طلاق اور بچے

آج کسی دوست نے بتایا فلاں کی طلاق ہوگئی۔ یقینی طور پر دکھ ہوتا ہے کہ کس خوشی اور اہتمام سے والدین شادیاں کرتے ہیں، بھاری خرچہ کرتے ہیں شاید قرضہ بھی لیتے ہیں اور سب ارمان پورے کرتے ہیں۔ یار دوستوں رشتہ داروں کو خوشی سے بلایا جاتا ہے، یاد دہانیاں کرائی جاتی ہیں، کارڈز چھپتے ہیں، دونوں گھرانے ایک دوسرے کے ناز نخرے اٹھاتے ہیں، سب خوش کہ بچے زندگی کا ایک نیا سفر شروع کررہے ہیں۔ مہندی کا فنکش، پھر رخصتی اور پھر ولیمہ۔۔ ویڈیوز بن رہی ہیں، سب تیار ہو کر نئے کپڑے پہن کر شریک ہوتے ہیں۔
کچھ عرصے بعد شادی میں شریک تمام باراتیوں کو پتہ چلے کہ طلاق ہوگئی تھی تو سب کو کتنا دکھ اور افسوس ہوتا ہوگا۔
اس سے بڑھ کر والدین کو خصوصا لڑکی کے جنہیں یہ بھاری پتھر اٹھانا پڑا بلکہ دیکھیں تو دونوں گھرانوں کو بھاری پتھر اٹھانا ہے۔ دونوں گھرانے ہر کسی کو اپنی اپنی کہانی سنائیں گے کہ کس کا قصور تھا۔ ایک دوسرے پر الزمات۔ گھر میں کچھ عرصے بعد وہ مطلقہ لڑکی بھی مشکلات میں آجائے گی اگر جلد دوسری شادی نہ ہوئی۔
خیر ایک دفعہ میرے ایک دوست کی طلاق ہوئی۔ اس کے دو تین بچے تھے جو میرے بچوں کے ساتھ سکول میں پڑھتے تھے۔ بہت پیارے اور خوبصورت بچے۔ میں بھی اپنے بچوں کو سکول چھوڑنے جاتا تو وہاں اس دوست اور اس کے بچوں سے ملاقات ہوتی۔
طلاق کا پتہ چلا تو ایک دن میں نے افسوس کیا۔ مجھے بڑا دکھ ہوتا ہے اس طرح کی خبروں پر کہ فوراََ میرا دماغ بچوں کی طرف جاتا ہے کہ چھوٹے بچے کیسے یہ سب پراسس کرسکتے ہیں کہ اب ان کے ماما بابا اکھٹے نہیں رہتے اور دونوں ایک دوسرے کو برا سمجھتے ہیں۔ وہ اب ماما بابا کے بستر پر اکھٹے ان کے ساتھ لیٹیاں یا ناز یا شرارتیں نہیں کرسکتے۔ اب وہ الگ الگ دنیا میں رہتے ہیں۔
اس دوست نے مجھے کہا رئوف بھائی آپ کو ایک بات بتائوں ایک broken گھر ایک disturbed گھر سے بہتر ہے۔ ڈسٹرب گھر کے بچے کبھی سکون سے نہیں رہ سکتے نہ بڑے ہوسکتے ہیں۔ وہ ہر وقت ماں باپ کی لڑائی کے اثرات لیتے ہیں، لیکن بروکن فیملی کے بچے کچھ عرصے بعد سمجھ جاتے ہیں اور ایڈجسٹ کر جاتے ہیں۔
میں اس دوست سے قائل ہوتے ہوئے سوچتا رہا کہ ہم حالات اس نہج پر کیوں آنے دیتے ہیں کہ بچوں سے ایک قیامت جیسا سوال پوچھا جائے بیٹا/بیٹی آپ نے باپ کے ساتھ جانا ہے یا ماں کے ساتھ اور معصوم بچے خالی اداس نظروں سے کبھی ماں تو کبھی باپ کو دیکھیں اور دیکھتے رہیں اور کبھی فیصلہ نہ کر پائیں اور سوچتے رہیں کہ ان کے سکول دوستوں کے ماں باپ تو اکھٹے رہتے ہیں تو ہمارے کیوں نہیں۔ ان سے تو یہ سوال ان کے ماما بابا نہیں کرتے۔