Wednesday, 02 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rehmat Aziz Khan
  4. Kafan Ke Tukre

Kafan Ke Tukre

کفن کے ٹکڑے

زیب سندھی کا افسانہ "کفن کے ٹکڑے" ایک حساس، علامتی اور فکری تخلیق ہے جس میں افسانہ نگار نے ایثار، قربانی اور نیکی کے جذبے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ زیب سندھی نے اس مختصر مگر مؤثر سندھی کہانی میں عمر رسیدہ میاں بیوی کے کرداروں کو مرکز میں رکھتے ہوئے معاشرتی، جذباتی اور فلسفیانہ موضوعات کو خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ اس کہانی کی خاص بات اس کا علامتی اظہار اور سادہ مگر گہرائی لیے ہوئے اسلوب ہے، جو قاری کے ذہن پر دیرپا اثرات چھوڑ کر اسے غور و فکر کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

اس افسانے کے کئی تہذیبی، سماجی اور علامتی پہلو ہیں۔ یہ کہانی کرونا وبا کے پس منظر میں لکھی گئی ہے، جہاں انسانی بقا اور ہمدردی کے جذبات نمایاں ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ دو عمر رسیدہ کردار جن کی زندگی کی سانسیں گنتی کی رہ گئی ہیں، اپنی ذات سے زیادہ دوسروں کی فکر میں مبتلا ہیں۔ شوہر، جو اشیائے خوردونوش خریدنے کے لیے اپنا کفن فروخت کر دیتا ہے، ایک گہری علامت ہے کہ زندگی کو بچانے کے لیے موت کی تیاری بھی ترک کی جا سکتی ہے۔ دوسری طرف، بیوی اپنے کفن کے ٹکڑے ماسک بنانے کے لیے کاٹ دیتی ہے، جو ایثار اور انسانیت کی معراج کو ظاہر کرتا ہے۔

یہاں "کفن" نہ صرف موت کی علامت ہے بلکہ قربانی، نجات اور زندگی کے تسلسل کی علامت بھی بن جاتا ہے۔ بوڑھی عورت کا کفن کے ٹکڑوں کو ماسک میں بدل دینا گویا موت کے سامنے زندگی کو فوقیت دینے کا عملی مظاہرہ ہے۔

افسانے میں کردار نگاری نہایت موثر ہے۔ بوڑھا شوہر، جو کہ ایک محنتی، وفادار اور زندگی کی مشکلات سے نبرد آزما شخص ہے، جو اپنی بیوی کے ساتھ آخری عمر میں بھی جینے کی کوشش کر رہا ہے۔ بوڑھی بیوی، جو ایک مضبوط، حساس اور قربانی دینے والی عورت ہے جو اپنی موت کے بجائے دوسروں کی زندگی کے بارے میں سوچتی ہے۔

ان دونوں کرداروں میں جو باہمی محبت اور احساس پایا جاتا ہے، وہ کہانی کو جذباتی سطح پر مزید گہرائی دیتا ہے۔

کہانی کا اسلوب سادہ، رواں اور جذباتی ہے۔ زیب سندھی نے غیر ضروری طوالت سے اجتناب کیا ہے، جس سے کہانی کی اثر پذیری برقرار رہتی ہے۔

کہانی میں جو خوبصورت تصویرکشی کی گئی ہے وہ قاری کو کہانی کی فضا میں مکمل طور پر جذب کر لیتی ہیں۔ پسینے میں تر لباس، رعشے سے لرزتے ہاتھ، مٹی کے گھڑے سے پانی پینے کا منظر—یہ سب چیزیں حقیقی محسوس ہوتے ہیں۔

کرداروں کے درمیان مکالمے کم مگر بامعنی ہیں، جو کہانی کے جذبات کو مزید گہرا کرتے ہیں۔

کہانی میں تجریدی اور علامتی رنگ بھی نمایاں ہے۔ کہانی میں کفن کو موت کے بجائے زندگی کی علامت بنا دیا گیا ہے، جو کہانی کو ایک اعلیٰ فکری سطح پر لے جاتا ہے۔

کہانی کا اختتام انتہائی پُرتاثیر اور غیر متوقع ہے۔ بوڑھے شوہر کا بیوی کی بات سن کر چت لیٹ جانا اور اس کے بعد "روح کا پنچھی قفسِ حیات توڑ کر پرواز کر جانا" ایک المیہ ہے، جو زندگی اور موت کی کشمکش کو خوبصورتی سے اجاگر کرتا ہے۔

کہانی کا یہ انجام قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے اور اس حقیقت کو سامنے لاتا ہے کہ بعض اوقات دوسروں کے لیے قربانی دینا ہماری اپنی زندگی کی حدیں ختم کر دیتا ہے۔

افسانہ کئی جہات پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔

یہ کہانی ان دنوں میں لکھی گئی جب پوری دنیا ایک مہلک وبا سے گزر رہی تھی۔ ایسے حالات میں قربانی، ایثار اور ایک دوسرے کی مدد کے جذبات کو ابھارنا کہانی کا اہم پیغام ہے۔

بڑھاپے میں محرومی، لاچاری اور وسائل کی کمی کا بیان حقیقت پسندانہ انداز میں کیا گیا ہے جو کہانی کی سچائی کو مزید بڑھا دیتا ہے۔

کہانی میں کم الفاظ میں گہرے معانی و مفاہیم سموئے گئے ہیں، جو جدید مختصر افسانے کی ایک بڑی خوبی ہے۔

زیب سندھی کا سندھی زبان کا افسانہ "کفن کے ٹکڑے" محض ایک کہانی ہی نہیں بلکہ قربانی، انسان دوستی اور زندگی کی ناگزیریت کا ایک فلسفیانہ بیان بھی ہے۔ زیب سندھی نے مختصر مگر انتہائی جامع پیرائے میں ایک ایسی کہانی تخلیق کی ہے جو نہ صرف کرونا کے دنوں کی یاد دلاتی ہے بلکہ ہر دور کے لیے ایک اہم انسانی پیغام رکھتی ہے۔ اس کہانی کو علامتی افسانوں کی بہترین مثالوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ میں زیب سندھی کو اپنی مادری زبان میں افسانہ تخلیق کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

Check Also

Hawai Firing Aur Awam

By Sadiq Anwar Mian