Wednesday, 02 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Safdar Hussain Jafri
  4. Hazrat Ali Ka Ilmi Maqam o Martaba

Hazrat Ali Ka Ilmi Maqam o Martaba

حضرت علیؑ کا عِلمی مقام و مرتبہ

جنابِ امیرالمومنین مَولا علی ابنِ ابی طالب علیہ السّلام بارگاہِ رسالت ﷺسے فیض یافتہ وہ نکتہ رس دانا اور یکتائے روزگار ہیں جن کا ثانی دوعالم میں نظر نہیں آتا۔ مولا علیؑ جہاں شجاعت و شہامت میں عدیم المثال ہیں وہیں علم و حکمت کے وہ بحرِ بے کراں ہیں کہ جن کے بارے میں ختمی المرتبت حضور مکرّمﷺ نے رشاد فرمایا:

"اَنا مَدینۃُ الِعلمُ و عَلِی بابُھا" میں علم کا شہر ہوں علی اس کا دروازہ ہیں۔ (صحیح ترمذی شریف)

پیغمبرِ اسلام تمام علوم و معارف کا سرچشمہ ہیں، آپ ہی سے علم کے سوتے پھوٹے اور آپ ہی کے تربیت یافتہ علم و کمال کی بلندیوں پر فائز ہوئے۔ لیکن جس طرح ایک استاد سے اِکتسابِ علم کرنے والے تمام شاگرد برابر نہیں ہوتے، اسی طرح وہ افراد جنہوں نے نبی کریم ﷺ سے تعلیم و تربیت پائی وہ علمی اعتبار سے ایک سطح پر نہ تھے اور نہ ہوسکتے تھے اس لیے کہ نہ ہر ایک کی استعداد اور قوتِ فہم یکساں تھی اور نہ ہر ایک کو درسگاہِ نبوّت سے استفادہِ علمی کے یکساں مواقع ہوئے۔

حضرت علی کا ایک امتیازی وصف یہ ہے کہ ایک طرف ذہنِ رسا اور غیر معمولی فہم و ذکا کے مالک تھے اور دوسری طرف نبیِ کریم ﷺ سےاتصال اور قرب کا جو شرف انہیں حاصل رہا وہ کسی ایک کو حاصل نہ تھا اور خلوت و جلوت میں استفادہِ علمی کے جتنے مواقع انہیں ملے وہ کسی ایک کو میسر نہ آ سکے اسی کا نتیجہ تھا کہ صحابہ میں کوئی بھی آپ کے علمی مرتبہ تک نہ پہنچ سکا۔ امام فخرالدین رازی تحریر کرتے ہیں: "حضرت علیؑ صحابہ میں سب سے زیادہ علم رکھتے تھے، ان کی خوش نصیبی کہ وہ بچپنے ہی میں آنحضرت سے وابستہ ہو گئےتھے اور عام مقولہ ہے کہ جو علم بچپنے میں سیکھا جاتا ہے وہ پتھر کی لکیر ہوتا ہے اور بڑھاپے میں سیکھا ہوا سبق ایسا ہوتا ہے جیسے ریت پر کھینچی ہوئی لکیر۔ (اربعین صفحہ 466)

حضرت علیؑ نے دبستانِ رسالت میں تعلیم و تربیّت پائی، نبوت کی تجلیوں سے آئینہِ دل و دماغ پر جلا کی اور اس مرتبہِ علمی پر فائز ہوئے کہ علم و حکمت کا کوئی شعبہ ایسا نہ تھا جوآپ کی نظروں سے اوجھل رہا ہو اور حقائق و معارف کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جو آپ پہ منکشف نہ ہوا ہو۔ قرنِ اولیٰ اور اس کے بعد کے ادوار میں ایک فرد بھی ایسا پیش نہیں کیا جا سکتا جو علم میں آپ کا ہم پایہ ہو۔ عبدالمالک بن ابی سلیمان کہتے ہیں کہ " میں نے عطاءسے پوچھا کہ حضور کریمﷺ کے صحابہ میں علی سے بڑھ کر کوئی عالم تھا؟ کہا، خدا کی قسم! میں نہیں جانتا کہ اُن سے بڑھ کر کوئی عالم ہو۔ امیرالمؤمنینؑ جس مرتبہِ علمی پر فائز تھے اس مرتبہ پر نہ کوئی فائز ہوا اور نہ آئندہ ہوگا"۔

شیخ الرئیس بو علی سینا اس امر کی شہادت دیتے ہوئے کہتے ہیں: "حضرت علی عوام میں اس بلند مقام پر فائز تھے کہ انسان کی قوتِ پرواز اس تک پہنچنے سے قاصر ہے"۔

حضرتؑ کا علم صرف قرآن و سنّت کے اوامر نواہی تک ہی محدود نہ تھا بلکہ آسمانی کتب اور سابقہ ملل و ادیان کی تعلیمات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ چنانچہ آپ منبر پر فرمایا کرتے تھے: "اگر میرے لیے مسند بچھا دی جاتی تو میں اہلِ تورات میں تورات کی رُو سے، اہلِ انجیل میں انجیل کی رُو سے اور اہلِ زُبور میں زُبور کی رُو سے اور اہلِ قُرآن میں قُرآن کی رُو سے فیصلے کرتا"۔ (مطالب المسئول)

حضرت کے سینہ میں علم کا قلزمِ زخّار موجزن تھا جو ابرِ باراں کی صورت میں برستا، پیاسوں کو ڈھونڈتا اور خشک زمینوں کو سیراب کرتا تھا۔ چنانچہ آپؑ اپنے مبارک سینے کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کرتے تھے: "میرے سینے میں علم کا ایک بڑا ذخیرہ موجود رہے گا، کاش مجھے ایسے افراد مل جاتے جنھیں میں اس علم کا امین بناتا"۔ (نہج البلاغہ)

آپ مسجدِ کُوفہ کے منبر پر بلند ہو کر علم و حکمت کے طلبگاروں اور تفکّر و تحقیق کے پیاسوں کو پکارتے اور دعوتِ عام دیتے کہ "سلُونی قَبَلَ اَن تَفقِدُنی" جو پُوچھنا ہو میری زندگی میں مجھ سے پُوچھ لو! پُوچھنے والے والے اپنی ذہنی پرواز کے مطابق پُوچھتے رہے اور بقدرِ وسعتِ ظرف جواب حاصل کرتے رہے۔ یہ دعویٰ آپ کے لیے مخصوص ہے اور آپ کی زندگی میں اور آپ کے بعد کسی کو یہ دعویٰ کرنے کی جرآت نہ ہو سکی اور اگر کسی نے دعویٰ کیا بھی تو اسے خفّت و شرمساری سےدوچار ہونا پڑا۔ سعید ابنِ مسیّب کہتے ہیں: "لوگوں میں سے کسی نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ مجھ سے جو چاہو پُوچھ لو سوائے علی ابنِ ابی طالب کے"۔

ابنِ ابی الحدید شرحِ نہج البلاغہ میں مولا علیؑ کی علمی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہوسکتا ہے ایک شخص شجاع و نبرد آزما ہو اور یہ بھی ممکن ہے کوئی عالم و دانا ہو لیکن تاریخِ عالم میں کوئی فرد و بشر ایسا نہیں ملتا جس میں دونوں صفتیں جمع ہو جائیں اور وہ تلوار کا دھنی ہونے کے ساتھ ساتھ شہسوارِ علمِ لدنّی بھی ہو۔ یہ صرف زوجِ بتولؑ و پروردہِ رسولﷺ حضرت علیؑ کی ذاتِ گرامی ہے جنہوں نے میدانِ رزم میں اگر تلوار عَلَم کی تو اس تلوار کی کوئی کاٹ نہ تھی اور جب بالائے منبر نعرہِ سلُونی بلند کیا تو اس نعرہ کا بھی جواب نہ تھا۔

امیرالمؤمنینؑ کا علمی ارتقاء قدرت کے فیضان اور پیغمبرِ اکرم ﷺ کی تعلیم و تربیّت کانتیجہ تھا ورنہ اس دور میں جب کہ عربوں کا عِلم اَیّامِ عرب، اَنسابِ عرب، گھوڑوں کی اصل و نسل اور قیافہ شناسی تک محدود تھا، اُن علمی و نفسیاتی، طبیعیاتی و ماوراء الطبیعیاتی مسائل پر لب کشائی نہ کی جا سکتی تھی جو اکثر آپ کے خطبات و بیانات کا موضوع رہےہیں۔ اِن علمی و فنّی مطالب کے ساتھ ادبی اُسلوب و بیان نے آپؑ کے کلام کو اتنا جاذب و پُر کشش بنا دیا ہے کہ کلامِ خدا اور رسولﷺ کے علاوہ کوئی کلام اثرآفرینی میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔

آپ نے اپنے خطبات و بیانات میں علمی و نفسیاتی اور سائنسی و تحقیقی مطالب پر ایسے اچھوتے انداز میں روشنی ڈالی ہے کہ جواہرِ کلام کے پرکھنے والے نقشِ حیرت بن کر رہ گئے ہیں۔

حضرت علیؑ کے علمی تفوّق کی یہ ایک روشن دلیل ہے کہ تاریخ و سیر کی کوئی کتاب یہ نہیں بتاتی کہ آپ نے کسی مسئلہ کے جواب میں وہ امورِ دینیہ کے متعلق یا مسائلِ عقلیہ سے، ریاضی سے متعلق ہو یا ہیئت سے، فلسفہ سے متعلق ہو یا کلام سے، طبیعیات سے متعلق ہو یا الٰہیات سے عجز و درماندگی کا اظہار کیا ہو یا غور و فکر کی ضرورت پڑی ہو یا کسی سے پوچھنے کی احتیاج محسوس کی ہو بلکہ جب بھی آپ کے سامنے کوئی ایسا مسئلہ پیش ہوتا جس کے جواب سے دوسرے عاجز و درماندہ ہوتے تو آپ آسانی سے اسے حل کر دیتے۔ گویا کوئی پیش پا افتادہ بات ہو اور اس کی نوبت ہی نہ آتی کہ یہ کہتے کہ مجھے سوچنےکا موقع دیا جائے یا کسی اور سے دریافت کیا جائے۔

ابنِ عباسؒ بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر حضرت عمر نے امیرالمومنین سے کہا کہ یا ابوالحسنؑ آپ سے جب بھی کوئی مسئلہ پوچھا جاتا ہے یا کسی قضیہ کا حل دریافت کیا جاتا ہے تو آپ فوراً اس کا جواب دے دیتے ہیں، کیا یہ بہتر نہیں کہ آپ فکر و تامل کے بعد جواب دیا کریں۔ حضرت نے اپنا ہاتھ کھول کر اس کے سامنے کیا اور پوچھا کہ اس میں کتنی انگلیاں ہیں کہا پانچ۔ فرمایا تم غور و فکر اور سوچ و بچار سے کام لینے کے بجائے فوراً کیوں بول اٹھے کہا، کہ اس میں غور و فکر کی ضرورت ہی کیا تھی، فرمایا کہ جس طرح تمہیں غور و فکر کی ضرورت پیش نہیں آئی اسی طرح تمام حقائق و مطالب میرے سامنے واضح و آشکارا ہیں اور کسی مرحلہ پر مجھے سوچ بچار کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ کسی شاعر نے مولا علیؑ کی مدحت میں کیا خوب لکھا ہے:

حوالہ یاد نہیں ہے کتاب سوچنے دو
کہاں سے پوچھ رہے ہو نصاب سوچنے دو

علیؑ کی عمرِ علی میں کوئی سوال بتا
کہ جب علیؑ نے کہا ہو جواب سوچنے دو

Check Also

Narmi Aur Hikmat, Tableegh Ka Sunehri Usool

By Amirjan Haqqani