ترکیہ سیاسی تبدیلی کے دہانے پر

19مارچ کوصبح کے وقت پولیس نے میئر استنبول اکرم امام اولو کواُن کے گھر سے گرفتار کر لیااُن پر الزام ہے کہ وہ نہ صرف مسلح دہشت گردتنظیم کی مددکرتے ہیں بلکہ ایک ایسی تنظیم کی تشکیل میں ملوث ہیں جس کی سرگرمیاں مجرمانہ ہیں علاوہ ازیں ٹھیکے تقسیم کرتے ہوئے شفافیت کاخیال نہیں رکھتے اور پھر اِس نوازش کے عوض بدعنوانی کرتے ہیں اِس گرفتاری نے ملک کے سیاسی استحکام کوناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے وہی ترکہ جہاں طویل عرصے سے سیاسی استحکام تھا اور کبھی کبھارہی ایک آدھ مظاہرے کی خبر سننے کوملتی تھی اب انتشار وافراتفری کا شکار ہو چکا ہے احتجاجی مظاہرے صرف استنبول تک محدودنہیں بلکہ دیگر بڑے شہروں انقرہ، ازمیر سمیت ملک بھر میں جاری ہے اپوزیشن ری پبلکن پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ پانچ لاکھ سے ایک ملین افراد نے ناجائز گرفتاری کے خلاف استنبول میں احتجاج کیا ہے جسے اگر درست تسلیم کر لیا جائے تو 2000سے لیکر تادم تحریر یہ پہلا موقع ہے کہ اِس جماعت کے حامیوں کی اتنی بڑی تعداد گھروں سے نکلی ہے یہ اِشارہ ہے کہ ترکیہ سیاسی تبدیلی کے دہانے پر ہے اور دوعشروں بعد ملک میں پہلی بارحکمران جماعت کے خلاف فضاسازگارہوئی ہے جو صدارتی انتخاب میں موجودہ صدر طیب اردوان کے کسی حریف کی کامیابی کوممکن بنا سکتی ہے۔
بڑھتے افراطِ زاور مہنگائی نے عوام کو صدر اردوان کے کسی ایسے متبادل بارے سوچنے پر مجبور کردیاہے جو صرف تقاریر سے نہ بہلائے ناکافی اور مہنگی رہائشی سنگین مسلہ ہیں چارلیرے میں دستیاب ڈالراب چھتیس لیرے کاہوگیاہے ترک کرنسی کی یہ گرواٹ عوام شدت سے محسوس کرتی ہے لیکن حکومت کی توجہ زیادہ سے زیادہ محصولات اکٹھے کرنے پرہے یہ بے نیازی ہے یا لاعلمی، جوبھی ہے عوام کو ناپسندہے اٹھارہ مارچ کی شب ترکیہ کے زرائع ابلاغ سے ایسی خبریں اور تجزیے سامنے آئے کہ میئر استنبول کی ڈگری 32برس بعد کالعدم قراردے دی گئی ہے ترکیہ آئین کے مطابق صدارتی انتخاب میں وہی حصہ لینے کا اہل ہے جو یونیورسٹی گریجویٹ ہو اس بناپر واقفانِ حال ڈگری منسوخی کے فیصلے کوسیاسی قراردیتے ہیں جس نے ترکیہ کے سیاسی استحکام کو نگل لیا ہے اِس فیصلے سے بظاہراردوان کا حریف صدارتی امیدوار انتخابی میدان سے باہر ہوجائے گا لیکن سیاسی عدمِ استحکام سے ملکی معیشت و اقتصادیات کامتاثر ہونا بھی یقینی ہے۔
ترکیہ حزبِ مخالف ری پبلکن پیپلز پارٹی نے رواں ماہ 23مارچ کو جماعت کاصدارتی امیدوار نامزد کرنے کے لیے ابتدائی انتخاب کرانے کا اعلان کیا توعوام میں خاصا جوش و ولولہ دیکھنے میں آیا ابتدائی مقابلے میں میئر انقرہ منصور یاواش اور میئر استنبول اکرام امام اولونے حصہ لینے کا اعلان کیا عام قیاس تھا کہ ابتدائی مقابلہ میئر استنبول باآسانی جیت لیں گے لیکن ڈگری منسوخ کی چال نے صورتحال ہی بدل دی ہے مگراِس چال نے اپوزیشن میں نامزدگی کے حوالے سے جاری رسہ کشی ختم کردی ہے حیران کُن حد تک یکجہتی اور اتحاد نظر آنے لگا ہے نہ صرف میئر انقرہ منصور یاواش بطور امیدوار میئر استنبول کے حق میں دستبردار ہو گئے ہیں بلکہ پندرہ ملین سے زائد ووٹرزنے حالات کو خاطر میں لائے بغیر اکرم امام اولو کے حق میں ووٹ دیا ہے جس سے حکومت پر قبل ازوقت صدارتی انتخاب کرانے کا دباؤ بڑھے گا اسی لیے اکثر تجزیہ کار متفق ہیں کہ حکومتی چال سے اپوزیشن کی بجائے حکومت کا نقصان ہواہے وزارتِ داخلہ نے سزا کے تناظر میں میئر استنبول کو عہدے سے معطل کر دیا ہے ڈگری کے کے ساتھ میئر واپس منصب پر بحال ہوتے ہیں یا نہیں اِس حوالے سے تو یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتاالبتہ اتنا وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ حکومت ایسی سیاسی دلدل میں پھنس چکی ہے جس سے نکلنا آسان نہیں۔
اکرم امام اولو کو صدراردوان کا تگڑاسیاسی حریف خیال کیا جاتا ہے جواب مختلف الزامات میں گرفتار ہیں عائد الزامات میں دہشت گردی جیسا الزام توعدالت نے ختم کر دیا ہے مگر بدعنوانی، خردبرداور سرکاری رقوم کے استعمال میں عدم شفافیت جیسے الزامات کی تحقیقات ہونا ہیں یہ امر قابلِ زکرہے کہ ایسے الزامات اکرم امام اولو کی اپنی جماعت ری پبلکن پارٹی کے اندرسے بھی چند ما ہ قبل سامنے آئے گزشتہ صدارتی ٹاکرے میں اردوان کامقابلہ کرنے والے کمال کلیچی داراولوبھی جماعت کے اندرونی انتخابات میں رقوم کی تقسیم کا اعتراف کرتے ہیں مختصراََ تمام تر مقبولیت کے باوجود اکرم امام اولو 2028 کی صدارتی انتخابی دوڑ میں توشایدشریک نہ ہو سکیں مگر سچ یہ ہے کہ ڈگری کا خاتمہ خلافِ ضابطہ نہیں کیونکہ اکثر طلبا تنظیموں کا گزشتہ کئی برس سے مطالبہ ہے کہ کم اہلیت کے ساتھ غیر ملکی یونیورسٹیوں میں داخلہ لیکر ترک شہریوں کا ملکی یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے کا چور راستے بند کیا جائے اور اِس کی جانچ پٹرتال بھی کی جائے استنبول یونیورسٹی نے مطالبے کے تناظرمیں جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ اٹھائیس کے قریب ایسے افراد کی شناخت ہوئی جو داخلہ امتحان میں ناکام ہوئے اور شمالی قبرص کی ایک کم درجے کی یونیورسٹی میں داخلہ لیکر اپنی ناکامی کو مائیگریشن کے زریعے کامیابی میں تبدیل کرلیا جن میں ایک نام اکرم امام اولو کا بھی تھا جو 1992میں براستہ قبرص یونیورسٹی گریجویشن کی ڈگری لینے میں کامیاب ہوئے تحقیق کے بعد سامنے آنے والے تمام اٹھائیس افراد کی ڈگریوں کوختم کر دیا گیا۔
ترکیہ آئین کے مطابق اردوان تیسری مرتبہ صدارتی انتخاب کی دوڑ میں شامل نہیں ہوسکتے جبکہ چھ سواراکین پر مشتمل پارلیمنٹ میں آئینی تبدیلی کے لیے چارسواراکین کی حمایت ضروری ہے جس سے حکمران اتحادمحروم ہے موجودہ صدرکو اپنے جانشین بارے فیصلہ کرنا ہے اِس حوالے سے غیر ضروری تاخیر اُن کے ساتھ اُن کی جماعت کے لیے نقصان کا موجب بن سکتی ہے ملک میں یہ سوچ پختہ ہو رہی ہے کہ صدر نے ملک کی جتنی خدمت کرنی تھی کرلی اب اُن کے پاس کوئی مزید تخلیقی صلاحیت نہیں رہی اکرم امام اولو کے لیے لوگوں کی ہمدردی کی وجہ ایسی ہی سوچ ہے ہمدردی کا نتیجہ ہے کہ اپوزیشن رہنما اوزگوراوزال کی اپیل پر پورے ترکیہ میں روازنہ اکرم امام اولو کو بطور صدارتی امیدوار بحال کرانے کے لیے لوگوں کاجمِ غفیر جمع ہوتا ہے اکرم امام اولو کی جماعت ترکی کے بانی مصطفی کمال نے بنائی تھی جو 2002سے مسلسل اقتدار سے باہر ہے مگر گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں حکمران جماعت کوبُری طرح پچھاڑ کر سیاسی مبصرین کو حیران کردیا اب اکرم امام اولوکی بحالی اُردوان کے سیاسی مستقبل کو تاریک کرسکتی ہے اگر حکومت بزورایسا نہیں ہونے دیتی تو ترکیہ کا جمہوری معاشرہ پُرتشدد روش اختیارکر سکتا ہے۔