Afsar Shahi Aur Mutasreen Dam Ka Dharna
افسر شاہی اور متاثرین ڈیم کا دھرنا

دیامر بھاشہ ڈیم کے متاثرین کا دھرنا اس قدر شددت سے جاری کہ ہے جس کی گونج پورے ملک میں سنائی دے رہی ہے۔ یہ دھرنا نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورے پاکستان کے ان حساس مسائل کی عکاسی کرتا ہے جو افسروں کی غیر ذمہ داری، حکومتوں کی سرد مہری اور عوام کے بنیادی حقوق کے معاندانہ رویوں کے سبب جنم لیتے ہیں۔ ان مظلوم عوام کی آوازیں وہ درد بھری کہانیاں ہیں جو حکومتی اداروں کی ناکامیوں کی ایک واضح تصویر پیش کرتی ہیں۔
گزشتہ چالیس دنوں سے متاثرین دیامر بھاشہ ڈیم اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر ہیں اور ایک تیس نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ حکومت کے سامنے رکھ چکے ہیں۔ ان میں سب سے اہم مطالبہ چولھا پیکیج کی ادائیگی ہے، جسے جنرل پرویز مشرف کے دور میں منظور کیا گیا تھا، لیکن بدقسمتی سے اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ اس کے ساتھ ساتھ اٹھارہ ہزار ایکڑ اراضی جو دیامر کے عوام کی ملکیت تھی، صوبائی حکومت اور واپڈا کی ملی بھگت سے خالصہ سرکار قرار دی گئی اور عوام کو اس سے محروم کر دیا گیا۔ یہ صرف چند مسائل ہیں جن کا فوری حل ضروری ہے۔ مگر وفاقی حکومت اور مقتدرہ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ ان مسائل کا آغاز کہاں سے ہوا اور ان کا حل کہاں چھپا ہوا ہے۔
پاکستان میں ایک عمومی رجحان یہ ہے کہ مسائل کے جڑ تک پہنچنے کے بجائے ان کا عارضی حل تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مسائل ہمیشہ موجود رہتے ہیں اور عوام دوبارہ سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ متاثرین دیامر بھاشہ ڈیم کا دھرنا بھی اسی کا آئینہ دار ہے۔ ان کی تکلیف اور مطالبات میں سب سے اہم مسئلہ چولھا پیکیج ہے، جسے تحریک حقوق دو ڈیم بناؤ کا بنیاد قرار دیا جا سکتا ہے۔
یہ مسئلہ کیسے کھڑا ہوا؟ اس کی داستان سیدھی سی ہے اور اس کا تعلق دیامر کے سابق ڈپٹی کمشنر امیر اعظم حمزہ سے ہے۔ جب وہ دیامر کے ڈی سی تھے، تو متاثرین کی شکایات پر واپڈا نے بار بار کہا کہ چولھا متاثرین کا فزیکل سروے کرایا جائے تاکہ بعد میں کوئی مسئلہ نہ پیدا ہو۔ مگر افسوس کہ امیر اعظم حمزہ کی ہٹ دھرمی نے ان کی نظر میں اس مسئلے کو بڑھا دیا۔ وہ اپنی ضد پر اڑے رہے اور جب چولھا متاثرین کی فہرست ایکنک کو ارسال کی گئی، تو حیرت انگیز طور پر اس میں صرف چار ہزار دو سو افراد کا ذکر تھا۔ جب کہ دیامر جیسے بڑے ضلع میں اتنے کم متاثرین ہونا ممکن نہ تھا، لیکن امیر اعظم نے اس فہرست کو مسترد ہونے کے باوجود اپنی ضد پر قائم رکھا۔
یہ سب کچھ اس بات کا غماز ہے کہ جب تک حکومتی افسران خود کو غلط تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، تب تک عوام کو ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی مسئلہ اب متاثرین کے لیے ایک گلے کا پھندا بن چکا ہے، جو آج مسنگ چولھا متاثرین کے نام پر سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔
لیکن یہ المیہ یہاں تک محدود نہیں ہے۔ وہی ڈپٹی کمشنر جو کبھی اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھا، آج بھی دیامر کے دھرنے کو ناکام بنانے کی سازشوں میں ملوث ہے۔ نام نہاد وی لاگرز کے ذریعے جھوٹے بیانیے گھڑوا کر وہ عوامی احتجاج کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کی تمام تر کوششوں کا مقصد اپنے پسندیدہ افسر شاہی کو بچانا ہے، تاکہ وہ اپنی غلطیوں کی قیمت عوام سے وصول کرتا رہے۔ ان کا یہ طرز عمل اس بات کا غماز ہے کہ ان کے لیے انصاف یا عوامی مفاد کی کوئی اہمیت نہیں۔
اس تمام صورتحال میں حکومت سے ہم یہ سوال پوچھتے ہیں کہ کیا وہ واقعی اس بات سے آگاہ ہیں کہ یہ مسائل کہاں سے آئے ہیں؟ کیا ان کا حل افسر شاہی کی غلطیوں اور ہٹ دھرمی میں پوشیدہ نہیں ہے؟ کیا ان افسران کا احتساب کیا جائے گا جن کی غلطیوں کی وجہ سے اتنے بڑے میگا منصوبے میں رکاوٹیں آئی ہیں؟ کیا حکومت ان لوگوں کو جواب دہ بنائے گی جن کے فیصلوں نے عوام کے بنیادی حقوق کو پامال کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ حکومت شاید اس پر سنجیدگی سے غور نہیں کرے گی اور وہ پرانے طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے احتجاجی دھرنوں کو عارضی طور پر ختم کروا لے گی، مگر مسائل کی اصل جڑ تک کبھی نہیں پہنچے گی۔
یہ تمام مسائل اس بات کا غماز ہیں کہ جب تک حکومتی ادارے اور افسر شاہی اپنے آپ کو اصلاحات کے لیے تیار نہیں کرتی، عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ظلم کی رات جتنی بھی طویل ہو، سورج کو طلوع ہونے سے روکا نہیں جا سکتا۔ لیکن اس کے لیے حکومت کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ انصاف اور ترقی تبھی ممکن ہے جب افسر شاہی کی کرپشن اور غلطیوں کا احتساب کیا جائے۔
یہ عوامی مطالبہ صرف دیامر کے متاثرین کا نہیں، بلکہ پورے پاکستان کے عوام کا ہے جو اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ان کے حقوق کا تحفظ اور ان کی آوازوں کو سنا جانا انتہائی ضروری ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ حکومتی ادارے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور جلد ہی اس کا حل نکالیں تاکہ عوام کو انصاف مل سکے اور ملک میں امن و ترقی کی راہ ہموار ہو۔