بلوچستان الگ ہوجائے گا؟

چند روز پہلے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بلوچستان میں دہشت گردی اور وفاق مخالف خبروں پر خدشہ ظاہر کیا کہ بلوچستان سے بُری خبر آ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں حکومتی رٹ ختم ہوچکی ہے۔ ریاست کے باسیوں کا اداروں پر اعتماد ختم ہونا انتہائی تشویشناک امر ہے۔ ان کی گفتگو میں آخری فقرہ یہ رپورٹ ہوا کہ ہمیں ریاست اور ریاستی اداروں کی بقاء، سالمیت اور وقار عزیز ہے۔ مولانا فضل الرحمان آئین کے تناظر میں سیاسی مؤقف اختیار کرنے کی خاص شہرت رکھتے ہیں اور کوئی انکارنہیں کرسکتا کہ پاکستان کے رقبے کے حوالے سے چوالیس فیصد پر مشتمل بلوچستان سے واقعی اچھی خبریں نہیں آ رہیں مگر بلوچستان، آزاد بلوچستان میں تبدیل ہوسکتا ہے، پاکستان سے الگ ہو سکتا ہے، اس حق میں کوئی احمق ہی پیشین گوئی کرسکتا ہے۔
جب ہم پاکستان کو ستائیسویں شب میں دی گئی رب ذوالجلال کی نعمت قرار دیتے ہیں توکئی بدخواہ مشرقی پاکستان کا سانحہ بطوردلیل پیش کرتے ہیں مگر بلوچستان اور مشرقی پاکستان کے درمیان کئی بنیادی اور اہم فرق موجود ہیں۔ پہلا یہ کہ دونوں پاکستانوں کے درمیان ایک ہزار کلومیٹر کا جغرافیائی فاصلہ موجود تھا جو وفاق کی گرفت اور ردعمل کو کمزور کرتا تھا۔ یہ دنیا کی ایک منفرد محل و وقوع اور جغرافیے کی حامل ریاست تھی جس نے سیاسی فاصلوں میں اضافہ کیا جبکہ بلوچستان پاکستان کے ساتھ پوری طرح جڑ ا علاقہ ہے جیسے کسی بھی دوسری ریاست کے صوبے۔
دوسرا اہم ترین فرق بھارت کی وہ ننگی جارحیت تھی جو شیخ مجیب جیسے غدار کے ساتھ مل کر کی گئی۔ آج اگر ماہرنگ لانگو یا اس کے کچھ حواری چاہیں بھی تو بھارت ان کی مدد کے لئے فوج نہیں بھیج سکتا کیونکہ آج پاکستان ایک ایٹمی ریاست ہے اور کوئی بھی محدود یا روایتی جنگ ایٹمی جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ آج فوج کی قیادت کسی جنرل یحییٰ یا جنرل نیازی نہیں جنرل سید عاصم منیر کے پاس ہے جو دوسروں کو ان کی سرزمین پر جا کے جواب دینے کا حوصلہ اور طاقت رکھتے ہیں۔ یہ بنیادی فرق ہے کہ اب "اکہتر "نہیں ہے۔
ہمیں بلوچستان کی آبادی کے تناسب کو بھی دیکھنا ہوگا۔ تازہ ترین مردم شماری کے مطابق بلوچستان میں بلوچوں کی آبادی چالیس فیصد کے لگ بھگ ہے۔ یہ درست ہے کہ کئی قوم پرست رہنما اسے نہیں مانتے مگر وہ تمام تر دعووں کے باوجود اسے پچاس فیصد سے زیادہ قرار نہیں دے سکتے کیونکہ بلوچستان کا صوبہ مختلف ریاستوں کو ملا کے بنا گیا تھا اور اس میں گوادر کا شہر، ساحل عمان سے لیا گیا تھا۔
بلوچستان میں ایک تہائی سے زیادہ پشتون ہیں اور پندرہ سے سترہ فیصد کے درمیان براہوی۔ دس فیصد تک ہزارے، سندھی، پنجابی، سرائیکی اور دیگر چھوٹے نسلی گروہ ہیں سو بلوچ خود موجودہ بلوچستان میں اکثریت میں نہی، بلوچوں میں زیادہ پنجاب اور سندھ میں آباد ہیں۔ بلوچ سرداروں کی واضح اکثریت پاکستان کے ساتھ ہے اور یوں بی ایل اے سمیت دیگر گروپ اگرچہ اپنی دہشتگردانہ کارروائیوں کی وجہ سے خبروں میں اِن، رہتے ہیں مگر انہیں بہت محدود آبادی کی حمایت حاصل ہے سو یہ بات بھی اسے بنگلہ دیش سے الگ کرتی ہے۔
پشتون اور پنجابیوں سمیت دیگر نسلی گروہ بھی انتہا پسند بلوچوں کے نشانے پر ہیں اور ان کے سخت مخالف۔ مولانا فضل الرحمان ہوں یا بلوچستان کے معروف سردار، ان کے بیانات بلوچستان کے حوالے سے بدلتے رہتے ہیں، یہ سردار جب وہ حکومت میں ہوتے ہیں تو وہ وفاق پرست ہوتے ہیں اور جب حکومت سے باہر تو قوم پرست۔ مولانا بھی اس وقت مقتدر حلقوں سے انتخابات میں مناسب شیئر نہ ملنے پر سخت ناراض ہیں مگر اتنے بھی نہیں کہ وہ آئینی ترامیم نہ کروائیں یا کسی مشکل وقت میں دغا دے جائیں کیونکہ وہ ایک زیرک سیاستدان ہیں۔
ہمیں ایک اور پہلو کو بھی دیکھنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد دہشت گردوں کو وہاں محفوظ ٹھکانے ملے ہیں اور جب ہم پاکستان کے دہشت گردی سے متاثر اضلاع کو دیکھتے ہیں تو وہ ہمیں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں افغانستان کی سرحد سے جڑے ہوئے ملتے ہیں۔ آپ دیکھ لیجئے کہ خیبرپختونخوا کی ہزارہ بیلٹ مکمل پر امن ہے اور تعمیر و ترقی کے سفر پرگامزن ہے۔
بلوچستان کی افغانستان کے ساتھ سرحد تقریباََ 1120 کلومیٹر ہے اور بلوچستان سے جڑے اضلاع میں چاغی، قلعہ عبداللہ، پشین، چمن، ژوب، شیرانی اور کسی حد تک ہرنائی بھی شامل ہیں۔ بلوچستان کی ساحلی پٹی ساڑھے سات سو کلومیٹر کے لگ بھگ ہے جس میں تین اضلاع گوادر، لسبیلہ اور کیچ میں مکران کا حصہ ساحلی علاقوں تک رسائی رکھتا ہے۔ یہ ایک سادہ سی سٹڈی ہے کہ بلوچستان، پاکستان سے الگ ہونے کے ساتھ ہی پہلے سے کہیں زیادہ عالمی سازشوں اور خطرے سے دوچا ر سرزمین بن جائے گی۔
اس کی معدنیات کے بارے دعوے کئے جاتے ہیں مگر انہیں نکالنا اور استعمال میں لانے جیسا عمل پاکستان جیسی ایک مضبوط ریاست ہی کر سکتی ہے جس میں بلوچستان کی حکومت، اداروں اور عوام کی شراکت داری ہو۔ آزاد بلوچستان خود بلوچیوں سمیت ہر کسی کے لئے ایک خطرے کی گھنٹی ہے اوراس میں یقینی طور پر وہ علاقے بھی شامل نہیں ہوں گے جو بلوچ اکثریت نہیں رکھتے۔ اس کے ساتھ ہی بلوچستان کیا افغانستان جیسے جنگ زدہ ملک کا حصہ بنے گا، اس سوال پر قہقہہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔
بلوچستان کی آباد ی کی اکثریت جانتی ہے کہ اس کی ترقی اور فلاح اب سی پیک، گوادرپورٹ اور ریکوڈک جیسے بڑے منصوبوں سے جڑی ہوئی ہے جس کے لئے حکومت پاکستان کوشاں ہے۔ ایسے میں کئی سردار ایسے ہیں جو بلوچوں کی آنے والی نسلوں کو اپنا غلام رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے اپنے بچے آکسفورڈ میں پڑھ کے آتے ہیں مگر وہ اپنے غلاموں کے بچوں کو نہ تعلیم اور صحت کی سہولتیں دینا چاہتے ہیں نہ انفراسٹرکچر۔ ایسے میں بھارت بی ایل اے جیسی تنظیموں کے ذریعے کھل کے کھیلتا ہے کیونکہ وہ بلوچستان میں مشرقی پاکستان جیسا کردار نہیں ادا کرسکتا مگر مکتی باہنی ضرور بنا سکتا ہے اور بنا رہا ہے۔
پاکستان بطور ریاست ان تمام سرگرمیوں سے پوری طرح آگاہ ہے اوراس کا توڑ بھی کر رہی ہے۔ اس وقت اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچ نسل کو اس کا نقع نقصان بتایا جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ بلوچستان کو پاکستان نے ایک لاڈلے بچے کی طرح رکھا ہوا ہے۔ حکومت بلوچستان میں دو طرح سے کام کر رہی ہے پہلا وہی طریقہ جس سے پوری دنیا دہشت گرد تنظیموں سے نمٹتی ہے اور دوسرا عوام کو ریلیف۔
یہ بلوچستانیوں کے لئے ہی ممکن ہے کہ سڑسٹھ فیصد نمبر لینے والی ماہرنگ لانگوایم بی بی ایس ڈاکٹر بن جائے، اسے فیس سے زیادہ سکالرشپ بھی ملے اوراس پر ریاست ایک کروڑ روپوں سے زیادہ خرچ کر دے ورنہ اسی پاکستان کے صوبے پنجاب کی بیٹیاں چورانوے فیصد نمبر لے کر بھی میڈیکل کالج میں داخلہ نہ لے سکیں۔ بلوچستان میں دہشتگردی کی لہر ہے اوراس کامقابلہ کیا جا رہا ہے ورنہ بلوچی احمق نہیں کہ وہ اپنے شاندار مستقبل اور اپنی نسلوں کی خوشحالی سے منہ پھیر لیں جو پاکستان سے جڑی ہوئی ہے۔