Roohaniyat Baraye Farokht
روحانیت برائے فروخت

کبھی روحانیت روح کی گہرائیوں میں اترنے اور خود کو پہچاننے کا ذریعہ تھی۔ ایک ایسا سفر جو نفس کی پاکیزگی اور خدا کی قربت کے لیے کیا جاتا تھا۔ لیکن آج کے دور میں روحانیت ایک منڈی میں تبدیل ہو چکی ہے، جہاں ذہنی سکون، دھیان، تصوف اور مذہب بھی ایک پروڈکٹ کی طرح بیچے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ روحانی ترقی کی علامت ہے یا ایک اور تجارتی دھوکہ؟
کیا روحانیت واقعی ایک روحانی تجربہ ہے یا یہ اب ایک نیا کاروبار بن چکا ہے؟ آج ہر طرف پیر، موٹیویشنل اسپیکرز، سیلف ہیلپ کوچز اور روحانی رہنما نظر آتے ہیں، جو مہنگے کورسز، ورکشاپس اور کتابیں بیچ رہے ہیں۔ ان کے سیشنز میں لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ وہ ذہنی سکون حاصل کر سکتے ہیں، مگر اس کے لیے بھاری فیس ادا کرنا ہوگی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن مسائل سے نجات دلانے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، وہی مسائل پیدا بھی انہی لوگوں کے طریقوں سے ہو رہے ہیں۔
پاکستان اور ہندوستان میں صوفی ازم کی ایک طویل اور گہری تاریخ ہے، مگر اب صوفی تعلیمات بھی ایک کاروباری ماڈل کا حصہ بن چکی ہیں۔ ہر سال صوفی میوزک فیسٹیولز منعقد کیے جاتے ہیں، جہاں روحانیت کو گانے، ڈھول اور اسٹیج پرفارمنس تک محدود کر دیا گیا ہے۔ اصل تصوف، جو سادگی، محبت اور قربانی کا پیغام دیتا تھا، اب ایک نئی فیشن انڈسٹری بن چکا ہے۔
یوگا اور مراقبہ جو کبھی سکون حاصل کرنے اور خود کی تلاش کا ایک ذریعہ تھا، اب مغربی دنیا میں ایک اربوں ڈالر کی انڈسٹری بن چکا ہے۔ ہر جگہ مائینڈفل نیس (Mindfulness) کے نام پر مہنگے سیشنز کرائے جا رہے ہیں، جہاں لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ سکون حاصل کرنا ہے تو مہنگے یوگا اسٹوڈیوز کو جوائن کریں، خصوصی کوچنگ لیں اور برانڈڈ یوگا میٹ خریدیں۔ جس چیز کا تعلق انسان کے اندرونی سفر سے تھا، اسے بھی ظاہری چمک دمک کا محتاج بنا دیا گیا ہے۔
یہی حال مذہب اور دعا کا بھی ہو چکا ہے۔ آج مختلف آن لائن پلیٹ فارمز پر استخارے کے مہنگے پیکجز دستیاب ہیں، برکت کے تعویذ اور مخصوص دعائیں فیس کے ساتھ بیچی جا رہی ہیں۔ یہاں تک کہ زیارت کے دورے بھی ایک لگژری انڈسٹری بن چکے ہیں، جہاں خاص ہوٹل، وی آئی پی سروس اور پریمیم زیارات کے نام پر لوگوں کی روحانی وابستگی کو کمائی کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔
روحانیت کا اصل مقصد انسان کو دنیاوی الجھنوں سے نکال کر ایک پاکیزہ زندگی گزارنے کی ترغیب دینا تھا، مگر آج یہ بھی کاروباری دنیا کے اصولوں کے مطابق ڈھل چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم واقعی سکون حاصل کر رہے ہیں یا ایک نئی مارکیٹ کے چکر میں پھنس چکے ہیں؟ کیا ہم اندرونی تبدیلی چاہتے ہیں یا بس مہنگے کورسز اور ورکشاپس میں شرکت کرکے روحانی ہونے کا احساس لینا چاہتے ہیں؟
اصل روحانیت کتابوں، سیشنز یا مہنگے ٹرینرز سے نہیں آتی، بلکہ یہ انسان کے اپنے دل، نیت اور اعمال میں ہوتی ہے۔ اگر ہم نے اس حقیقت کو نہ سمجھا تو شاید روحانیت بھی صرف ایک اور تجارتی شعبہ بن کر رہ جائے گی اور ہم سچائی کی تلاش میں ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ کا حصہ بنے رہیں گے۔
حقیقی روحانیت اللہ سے قربت، نفس کی پاکیزگی، دنیاوی خواہشات سے بے نیازی، محبت و احسان، ذکر و فکر، خود شناسی اور مرشد کی رہنمائی پر مبنی ایک باطنی سفر ہے، جو انسان کو سکون اور حقیقی کامیابی کی طرف لے جاتا ہے۔ روحانیت دنیا کی چکاچوند سے بے نیاز کرتی ہے۔ روحانیت دکھاوے اور ملمع کاری سے پاک ہوتی ہے۔ اس سفر کے راہی مخلوق کے لیے محبت رکھتے ہیں۔ کسی کا دل نہیں دکھاتے، کسی کی حق تلفی نہیں کرتے۔ نہ دین کو کاروبار بناتے ہیں۔ آج کی روحانیت کاروبار ہے۔ صوفیا کرام کی اصل تعلیمات سے بہت دور۔ ہمیں روحانیت کے کاروبار کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور حقیقی روحانیت کی طرف پلٹنے کی ضرورت ہے۔ جو ہمیں صرف اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر حاصل ہوگی۔