Wednesday, 02 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Do Neem Mulk e Khudadad (2)

Do Neem Mulk e Khudadad (2)

دو نیم ملکِ خداداد (2)

فروری 1966 میں شیخ مجیب الرحمٰن نے اپنا چھ نکاتی فارمولا عوام کے سامنے پیش کیا۔ یہ گویا بنگلہ دیش کے قیام کی جانب پہلا قدم تھا۔ عوام کی اکثریت نے اس کی پزیرائی کی۔

مئی 1966 میں شیخ مجیب اور ان کے کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا اور ان پر پاکستان توڑنے کا "اگر تلہ" سازش کا الزام تھا۔ اگرتلہ مشرقی پاکستان کا وہ سرحدی بھارتی علاقہ تھا جہاں پاکستان توڑنے کی عملاً سازش کی گئی تھی۔

اسی طرح 1967 میں فوج سے تعلق رکھنے والے کچھ بنگالی فوجیوں کی گرفتاری بھی عمل میں آئی۔ ان پر ہندوستان سے ساز باز کرکے ملک کو توڑنے کی سازش کا الزام تھا۔

وہ ایوب خان، جو جسٹس منیر کی مدد سے پاکستان توڑنا چاہتا تھا، اس نے مجیب پر پاکستان کے خلاف سازش کا الزام لگا دیا۔ الزام عدالت میں ثابت نہ ہو سکا اور شیخ مجیب کی مقبولیت مزید بڑھ گئی۔ 1969ء میں معروف صحافی الطاف حسن قریشی نے شیخ مجیب الرحمٰن کا انٹرویو کیا۔ یہ انٹرویو قریشی صاحب کی کتاب "ملاقاتیں کیا کیا" میں موجود ہے۔

قریشی صاحب نے مجیب سے پوچھا کہ موجودہ بحران کا حل کیا ہے؟ مجیب نے جواب میں کہا کہ 1956ء کا آئین بحال کر دیں۔ قریشی صاحب نے کہا کہ چھ نکات تو کچھ اور ہی کہتے ہیں، مجیب نے جواب دیا کہ چھ نکات قرآن اور بائبل نہیں، ان پر نظر ثانی ہو سکتی ہے۔ پھر انہوں نے الطاف حسن قریشی کو وہی کہا، جو رمیض الدین نے جسٹس منیر سے کہا تھا، "ہماری آبادی 56 فیصد ہے، مغربی پاکستان علیحدگی کا تصور کر سکتا ہے، ہم نہیں کر سکتے۔ وہ حصہ اگر الگ ہونا چاہتا ہے تو ہو جائے"۔

عوامی لیگ نے شیخ مجیب کی گرفتاری کے خلاف 7 جون کو عام ہڑتال کا اعلان کیا۔ ان ہنگاموں میں پچاس کے قریب افراد پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے اور پورے مشرقی بازو میں مزاحمت کا سونامی آ گیا۔ مشرقی پاکستان آئے دن کی ہڑتالوں اور جلاؤ گھیراؤ سے متاثر ہوتا چلا گیا۔

اگرتلہ سازش کیس اور شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نکاتی پروگرام کی بنگالی اخبارات نے زور شور سے تہشیر شروع کر دی اور مغربی پاکستان کے اخبارات نے شیخ مجیب کو بطور غدار پینٹ کرنا شروع کر دیا۔

1969 تک ایوب خان کے ہاتھوں سے ملک کی باگیں تقریباً نکل چلی تھیں۔ مشرقی پاکستان میں ایوب خان کے خلاف عوامی لیگ کی طلباء ونگ یعنی طلباء تنظیم "چھاترو لیگ" نے احتجاجی تحریک پوری شدت سے شروع کر رکھی تھی۔ ادھر مغربی پاکستان میں شکر کی قلّت نے ملک گیر بحران کی شکل اختیار کرتے ہوئے صورت حال مزید خراب کر دی، جس کے نتیجے میں لاہور اور گجرانوالہ میں کرفیو نافذ کرنا پڑا۔ مشرقی و مغربی پاکستان کی سنگین صورت حال کو سنبھالنے کے لیے ایوب خان نے لاہور میں "راؤنڈ ٹیبل کانفرنس" کا انعقاد کیا اور شرکت کے لیے شیخ مجیب کو جیل سے رہا کر دیا مگر ذوالفقار علی بھٹو علی بھٹو نے کاننفرنس کا بائیکاٹ کر دیا، نتیجتاً ملک میں شدید سیاسی بحران آ گیا۔ آخر کار شدید دباؤ کا شکار، بے بس جنرل ایوب خان نے 25 مارچ 1969 کو اقتدار سے علیحدہ ہو کر حکومت جنرل یحیٰی خان کو سونپ دی۔

یحییٰ خان نے آتے ہی عام انتخابات کا اعلان کیا اور ساتھ ہی ساتھ محمد علی بوگرہ کا تجویز کردہ اور قومی اسمبلی کا (30 ستمبر 1955) کو منظور شدہ ون یونٹ کا قیام باطل کر دیا گیا۔ سرحد اور بلوچستان کی صوبائی حیثیت بحال کر دی گئی۔ سابق ریاست بہاولپور کو پنجاب میں اور کراچی کو سندھ میں ضم کر دیا گیا، یاد رہے کراچی انگریزوں کے دور میں بھی اپنی جُداگانہ حیثیت رکھتا تھا۔ سابق سرحدی ریاستوں سوات، دیر اور چترال کو ملا کر مالاکنڈ ایجنسی قائم کی گئی۔

یحییٰ خان نے جسٹس عبد الستار کو چیف الیکشن کمشنر نامزد کیا۔

اب پاکستان کی بد قسمتی اور شیخ مجیب کا جیک پوٹ کہ 20 نومبر 1970 کو مشرقی پاکستان میں بھیانک ترین سائکلون "بھولا" آیا اور مشرقی پاکستان کے 8000 اسکوائر کلومیٹر پر تباہی پھیر گیا۔ شدید جانی و مالی نقصان ہوا اور تقریباً ڈھائی لاکھ قیمتی جانوں کی ہلاکت رپورٹ ہوئی۔ سائکلون کے دو دن بعد صدر یحییٰ خان، بیجنگ سے واپسی پر فقط ایک روز کے لیے مشرقی پاکستان ٹھہرے اور تباہی پر کسی خاص دکھ یا پریشانی کا اظہار تک نہ کیا۔ ان کے اس بے حس رویے نے مشرقی پاکستان کے عوام کے جذبات کو بری طرح مجروح کیا۔ عوام مشتعل ہوئی اور شیخ مجیب الرحمن نے اس سانحے کو اپنے حق میں کیش کر لیا۔ اس نے اپنی گرج دار تقریروں میں صدر، مغربی پاکستان کے سیاست دانوں اور عوام سب کو رگید کر رکھ دیا۔ یوں سائیکلون، بھولا متحدہ پاکستان کے تابوت کی آخری کیل ثابت ہوا۔ بعد میں صدر کی معافی بھی تلافی نہ کر سکی اور اسے محض لپ سروس ہی گردانہ گیا (جو کہ حقیقت بھی)۔

7 دسمبر 1970 کو الیکشن ہوا اور جناب کیا ہی خوب ہوا۔ مغربی پاکستان کا تو ہمیں نہیں پتہ مگر ڈھاکہ میں اُس دن جشن کا سماں تھا اور لوگ اپنے بہترین لباس میں نک سک سے تیار گروہ در گروہ پولنگ بوتھ جا رہے تھے۔ سروں پر کاغذ سے بنی خوب صورت کشتی کے طرز کی چمکیلی پنیوں سے سجی بنی ٹوپی، اس دن ہر جگہ بس نؤکا ہی نؤکا (کشتی) کا راج تھا۔ ریڈیو ڈھاکہ سے سارے وہ گیت نشر کیے جا رہے تھے جس میں نؤکا کا ذکر تھا کہ کشتی عوامی لیگ کا انتخابی نشان۔ ایسا جوش خروش تو ہم نے کبھی عید پر بھی نہیں دیکھا تھا۔ ہمارے چاروں نوکر بنگالی تھے۔ نورو، غفور اور یاسین نے تو قاعدے سے صرف ایک ہی بار ووٹ دے کر گھر میں بیٹھ رہے مگر ہمارے شہید میاں جو شیخ مجیب کے ڈائی ہارڈ فین تھے، اس نے پانچ ووٹ دیے۔ پولنگ بوتھ سے ووٹ دے کر گھر آتا اور تازہ پیپتہ توڑ کر اس سے نکلنے والے دودھ سے انگوٹھے کا نشان مٹا کر پھر سے پولنگ بوتھ کی راہ لیتا۔ چھٹی مرتبہ امی نے اسے ڈانٹا کہ کیا انگوٹھا گلائے گا اپنا!

تب کہیں جا کر وہ چپکا بیٹھا۔ ستر کے الیکشن کی شفافیت کا بڑا چرچا ہے مگر یہ میری آنکھوں دیکھی کہانی ہے۔

اب تاریخ کی زبانی اس دور کی دھاندلی کی کہانی بھی سن لیجیے۔ عام تاثر یہی ہے کہ 1970ء کے انتخابات بڑے ہی شفاف و آزاد تھے۔ اس تاثر کی نفی جنرل یحییٰ خان کے اپنے ہی دو قریبی ساتھیوں نے کر دی۔ پاکستان ایئرفورس کے ایک افسر ارشد سمیع خان نے جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ بطور اے ڈی سی کام کیا۔

انہوں نے اپنی کتاب "Three Presidents and an aide" میں لکھا ہے کہ 1970ء کے انتخابات میں میجر جنرل غلام عمر نے کچھ سیاستدانوں میں خفیہ طور پر رقوم تقسیم کی تھیں۔ الیکشن کی رات، جب رزلٹ آنے شروع ہوئے تو صدر یحییٰ خان نے کہا کہ جنرل عمر سے بات کراؤ۔ ارشد سمیع نے صدر کی جنرل عمر سے بات کرائی تو صدر صاحب نے غصے میں ان سے پوچھا، "وہ جو تم نے خان عبدالقیوم خان، صبور خان اور بھاشانی کو پیسے دیے تھے ان کا کیا ہوا؟"

جنرل عمر کوئی جواب نہ دے سکے تو صدر نے کہا کہ قومی اسمبلی کے انتخابات میں جو ہونا تھا وہ ہوگیا، اب مجھے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے نتائج بالکل مختلف چاہییں۔ لیکن جنرل عمر صدر کے خوابوں کو حقیقت بنانے میں ناکام رہے۔

آئی ایس پی آر کے سابق سربراہ اور صدر یحییٰ خان کے پریس سیکریٹری بریگیڈیئر اے آر صدیقی نے اپنی کتاب "جنرل محمد یحییٰ خان" میں لکھا ہے کہ جنرل عمر نے مشرقی پاکستان میں کرنل ایس ڈی احمد کے ذریعے خان قیوم کی کنونشن مسلم لیگ، جماعت اسلامی، صبور خان، فضل القادر چوہدری، نورالامین، خواجہ خیرالدین، مولوی فرید احمد اور کچھ دیگر میں بھاری رقوم تقسیم کیں۔ اس دھاندلی کے باوجود شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ نے قومی اسمبلی اور مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی۔

جاری۔۔

Check Also

Eid Ki Dam Torti Tehzeebi Riwayat

By Javed Ayaz Khan