Wednesday, 02 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Taghayur Pazeer Hayat Ka Sarmadi Safar

Taghayur Pazeer Hayat Ka Sarmadi Safar

تغیر پذیر حیات کا سرمدی سفر‎

ارتقاء کا تصور، جسے جدید سائنس کی بنیادوں میں ایک مرکزی ستون کی حیثیت حاصل ہے، محض حیاتیاتی تبدیلیوں کی توضیح تک محدود نہیں، بلکہ یہ کائنات میں تغیر اور تدریج کے عمومی اصول کو بیان کرتا ہے۔ جانداروں کی اقسام، ساخت، افعال اور ان کے جینیاتی عوامل میں رونما ہونے والی تبدیلیاں، جو ایک مسلسل اور ناپیدا ہونے والا سلسلہ ہیں، نہ صرف سائنسدانوں کے لیے بلکہ فلسفیوں اور ماہرینِ الٰہیات کے لیے بھی ایک فکری معمّا بن چکی ہیں۔ ارتقاء کا گہرائی سے مطالعہ ہمیں اس پیچیدہ نظام کی تفہیم میں مدد دیتا ہے، جس میں فوسل ریکارڈ، جینیاتی تغیرات، ماحولیاتی عوامل اور طبیعی انتخاب جیسے عوامل مل کر اس طبیعیاتی حقیقت کو مجسم کرتے ہیں۔

ارتقاء کا نظریہ یونانی فلسفیوں، خصوصاً ایمپیڈوکلیز اور ایناکساگورس کے افکار میں جھلکتا ہے، مگر اسے جدید سائنسی بنیادیں چارلس ڈارون نے اپنی تصنیف "اصل الانواع" میں فراہم کیں۔ اس نظریے کا نچوڑ "قدرتی انتخاب" (Natural Selection) ہے، جو اس اصول پر مبنی ہے کہ وہی جاندار بقا پاتے ہیں جو اپنے ماحول کے مطابق سب سے زیادہ موزوں ہوتے ہیں۔ یہ اصول ایک خودکار، غیر شخصیاتی میکانزم کے تحت عمل پذیر ہوتا ہے، جہاں جینیاتی تغیرات اور ماحولیاتی دباؤ انواع کے ارتقاء میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

فوسل ریکارڈ، جو زمین کی گہرائیوں میں محفوظ تغیراتی تاریخ کا خاموش گواہ ہے، ہمیں بتاتا ہے کہ ماضی کے جاندار جدید انواع سے کس حد تک مختلف تھے اور کس طرح سے یہ تبدیلیاں وقت کے ساتھ ساتھ وقوع پذیر ہوئیں۔ پلینٹولوجی (Paleontology) وہ علم ہے جو ان فوسلز کی مدد سے حیات کی تاریخ کو مرتب کرتا ہے اور جانداروں کے حیاتیاتی روابط کو سمجھنے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

ڈی این اے، جو ہر جاندار کی جینیاتی کتاب ہے، ارتقاء کے عمل کو مزید مستحکم بنیاد فراہم کرتا ہے۔ جینیاتی کوڈ میں ہونے والی معمولی تبدیلیاں، جنہیں میوٹیشن (Mutation) کہا جاتا ہے، انواع میں تنوع کا سبب بنتی ہیں۔ یہی تغیرات بعض جانداروں کو ماحولیاتی دباؤ کے خلاف زیادہ مؤثر بنا دیتے ہیں اور یوں وہ زیادہ نسل خیزی (Reproductive Success) حاصل کرتے ہیں۔ یہی میکانزم قدرتی انتخاب کے تحت ارتقاء کے عظیم اور طویل المدتی عمل کی سمت متعین کرتا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیاں ارتقاء میں ایک بنیادی عنصر ہیں۔ کرۂ ارض کی آب و ہوا، جغرافیائی تبدیلیاں اور قدرتی آفات جانداروں کی بقاء کے امکانات کو متاثر کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک مخصوص خطے میں درجہ حرارت کی تبدیلی، خوراک کی قلت، یا کسی نئے شکاری کی آمد ایک نسل کو مکمل طور پر ختم کر سکتی ہے، جبکہ دوسری نسل انہی حالات میں پھلتی پھولتی ہے۔ یہی عوامل جانداروں میں ارتقائی تبدیلیوں کو متحرک کرتے ہیں اور یوں حیاتیاتی تاریخ کا دھارا بدلتا رہتا ہے۔

ارتقائی حیاتیات میں مختلف جانداروں کی ساختی مماثلتیں اور تفاوتیں اہمیت رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر، وہیل، انسان اور چمگادڑ کے اگلے اعضاء میں ایک ہی بنیادی ہڈیوں کا ڈھانچہ پایا جاتا ہے، حالانکہ ان کے افعال مختلف ہیں۔ ایسی مماثلتیں "ہومولوگس" (Homologous) کہلاتی ہیں اور مشترکہ آباؤ اجداد کی موجودگی کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اس کے برعکس، اینالوگس ساختیں (Analogous Structures)، جیسے پرندوں اور کیڑوں کے پر، مشابہت رکھتے ہیں مگر ان کا ارتقائی منبع مختلف ہوتا ہے۔ یہ ساختیں "متوازی ارتقاء" (Convergent Evolution) کی مثالیں ہیں، جہاں مختلف انواع مشابہ ماحولیاتی دباؤ کے زیرِ اثر ایک جیسے اعضا اور افعال حاصل کرتی ہیں۔

جدید سائنسی پیش رفت نے ارتقاء کو مزید ٹھوس بنیاد فراہم کی ہے۔ ڈی این اے سیکوینسنگ کے ذریعے ہم مختلف انواع کے درمیان جینیاتی قربت کا موازنہ کر سکتے ہیں اور یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ تمام جاندار ایک مشترکہ جد امجد (Common Ancestor) سے ارتقاء پذیر ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر، انسان اور چمپانزی کے جینوم میں 98٪ مشابہت پائی جاتی ہے، جو اس امر کی قوی دلیل ہے کہ دونوں کا ارتقائی شجر ایک ہی نقطے سے نکلا ہے۔

ارتقاء صرف جانداروں میں تبدیلی کا نہیں بلکہ نئی انواع کی پیدائش (Speciation) اور پرانی انواع کے معدوم ہونے کا بھی ایک عمل ہے۔ جغرافیائی علیحدگی، جینیاتی تبدیلیاں اور ماحولیاتی دباؤ نئی انواع کے ظہور کا سبب بنتے ہیں۔ جب کسی جاندار کی آبادی دو مختلف ماحول میں بٹ جاتی ہے، تو ان میں بتدریج ایسی تبدیلیاں آتی ہیں جو انہیں ایک نئی نوع میں تبدیل کر دیتی ہیں۔ اس کے برعکس، بعض انواع شدید ماحولیاتی تبدیلیوں یا شکاریوں کی یلغار کے سبب مکمل طور پر ناپید ہو جاتی ہیں، جیسا کہ ڈائنوسار کی معدومیت۔

ارتقاء کا اثر نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی اور سماجی رویوں پر بھی پڑتا ہے۔ سوشیوبائیولوجی (Sociobiology) ایک ایسا شعبہ ہے جو انسانی طرزِ عمل کو ارتقائی تناظر میں دیکھتا ہے۔ سماجی ڈھانچے، ثقافت اور یہاں تک کہ اخلاقیات کے بنیادی اصول بھی ارتقاء کے اصولوں کے تحت سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر، قبائلی وابستگی، ایثار (Altruism) اور جارحیت جیسے رویے انفرادی اور گروہی بقاء کی حکمت عملیوں سے جڑے ہوئے ہیں، جو لاکھوں سال کے ارتقاء کا نتیجہ ہیں۔

ارتقاء محض ایک نظریہ نہیں بلکہ ایک مستحکم سائنسی حقیقت ہے، جسے فوسل شواہد، جینیاتی تحقیق اور ماحولیاتی عوامل کی مدد سے تسلیم کیا جا چکا ہے۔ حیات کا تنوع اور انواع کی حیرت انگیز پیچیدگی اس امر کی گواہ ہیں کہ قدرتی قوانین کے تحت جانداروں نے نہ صرف اپنے ماحول سے مطابقت پیدا کی بلکہ نئے ماحول تخلیق بھی کیے۔ جدید حیاتیاتی تحقیق، جینیاتی سائنس اور پلینٹولوجی کے انکشافات ارتقاء کے نظریے کو مزید تقویت پہنچاتے ہیں اور انسانی فہم کو وسعت دیتے ہیں کہ ہم کس طرح ایک مسلسل تغیر پذیر اور متحرک کائنات کا حصہ ہیں۔

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Do Neem Mulk e Khudadad (3)

By Shaheen Kamal