Thursday, 03 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Shalamar Montegio

Shalamar Montegio

شالامار مونٹیگیو

میری ماں پیرس اوپیرا تھیٹر کے ڈریسنگ روم میں تھی جب میں پیدا ہوئی۔ میں ان کی طرح آرٹسٹ بنی۔ کیبرے سنگر اور بیلے ڈانسر کے طور پر دنیا گھومی۔ جانوروں کو سدھانے کا کام بھی کیا۔

یہ الفاظ لیڈی شالامار مونٹیگیو کے ہیں جو انھوں نے اپنے ہاتھ سے تحریر کردہ آپ بیتی میں لکھے ہیں۔ افسوس کہ یہ آپ بیتی ابھی نہیں چھپی اور معلوم نہیں کبھی چھپ سکے گی یا نہیں۔ لیکن اس کے ساتھ انھوں نے جو تصویریں بنائیں، ان کی کئی بار نمائش ہوچکی ہے۔ چند تصویریں پیرس ریویو کے تازہ شمارے میں چھپی ہیں۔

پیرس ریویو نے ان کے بارے میں چند جملے لکھے ہیں۔ باقی تفصیل میں نے اپنی کھوجی طبعیت کی وجہ سے ادھر ادھر پڑھی۔ اس دلچسپی کی وجہ ان خاتون کا نام تھا۔ رومیو اینڈ جولیٹ کے ہیرو کا تعلق مونٹیگیو خاندان سے تھا۔

شالامار مونٹیگیو 1905 میں پیدا ہوئیں تو ان کا نام فرانسس مونٹیگیو رکھا گیا۔ 1986ء میں کونی آئی لینڈ، نیویارک کے ایک اولڈہوم میں کسی آرٹ مہم کے سلسلے میں بزرگوں سے تصویریں بنانے کو کہا گیا۔ وہاں شالامار مونٹیگیو "دریافت" ہوئیں۔ انھوں نے ان تصویروں میں اپنی زندگی کی جھلکیاں پیش کیں۔ ایک رقاصہ ہے جو بڑے شہروں میں فن کا مظاہرہ کررہی ہے۔ یہ تصویریں بال پین اور واٹرکلر سے بنائی گئیں۔ انھیں بہت پسند کیا گیا۔

اب سنیں دلچسپ بات۔ لیڈی مونٹیگیو ایک ایسی بیماری میں مبتلا تھیں جس کا شکار گھر سے باہر جانے سے ڈرتا ہے۔ جس وقت وہ دریافت ہوئیں، ان کی عمر اکہتر بہتر سال تھیں۔ غالباََ ان کی یادداشت بھی متاثر ہوچکی تھی۔ کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ واقعی پیرس اوپیرا تھیٹر میں پیدا ہوئیں یا دنیا گھومیں اور جو کچھ انھوں نے لکھا، وہ حقیقت ہے۔ لیکن جب ان سے گفتگو کی جاتی تو وہ سب کہانیاں ایسے بیان کرتیں جیسے سب سچ ہے۔ ان کا انتقال 1996 میں ہوا۔

پیرس ریویو کے تازہ شمارے میں لیڈی مونٹیگیو کی بنائی ہوئی تصویروں کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ اسے ویک اینڈ پر پڑھنے کا ارادہ ہے لیکن ناصر رباح کی نظم انتھت الحرب یعنی جنگ ختم ہوگئی کا انگریزی ترجمہ فوراََ پڑھ لیا۔ یہ تین صفحات کی نظم ہے لیکن اس کا تاثر شروع سے آخر تک برقرار رہتا ہے۔

جنگ ختم ہوئی

میں نے روٹیاں لیں، بہت سی روٹیاں

ہر دوست کے لیے الگ الگ

اور روانہ ہوا

قبرستان کی جانب

اس شمارے میں ایک نام دیکھ کر میں چونکا۔ میری این ڈیائے۔ یہ فرانسیسی ناول نگار ہیں۔ 2013 میں جب انتظار حسین کو بکر انٹرنیشنل کے لیے نامزد کیا گیا تو ڈاکٹر آصف فرخی نے دنیازاد کا ایک خصوصی شمارہ اس پر چھاپا۔ اس میں ان تمام ادیبوں کی منتخب تحریریں ان کی اجازت سے شامل کی گئیں جنھیں انتظار صاحب کے ساتھ نامزد کیا گیا تھا۔ آصف بھائی کے کہنے پر میں نے کئی ادیبوں کے ای میل ڈھونڈے اور ان سے رابطہ کیا۔ میری ان ڈیائے ان میں سے ایک تھیں۔

پیرس ریویو میں ان کی تحریر مونسیو ماٹن کا ترجمہ شائع ہوا ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ افسانہ ہے یا ان کے کسی ناول کا ایک باب۔

تازہ شمارے میں دو ترجمے اور چھپے ہیں۔ چینی ادیب جی جانگ کا افسانہ ہیج ہوگ یعنی خارپشت اور اطالوی ادیب ڈومنیکو اسٹارنن کی تین مختصر کہانیاں۔ جی جانگ کا پہلا ناول اس وقت چھپا جب وہ 19 سال کے تھے۔ اس پر خوب داد وصول کی تھی۔ اس کے بعد کئی ناول لکھ چکے ہیں۔ اسٹارنن کی 13 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ ان کے ناولوں کا انگریزی ترجمہ جھمپا لہیری کرتی ہیں۔

پیرس ریویو کے مشہور سلسلے دا آرٹ آف فکشن میں ادیبوں کے انٹرویو شائع کیے جاتے ہیں۔ محمد عمر میمن نے ایسے انٹرویوز کے ترجمے کرکے چار کتابیں ترتیب دی تھیں۔ اس شمارے میں روس کی ممتاز ادیبہ لوڈمیلا پیٹروشیوسکایا اور پلٹزر انعام یافتہ امریکی ادیبہ مارگو جیفرسن کے انٹرویوز شامل ہیں۔ جیفرسن کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب نیگرولینڈ کے نام سے چھپی اور کافی مقبول ہوئی۔

Check Also

Hawai Firing Aur Awam

By Sadiq Anwar Mian