اجنبی شہر کا دکھ

اسلام آباد بڑی تیزی سے اپنا رنگ بدل رہا ہے۔ اب ہر قسمی بندہ آپ کو یہاں ملتا ہے۔ اب یہ وہ شہر نہیں رہا جو کبھی رات آٹھ بجے سو جاتا تھا۔ آج کل اس خوبصورت موسم میں، میں کوشش کرتا ہوں گاڑی گھر کھڑی کروں اور پیدل چلا کروں۔ کچھ دنوں بعد گرمی آجائے گی پھر یوں شاید پیدل نہیں چلا جائے گا۔ کچھ عرصہ سے جم جانے کی بجائے اب پیدل اسلام آباد کی سڑکوں پر چلتا رہتا ہوں۔ موسم انتہائی شاندار ہے۔ یہاں اس شہر میں ابھی فٹ پاتھ موجود ہیں جہاں پر آپ میلوں چل سکتے ہیں۔
شہر میں پیدل چلنے کا رومانس مجھے 2014 میں ہوا تھا جب امریکہ میں کچھ عرصہ قیام کے دوران House Of Cards کے سب سیزن دیکھے اور اس سیزن سے دیگر باتوں کے علاوہ ایک بات یہ بھی سیکھی کہ ہر سیاستدان سارا دن تھک ہار کر جب واشگٹن اپنے گھر پہنچتا تو وہ جوگر پہن کر باہر سڑک یا فٹ پاتھ پر جوگنگ کرنے نکل جاتا جس کا مقصد سارا دن کا سٹریس اور پریشانی یا دبائو کو دور کرنا تھا۔ میں ریگولر تو نہیں لیکن اب بھی یہ کام کبھی کبھار کرتا ہوں۔
کل رات میں 13000 قدم چلا۔ آج رات تقریباََ گیارہ ہزار چلا ہوں۔ کچھ دن پہلے قبلہ جنید ایف 8 مرکز میں ایک چھوٹی مارکیٹ میں کیفے پر بیٹھے تھے کہ میسج آیا کہ آئیں کافی پلائیں۔ شام کا وقت تھا۔ میں نے کہا آتا ہوں لیکن پید ل آئوں گا۔ بارش کے بعد موسم شاندار تھا۔ اپنے دفتر ڈی چوک کے قریب سے نکلا اور بلیو ایریا، سینورس سے ہوتا ڈیڑھ گھنٹے بعد وہاں تک پیدل پہنچا۔ قبلہ حیران بیٹھے انتظار کررہے تھے۔
انتظار سے یاد آیا کہ راستے میں کئی دلچسپ کہانیاں اور لوگ میرے منتظر ہوتے ہیں۔
آج رات ہی دیکھ لیں۔ ایک نوجوان اپنے ساتھ ایک کالے برقعے میں ملبوس نوجوان خاتون اور ایک چار پانچ سال کی پیاری بچی کے ساتھ بلیو ایریا میں پیدل چلا جا رہا تھا۔ کچھ سامان بھی اٹھایا ہوا تھا۔ وہ اب جناح ایونیو پر کلثوم پلازے انڈر پاس سے تہذیب بیکری والی سائیڈ پر آگے مین روڈ پر ہر آتی جاتی گاڑی کو ہاتھ دے کر روکنے کی کوشش کررہا تھا۔
مجھے لگا وہ شہر میں اجنبی ہیں۔
میں ان کے قریب گیا اور پوچھا آپ نے کہاں جانا ہے۔ اس نے کہا وہ ٹیکسی روک رہا تھا۔ میں نے کہا یہاں کوئی ٹیکسی نہیں گزرتی نہ گاڑی رکے گی۔ اس نوجوان کو شاید میری بات سمجھ نہ آئی۔ اس کے ساتھ وہ نوجوان لڑکی بولی بھائی پھر کہاں سے ملے گی۔ مجھے لہجے سے لگا وہ پشتون ہیں۔
میں نے کہا تھوڑا آگے تہذیب بیکری کی طرف جائیں وہاں ٹیکسی مل جائے گی۔ نوجوان بولا کتنی دور ہے۔ میں نے شاید پانچ منٹ پیدل۔ وہ تھکا ہوا لگ رہا تھا۔ بولا نہیں نہیں یہیں سے مل جائے گی۔ میں نے کہا بیٹا یہ مین سڑک ہے یہاں سب گاڑیاں تیزی سے گزر رہی ہیں۔ آپ تھوڑا آگے جائیں۔ وہ نہ مانا۔
مجھے لگا شاید وہ کہیں سے چلتے آرہے تھے۔ بچی بھی تھک چکی ہوگی۔ میرے اپنے پاس گاڑی ہوتی تو یقیناََ انہیں ڈراپ دے دیتا اگرچہ وہ نوجوان کبھی مجھ پر بھروسہ نہ کرتا۔ وہ تو میرے کہنے پر چند قدم آگے جانے کو تیار نہ تھا۔ صاف لگ رہا تھا وہ اس شہر میں اجنبی تھا۔ میں نے آخری کوشش کی اور ناکام رہا اور پھر میں چل پڑا۔
میں جب خاصا آگے نکل آیا تھا تو مڑ کر دیکھا وہ ابھی تک روڈ پر کھڑا ہاتھ سے گاڑیاں روکنے کی کوشش کررہا تھا۔
اب جب میں ڈی چوک سے پیدل چل کر بلیو ایریا سینٹورس سامنے کافی بینز کیفے پر بیٹھا کافی پی رہا ہوں تو مجھے ایک احساس جرم نے گھیر لیا ہے۔ میں نے اپنے بیٹے مہد کو فون کیوں نہ کیا کہ یار اوبر /ٹیکسی بک کرکے اس لوکیشن پر بھیج دو۔ کتنی دیر لگنی تھی لیکن مجھے خیال ہی نہ آیا۔
اب رات گئے اس اجنبی شہر میں اس خاندان کو ٹیکسی ملی یا نہیں۔ پھر سوچا اگر میں یہ کر بھی دیتا تو شاید وہ نوجوان بچہ مزید شک کا شکار ہوتا کہ اس اجنبی کو اتنی دلچسپی کیوں تھی۔ اجنبی شہر میں اجنبیت بھی ایک الگ سے دکھ ہے۔
یہ سب کچھ سوچ کر مجھے لگا جیسے میری پسندیدہ کافی کا ذائقہ اچانک تلخ ہوگیا ہے۔