Pulao Aur Biryani Ki Jharap, Aap Kis Taraf Hain?
پلاؤ اور بریانی کی جھڑپ، آپ کس طرف ہیں؟

ایک زمانہ تھا جب ہر طرف پلاؤ کا زور زورا تھا لیکن اب بریانی کا دور دورہ ہے۔ پلاؤ شاہی طعام تھا۔ بڑے ناز نخرے تھے۔ بھیڑ، بکرے یا گائے کی یخنی بنتی پھر چاول اور ہلکے مصالحوں کے ساتھ شاہی دستر خوان کی زینت بنتا۔ ہر ادا شاہانہ تھی۔ بادشاہوں، راجوں، مہاراجوں کی آنکھ کا تارا اور منہ و من بھاتا نوالہ تھا۔ لیکن پھر دنیا بدلی اور بریانی نے اس کو لپیٹ کر رکھ دیا۔
ایک مرتبہ ایک تقریب میں دونوں کو میز پر ساتھ ساتھ رکھے دیا۔ پلاؤ کو اپنی ہتک محسوس ہوئی اور بریانی سے تو تو میں میں ہوگئی۔ بریانی ایک منہ چڑھی اس سے کہاں برداشت، بول پڑی: اے میاں اپنی اوقات میں رہو۔
پلاؤ: (جلال سے) حد ادب تو ایک کنیز ڈشنی ہے اور ہم شاہی مطبخ خانوں کے ناز و اندام میں تیار پکوان۔ بادشاہ ہمارے منتظر دید ہوتے۔ لذت و قوت کی نوید ہوتے۔ دستر خوان ہماری مہک سے چہک اٹھتے۔ بڑے بڑے دو زانو بیٹھے ہمیں پانے کے لیے بازو بہ بازو ہو جاتے۔ جو جتنا صاحب ہضم ہوتا۔ اتنا ہی ہمیں روانہ بہ شکم کرتا۔
بریانی: (پلاؤ کی بات ہوا میں اڑاتے ہوئے) میاں یہ حد ادب تم اپنے پاس رکھو۔ اب گھروں میں تمہیں کوئی پوچھتا نہیں۔ کبھی کبھی کسی تقریب غریب سمجھ کر بلا لیے جاتے ہو۔
پلاؤ: تیری یہ جرات کہ ہم سے اس طرح ہم کلام ہو۔ بھول گئی اپنی اوقات؟ تجھے تو پہلی بار بادشاہ شاہ جہان نے ملکہ ممتاز محل کے لیے بغیر یخنی کے تیز مصالحوں کے ساتھ ایک بازاری باورچی سے بنوایا تھا تاکہ ممتاز محل کو مرچیں لگیں۔ ہر وقت دماغ جو کھاتی رہتی تھی تو تجھے کھلا دیا۔ وہ تو ہم تھے جو میر دسترخوان ہوتے۔ ہر ایک لبوں کی جان ہوتے۔ میر مطبخ آمد اعلان کرتا تو نوید مسرت و صحت بن جاتے۔ توانائی کا منبع تھے۔
بریانی: میاں ہوش کے چاول لو۔ یہ منبع کے تنبو اور قناتیں تو کب کی اکھڑ چکی ہیں اور یہ کم بخت مطبخ مطبخ کی رٹ کیا لگا رکھی ہے۔ اس کے تو خود چودہ طبق روشن ہو چکے ہیں۔ اب کچن کا زمانہ ہے۔ جہاں کی میں ہوں مہارانی۔
پلاؤ: زمانے کی بات نہ کر۔ تو جس طرح عریاں بوٹیوں اور رنگ برنگے چاولوں اور نہ جانے جانے کیا کیا اوپر رکھوا کر آتی ہے۔ آج کل کی کسی فلم کی ٹھمکتی مٹکتی ہیروئن لگتی ہے۔ تو بریانی کم اور عریانی زیادہ لگتی ہے۔
بریانی اور تم نابینا حافظ لگتے ہو۔ ڈھیر سارے چاول اور اس پر بوٹیاں وہ وہ بھی چاولوں کی اوٹ میں۔
پلاؤ: (مسکراتے ہوئے) یہی تو ہمارا رومانس ہے۔ بوٹیاں ایسے چاولوں کی اوٹ سے آدھ چہرہ دیدار کراتی ہیں کہ دیکھنے والا بے قرار ہو جائے۔ اس کی چشم بینا اور پھڑپھڑانے لب کہیں کہ ملن ہوگا کب؟ ہم شاہی دربار کے طعام اعظم ہیں۔
بریانی: جیسے فلموں میں مغل اعظم ہے۔ اس کے پرنٹ تک گل سڑ گئے۔ یہ زمانہ ہے دل والے دلہنیا لے جائیں گا کا۔
پلاؤ: سب جانتا ہوں دل والے بوٹیاں اٹھا کر لے جائیں گے۔ کتنے پارسل بنتے ہیں تیرے۔۔ سب جانتا ہوں تو کہاں کہاں، کیسے کیسے جاتی ہے؟ اور اس ہر ہم سے زبان درازی ہے؟ تیرے دیدوں کا پانی مر گیا ہے۔
بریانی: زبان درازی نہ کروں تو کیا کروں؟ تمہیں کوئی زبان پر تو رکھتا نہیں۔ میرے دیدوں کا پانی کیوں مرے؟ تمہاری آنکھوں میں چاولوں کی سفیدی نے موتیا اتر دیا ہے۔
پلاؤ: میں ایک بازاری بدتیمز کنیز کے منہ نہیں لگنا چاھتا۔ لگتا ہے مطبخ خانے سے نہیں بیوٹی پارلر سے پک کر آتی ہے تو ہماری برادری کی عزت گیس کے چولھوں میں جھونک دی ہے۔
بریانی: اوہو۔۔ تمیزدار کو تو دیکھو۔ ٹکے کا سیر کوئی پوچھتا نہیں۔ بیوٹی پارلر سے سج کر نہیں آتی۔ اب پکنے پکانے اور کھانے کھلانے کے انداز بدل گئے ہیں۔ تیرا کیا ہے۔ سفید چاول اور اس ہر مثن بیف کی بوٹیاں دہر کر ا جاتا ہے۔ گنوار کہیں کا۔ نئے زمانے کے طور طریقے تو کیا جانے۔
پلاؤ: ہم سے یہ طرز تخاطب؟ بلاؤں شاہی چوں دار کو، دھکے دے کے نکلوا دوں گا۔
بریانی: کس دنیا میں رہتے ہو؟ وہ دن گئے جب تالیاں بجا کر چوبدار آتے تھے۔ یہ ویٹر ہیں تمہاری اوقات اچھی طرح جانتے ہیں۔ پتا نہیں تم آج یہاں کیسے آ گئے۔ سب تجھے دیکھ کر سڑے سڑے منہ بناتے ہیں۔ Outdated dish کہیں کا! اب سب تجھے چمچے سے نہیں بلکہ غصے سے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہیں۔
پلاؤ: ہمارے چاھنے والے آج بھی بہت سے نسلی لوگ موجود ہیں۔ تجھ پر ہاتھ مارنے اور چھینا جھپٹی کرنے والے بازاری لوگ ہیں۔
بریانی: تم ناں ابھی دنیا کو سمجھے نہیں ہو۔ سروں پر تاج رکھنے والے اب محتاج اور کمروں میں تلوار باندھنے والے رفو چکر ہو چکے ہیں۔
پلاؤ: تیرا دماغ ان ہی لوگوں نے خراب کیا ہے۔ ہر نکڑ، ٹھیلے پر جو مل جاتی۔ پتا نہیں کن کن ہاتھوں سے پکتی ہے۔ گندی پلٹیں۔ جو چاھے ٹکے ٹکے میں خرید لے۔
بریانی: ہاں تم تو جیسے اشرفیوں میں تلتے ہو۔ اشرف بھائی تک تجھے دیکھ کر کھڑے جلتے ہیں۔۔ کون منہ لگاتا ہے۔ تیری یخنی کی ساری اکڑ تو میرے تیز مصالحوں اور رنگ بھرے چاولوں نے نکال دی ہے۔ مٹن، بیف اور چکن جس میں پکتی ہوں۔ ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہوں۔
پلاؤ: اور تو جو شکموں میں آگ لگاتی ہے۔ میرے کھانے میں ایک سلیقہ ہے۔ توانائی ہے۔ خاندانی لوگ آج بھی میرا دم بھرتے ہیں۔ تیری طرح ھپ ھپ کرکے کھانا ان کا شیوہ نہیں۔
بریانی: شیوہ چھوڑ اب تیری سیوا کوئی بھی نہیں کرتا۔ ابھی دیکھنا کھانا کھلے گا اور سب میری طرف لپکیں گے تیرے چمچے سے بھی مجھے ہی نکال رہے ہوں گے۔
پلاؤ: تو اصل میں بازاری ہے۔ میں ہوں نسلی سمجھی۔ میرے چاھنے والے کم ہیں مگر میرے علاؤہ کسی کو ہاتھ نہیں لگاتے۔
بریانی: سب نے تجھ سے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ تیرے چاھنے والے دو چار ہی رہ گیے ہیں۔ زیادہ تر قبروں میں جا رہے ہیں اور سن! ان کے مرنے پر بھی میں ہی کھلائی جاتی ہوں۔ اصل میں ان کا مرنا تیرے جانے کا فاتحہ بھی ہوتا ہے۔ عقل تجھ میں ہے نہیں۔ دنیا داری تجھے آتی نہیں۔ جب سے آیا ہے ویسے کا ویسا ہی ہے۔ مجھے دیکھ جیسا دیس ویسا مزا۔ کہیں حیدرآبادی۔ کہیں سندھی تو کہیں کراچی بریانی۔ جو چاھے اپنا نام میرے نام کے ساتھ ملا کر نیا ذائقہ بنا لیتا ہے۔ کبھی کھتری بریانی کھائی ہے؟ پریمیئم یو یا دربار، نصیب ہو یا اسٹوڈنٹس سب میرے نام سے جڑے ہیں۔ دنیا کے چلن سیکھ لے ورنہ کتابوں میں رہ جائے گا۔
پلاؤ: کتابوں میں عزت کے ساتھ رہ جانا بہتر ہے مگر تیری طرح جس کے ہاتھ لگوں ویسا ہو جانا مجھے منظور نہیں۔