی حلاوت اور کردار کی مضبوطی کے باعث سرکاری حلقوں میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں اور قاسمی صاحب کے تیسرے بیٹے علی عثمان قاسمی صفِ اوّل کے دانش وروں میں شمار ہوتے ہیں اور لمز جیسے معتبرتعلیمی ادارے سے منسلک ہیں۔ بیٹوں کی تربیت میں ان کی والدہ کا کردار بھی مثالی رہا ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دُشنام وبہتان نےقاسمی صاحب کو اتنا دکھی کردیا گیا ہے کہ انھوں نے بہت سے اصولی سیاسی معاملات پر خاموشی سادھ لی ہے۔

آج کل جنگ اخبار کے ادارتی صفحے پر قاسمی صاحب کی رُودادِ حیات شائع ہورہی ہے۔ اُسے پڑھ کر اِن سطور کا خیال آیا۔ دعا ہے کہ جب وہ اپنی زندگی کی سینچری مکمل کریں توشائقین علم و ادب، عوام وخواص کا اسٹیڈیم انھیں کھڑے ہوکر داد دے۔

Check Also

Do Neem Mulk e Khudadad (3)

By Shaheen Kamal