Raz e Ishq o Irfan
رازِ عشق و عرفان

ایک وہمی آدمی نے پہچان کے لیے اپنے گلے میں سرخ دھجی ڈالی تا کہ لوگوں میں گم نہ ہو جاؤں۔ ایک شخص کو اس کا یہ خبط معلوم ہوگیا۔ اس نے بوقت خواب وہ دھجی اس کے گلے سے نکال کر اپنے گلے میں ڈال لی اور اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ جب وہ نیند سے چونکا اور آنکھ کھلی تو دیکھا کہ علامت شناخت دوسرے کے گلے میں ہے۔ اس سے کہا کہ میاں تو میں ہے پھر میں کون ہوں یا میں تو ہوں اور تو میں ہے یا تو تو ہے اور میں میں ہوں۔ بتا میں کون ہوں۔ سو یہی حال عارف کا ہے کہ جب منزل عرفان پر پہنچتا ہے تو متحیر ہو کر کہتا ہے کہ میں کون ہوں۔
***
منشی امیر علی صاحب کو کیمیا کا شوق بدرجہ غایت تھا۔ چنانچہ مرض الموت میں حاجی فرید الدین صاحب کو بلا کر وصیت کی کہ یہ سینتیس دن تو کھرل ہو چکی ہے۔ تین روز اور بچوں کے پیشاب میں کھرل کرکے پانچ سیر اپلوں کی آگ دے دینا۔ اکسیر اعظم بن جائے گی۔ خیر یہ تمہارے نصیب میں تھی ہم تو محروم ہی چلے۔
(اگرچہ اپنی متوقع امید آگئی (پوری ہوگئی) لیکن کیا فائدہ اس لیے کہ اب امید نہیں کہ گزری ہوئی عمر لوٹ آئے گی۔)
اس کے بعد کچھ اور ترکیب بتائی اور اسی حالت میں جاں بحق ہو گئے۔ دم آخر تک مطلوب کا خیال نہ چھوڑا۔ اس کے دھیان میں جان گئی۔ بھلا طالب کو خدا کے ساتھ اتنی تو محبت ہو ورنہ کاذب ہے۔
***
عشق یوسفؑ کو اس لیے غلام بناتا ہے تا کہ وہ زلیخا کو اپنے دام میں پھنسا لے۔
عشق حضرت موسیؑ کو کوہ طور پر لے گیا، محبوب کے دیدار کے لیے انہیں نور کی طرف لے گیا۔
عشق احمد ﷺ (حضور اکرم ﷺ) کے لیے معراج دین ہے کہ آپ کا مقام "حق الیقین" ہے۔
عشق کیا ہے؟ یہ قطرے کو دریا بنانا ہے دونوں عالم سے ہٹ کر خدا سے وابستہ ہونا ہے۔
عشق اپنی ہستی سے نجات پانا (آزاد ہونا) ہے اور مقام سرمدی تک پہنچ جاتا ہے۔)
***
من تو شدم تو من شدی
من تن شدم تو جاں شدی
تاکس نگوید بعد ازیں
من دیگرم تو دیگری
(میں تو ہوگیا، تو میں ہوگیا میں بدن جسم ہوگیا تو جان ہوگیا تاکہ اس کے بعد کوئی یہ نہ کہے کہ میں کوئی اور ہوں تو کوئی اور ہے۔)
**
محبت سے تلخیاں کڑواہٹیں شیریں ہو جاتی ہیں۔
محبت سے تانبے سونا بن جاتے ہیں۔
محبت سے چھٹیں صافی بن جاتی ہیں، محبت سے دردوں کو شفا مل جاتی ہے۔
محبت سے کانٹے پھول بن جاتے ہیں، محبت سے سر کے (سڑے ہوئے رس) شراب بن جاتے ہیں۔
محبت سے پھانسی، تخت بن جاتی ہے، محبت سے بوجھ نجات بن جاتا ہے۔
محبت سے محبت کی بدولت قید خانہ گلشن بن جاتا ہے محبت کے بغیر روضہ (گلزار) آتش خانہ بن جاتا ہے۔
محبت سے غم خوشی میں بدل جاتا ہے محبت سے دیو رہنما بن جاتا ہے۔
محبت سے نار (آگ) نوری بن جاتی ہے محبت سے دیو جن حور بن جاتا ہے۔
محبت سے پتھر، روغن بن جاتا ہے، محبت کے بغیر موم لوہا بن جاتی ہے۔
محبت کی بدولت شیر، چوہا بن جاتا ہے۔ محبت کی بدولت ستم / بیماری صحت بن جاتی ہے اور محبت سے قہر رحم میں بدل جاتا ہے۔
محبت سے مردہ زندہ ہو جاتا ہے اور محبت سے بادشاہ غلام بن جاتا ہے۔
خلیلؑ ساتویں آسمان سے گزرتے ہیں تو (میں غروب ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا) کہتے ہیں۔
پانی تلاش نہ کر/نامانگ، پیاس حاصل کرتا کہ اوپر اور نیچے سے پانی جوش مارے۔
جب "(ان کو پلانے والا ان کا رب ہے) کا ارشاد ہوا ہے تو پھر تو تشنہ رہ اور اللہ ہی صحیح جاننے والا ہے۔ تجھے رحمت کا پانی چاہیے۔ جا خود کو پست کر لے اور پھر اس وقت خم رحمت پی اور مست ہو جا۔
**
حضرت موسیٰؑ نے قارون کے لیے بددعا کی تو وہ زمین میں دھنسنے لگا۔ مضطرب ہو کر تین بار پکارا کہ اے موسیٰ مجھ کو بچاؤ لیکن حضرت موسی صاحب جلال تھے۔ ایک نہ سنی۔ اس وقت بارگاہِ خداوندی سے ارشاد ہوا کہ اے موسیٰ تم سے قارون نے اس قدر التجا کی اور تم نے کچھ رحم نہ کیا۔ اگر وہ ہم کو ایک ہار بھی پکارتا تو ہم اس کو فوراً بچا دیتے۔ مخلوق کی قدر تم کیا جانو۔ نہ تم نے پیدا کیا نہ پالا۔ یہ رتبہ ہمارے ہی واسطے زیبا ہے
جہاں دارد اند جہاں داشتن
(دنیا کو رکھنا چلانا جہاندار ہی جانتا ہے۔)
**
نقل ہے کہ ایک بادشاہی خاکروب کی قرابت گاؤں میں تھی۔ اس کا داماد گاؤں سے آیا اور اپنے سسرال میں رہا۔ اس کی بیوی نے کہا کہ جاؤ بادشاہی پاخانہ صاف کر دو۔ وہاں جو گیا تو پاخانہ اقسام عطریات اور خوشبوؤں سے معطر ہو رہا تھا۔ اس کا دماغ خوشبو کا متحمل نہ ہوا۔ فوراََ بیہوش ہو کر گر پڑا۔ اس کی بیوی نہایت ہوشیار تھی۔ وجہ سمجھ گئی اور کتے کا گوہ لا کر جھٹ پٹ اس کو سنگھا دیا۔ تھوڑی دیر میں ہوش آ گیا۔ اب دیکھو کہ بھنگی عطر کی خوشبو سے تو بے ہوش ہوگیا اور کتے کے گوہ سے ہوشیار۔ پس ہر ایک کی طبیعت لطافت و کثافت میں مختلف ہے۔
**
پاک لوگوں کو اپنے جیسا نہ سمجھے اگرچہ لکھنے میں شَیر (جانور) اور شِیر (دودھ) ایک جیسے ہیں۔
**
حضرت سلیمانؑ کا لشکر ایک راہ سے گزرا۔ کسی غریب ماہی گیر کی لڑکی جو نہایت بدشکل تھی بڑے ہی شوق اور امنگ سے اس لشکر کی سیر دیکھنے کو دوڑی۔ اس کی ہمجولیوں نے طعن کیا اور چھیڑا کہ یہ تو نور بھری صورت اور یہ اشتیاق۔ تو تو ایسی گھبرا کر لپکی تو گویا سلیمان کی بیوی ہی بن جائے گی۔ اس غریب نے کچھ نہ کہا اور جل بھن کے چپ رہی۔
خدا کی قدرت کچھ دنوں بعد وہ انگشتری کہ جس پر اسم اعظم کندھا تھا، حضرت سلیمان کے پاس سے دیو نے چرالی اور سلطنت ان کے قبض و تصرف سے نکل گئی۔ اتفاقاً اسی ماہی گیر کے گھر میں آکر رہے جس کی وہ لڑکی تھی اور ماہی گیر کا پیشہ اس کے ساتھ میں یہ بھی کرنے لگے۔ وہ ہر روز ایک مچھلی ان کو دیا کرتا۔ ان کی خصلت ماہی گیر کو ایسی پسند آئی کہ اپنی لڑکی کا نکاح ان سے کر دیا۔ ایک دن اسی ماہی گیر کے جال میں تین مچھلیاں لگیں۔ اپنی لڑکی کو صاف کرنے کے واسطے دیں۔ اس نے مچھلی کا پیٹ چاک کیا تو ایک انگشتری برآمد ہوئی۔ سوچی کہ باپ کو دوں یا شوہر کو۔ آخر سوچ بچار کر شوہر کی نذر کی۔ حضرت نے اس کو لے لیا اور کہا الحمدللہ۔
پھر وہی سلطنت تھی اور وہی کارخانہ اور وہی دختر ماہی گیر جس کو ہمجولیوں نے طعنہ دیا تھا۔ مشیت ایزدی سے سلیمان کی بیوی بن گئی۔ اب چھیڑنے والیاں شرمندہ ہوئیں اور اپنا قصور معاف کرایا۔
کہتے ہیں کہ جس وقت حضرت سلیمان کی خاتم گم ہوئی تھی تو اس وقت بھی آپ نے الحمد للہ کہا تھا۔ کسی نے دریافت کیا کہ گم ہونے پر بھی الحمد اللہ اور پانے پر بھی الحمد للہ۔ اس میں کیا حکمت تھی۔ آپ نے فرمایا کہ جب انگشتری گم ہوئی اور سلطنت جاتی رہی تو ہم نے اپنے دل کی جانب غور کیا۔ کچھ اندوہ و قلق نہ پایا اس لئے شکر ادا کیا اور جس وقت انگشتری ملی تو ہم نے دل کی حالت پر نظر کی۔ کچھ خوشی اور مسرت نہ دیکھی۔ ہم نے شکر ادا کیا کہ اس کھونے اور پانے کا کچھ اثر نہ ہوا اور استقلال میں فرق نہ آیا۔
(سید غوث علی شاہ ہندوستان کے مشہور بزرگان میں شامل ہیں۔ آپ کی ولادت 1804 میں ہوئی۔ اس کالم میں موجود واقعات اور ملفوظات آپ کی مشہور کتاب "تذکرۂ غوثیہ" سے منتخب کیے گئے ہیں)۔