Wednesday, 26 March 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Mir Jaffer Zalmay Khalilzad

Mir Jaffer Zalmay Khalilzad

"میر جعفر" زلمے خلیل زاد

برصغیر کے مسلمانوں کو اپنی صفوں میں سے "میر جعفر" ڈھونڈنے کا بہت شوق ہے۔ کسی شخص کو "میر جعفر" ٹھہرانے کے لئے جو پیمانہ استعمال کیا جاتا ہے اس کا اطلاق اگر افغان نڑاد سفارت کار زلمے خلیل زاد پر ہو تو وہ بھی حقارت سے دورِ حاضر کا سامراجی کارندہ کہلوائے جانے کا مستحق ہے۔ بانی تحریک انصاف کی محبت میں ان کی حکومت کے زوال کے بعد امریکہ منتقل ہوئے عاشقانِ عمران کے ایک خاص گروہ کو لیکن اس سے محبت ہوچکی ہے۔

لاہور سے ابھرا ایک بے سُرا اور دونمبر کا صوفی اکثر ان دنوں Xکہلاتے پلیٹ فارم پر اس کے ساتھ بڑے چائو سے کھچوائی تصاویر لگاتا ر ہتا ہے۔ اس جیسے سادہ لوح افراد کوگماں ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ جلد ہی زلمے کو کسی اہم عہدے پر تعینات کردے گا۔ جس تعیناتی کے وہ منتظر ہیں وہ ہوگئی تو زلمے اپنا رسوخ عمران خان کی جلد از جلد رہائی اور بعدازاں اقتدار میں واپسی کے لئے استعمال کرے گا۔

عمران خان تو ایک قدآور سیاستدان ہیں۔ جمہوریت کا زمانہ طالب علمی سے شیدائی ہوتے ہوئے میں تو کسی سیاسی جماعت کے نچلی سطح کے کارکن کو بھی ریاستی قوت کے ہاتھوں بے بس ہوا دیکھنا نہیں چاہتا۔ اس تاثر کو البتہ امریکی نظام کو پیشہ ور صحافی ہونے کی بدولت میسر ہوئی جانکاری کی بنیاد پر نہایت خلوص سے رد کرتا رہا کہ زلمے خلیل زاد ہمارے سابق وزیر اعظم کی رہائی میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ ہماری مائیں اکثر "غرض مند دیوانہ ہوتا ہے" والا محاورہ استعمال کرتی ہیں۔ سادہ لوح عاشقانِ عمران بھی اپنے قائد کی محبت میں آس کا دامن چھوڑنے کو تیار نہیں ہورہے۔ انہیں سمجھانے کی کوشش کرو تو "لفافہ صحافیوں" کی سوچ کو لتاڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔

زلمے خلیل زاد جبلی اعتبار سے ایک موقعہ پرست شخص ہے۔ جوانی میں ایک وظیفہ پرافغانستان سے وہاں گیا اور پھر پلٹ کر اپنے وطن نہیں آیا۔ واشنگٹن کے طاقتور حلقوں میں جگہ بنانے کے لئے اس نے ری پبلکن پارٹی کی چمچہ گیری شروع کردی۔ ری پبلکن پارٹی کی چمچہ گیری ایک سمارٹ موو تھی کیونکہ غریب ممالک سے امریکہ منتقل ہوئے افراد عموماََ ڈیموکریٹ پارٹی سے خیر کی امید رکھا کرتے تھے۔ زلمے خلیل زاد اس تناظر میں "ہٹ کر کھیلا" اور امریکی سرمایہ داروں کی اس جماعت میں بہت تیزی سے ترقی وخوشحالی کی جانب گامزن ہونے لگا۔

نائن الیون کے بعد جب امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوا تو اس ملک پر قابض ہونے کے چند ماہ بعد ری پبلکن صدر بش نے اسے امریکہ کا سفیر بناکر کابل بھیج دیا۔ اتفاق سے اس کے دور سفارت کے دوران میں چار سے زیادہ مرتبہ افغانستان گیا۔ کابل کے ڈرائنگ روموں میں اسے نفرت سے "امریکی وائسرائے" پکارا جاتا تھا۔ حامد کرزئی اس کی چالوں کو مکاری سے برداشت کرتا رہا۔ بتدریج مگر واشنگٹن کو یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوگیا کہ زلمے خلیل زاد کے "وائسرانہ رویے" کی وجہ سے امریکہ کو افغان عوام کے "دل ودماغ" جیتنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ اسے کابل سے واپس بلاکر صدر بش نے عراق بھیج دیا۔ عراق میں اس کی "سفارت کاری" نے بالآخردنیا کو داعش جیسی انتہا پسند تنظیم سے نوازا۔

2016ء میں برسراقتدار آنے کے بعد ٹرمپ افغانستان سے اپنی افواج نکالنے کو بے چین تھا۔ اس سے قبل امریکی صدر اوبامہ پاکستان سے مایوس ہوکر قطر سے رجوع کرچکا تھا۔ تیل وگیس کی دولت سے مالامال قطر جو عالمی سطح پر چھوٹا ملک ہونے کے باوجود اہم کردار ادا کرنا چاہتا ہے امریکی افواج کی مزاحمت کرنے والے طالبان میں سے دوست تلاش کرنا شروع ہوگیا۔ ان کو مزید معتبر بنانے کے لئے طالبان کو قطر میں دفتر بھی فراہم کردیا گیا۔ قطر کی کاوشوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی پاکستان کو افغان جنگ کے حوالے سے "دوعملی" دکھانے کے الزامات برسرِعام لگانا شروع کردئے۔ پاکستان ان دنوں ویسے بھی سیاسی بحران کا سامنا کررہا تھا۔ نواز شریف اس کی وجہ سے سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل ہوئے۔ ان کی جگہ آئے شاہد خاقان عباسی کو ٹرمپ تک رسائی کا مناسب موقعہ ہی نہ ملا۔

بالآخر 2018ء میں انتخاب ہوئے تو ان کے نتائج عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر بٹھانے کا سبب ہوئے۔ اقتدار میں آنے سے قبل وہ "طالبان دوست" شمار ہوتے تھے۔ ان کی اس پہچان کا کائیاں ٹرمپ نے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ زلمے خلیل زاد کو افغان امور کے بارے میں اپنا مشیر تعینات کردیا۔ زلمے نے پاکستان، قطراور افغانستان کے چکر لگانا شروع کردئے۔ دریں اثناء ٹرمپ کا ایک اور قریبی کارندہ جو امریکی سینٹ کارکن بھی ہے متحرک ہوا۔ لنڈسے گراہم اس کا نام ہے۔ وہ پاکستان آیا وزیر اعظم عمران خان سے ملا اور ان کی امریکی صدر سے ملاقات کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

ٹرمپ کی خواہش تھی کہ پاکستان طالبان کو دوحہ میں امن مذاکرات کی میز پر بٹھانے کو مجبور کرے۔ اس کے عوض کیمروں کے روبرو ٹرمپ نے یہ وعدہ کیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ثالثی کا کردار ادا کرے گا۔ ہمارے بھولے بادشاہ اس کی چرب زبانی کا شکار ہوئے۔ طالبان کو دوحہ بھجوانے کے باوجود مسئلہ کشمیر پر ثالثی مگر نہ ہوئی۔ بھارتی وزیر اعظم مودی نے بلکہ آئین کے آرٹیکل 370کو ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت چھین کر اسے دوٹکڑوں میں بانٹ کر بھارت کا "اٹوٹ انگ" بنالیا۔

طالبان کو مذاکرات کی میز پر دھکیلنے کے باوجود کشمیر کے بارے میں ٹرمپ کی اپنائی بے اعتنائی کے ہوتے ہوئے بھی عاشقانِ عمران اس گماں میں مبتلا رہے کہ اقتدار میں لوٹ کر وہ اپنے "یار" عمران خان کی رہائی چاہے گا۔ میں اس کالم میں خبردارکرتا رہا کہ ٹرمپ ایک طوطا چشم شخص ہے۔ اس سے توقعات نہ باندھی جائیں۔ ٹرمپ کو وائٹ ہا?س لوٹے تین ماہ ہونے والے ہیں۔ عمران خان کی رہائی کے بارے میں وہ ایک بار بھی متفکر دکھائی نہیں دیا۔ زلمے خلیل زاد البتہ گزری جمعرات کے دن منظر عام پر آیا۔ کابل نے طویل مذاکرات کے بعد اپنی قید میں موجود ایک امریکی جارج گلیمن کو رہا کردیا۔ اس رہائی میں کلیدی کردار قطری حکومت کے علاوہ آدم بوہلرنے ادا کیا۔

Boehler Adam کو ٹرمپ نے مغوی بنائے افراد کی رہائی کے لئے کاوشیں کرنے کے لئے اپنا خصوصی سفیر نامزد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آدم مگر یہ عہدہ لینے سے ہچکچارہا ہے کیونکہ حال ہی میں غزہ میں سیز فائر کے لئے اس نے اسرائیل کے مغویوں کو حماس کے ہاتھوں رہائی میں جو کردار ادا کیا اسرائیل حکومت اس سے خفا ہے۔ اسرائیل کی ناراضی کے باوجود ٹرمپ مگر مصر ہے کہ آدم مغویوں کی رہائی میں اپنا کردار ادا کرے۔ اگر وہ امریکی سینٹ کی منظوری کے لئے متعلقہ کمیٹی کے روبرو پیش ہونا نہیں چاہتا تو اسے امریکی حکومت کے "خصوصی ملازم" کے طورپر بھی مغویوں کی رہائی کا فریضہ سونپا جاسکتا ہے۔

بہرحال گزری جمعرات کے روز جب امریکی قیدی رہا ہورہا تھا تو کابل جانے والے وفد میں زلمے خلیل زاد بھی موجود تھا۔ زلمے کی اس وفد میں موجودگی نے عاشقان عمران کے دلوں میں امید کے پھولوں کو زندہ کردیا ہے۔ زلمے خلیل زادبھی کمال ہوشیاری سے "عمران خان کو رہا کرو" والے ٹویٹس لکھتے ہوئے ان کی امید جگائے رکھتا ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ یہ "میر جعفر" بالآخربانی کی رہائی میں کام آئے گا یا نہیں۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Sar Qalam Karne Ko Talwar Liye Phirte Hain

By Hamza Bhatti