Thursday, 03 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Better Call Mahboob (1)

Better Call Mahboob (1)

بیٹر کالم محبوب (1)

میں نہیں جانتا کہ محبوب سے میرا تعلق کتنا پرانا ہے۔ مجھے اب وہ پہلا لمحہ یاد بھی نہیں رہا جس گھڑی ہماری ملاقات ہوئی تھی۔ سولہ سترہ سال بیت چکے۔ ان دنوں کریم آباد ہنزہ مقامی سیاحوں سے کم اور غیر ملکی سیاحوں سے زیادہ بھرا ہوا کرتا۔ ہنزہ میں شب بسری کو میرا ٹھکانہ ہنزہ ایمبیسی ہوٹل ہوتا جو اب "رومی داستان" بن چکا ہے۔ ہنزہ ایمبیسی کے مالک فرہاد ہنزئی سے شناسائی تھی۔ خود تو فرہاد جرمنی میں مقیم تھا مگر میں نے جب جانا ہوتا اس کے ہوٹل چلا جاتا۔ محبوب ہنزہ ایمبیسی ہوٹل کا مینیجر تھا۔ جیسے ہی میں پہنچتا، محبوب گرمجوشی سے استقبال کرتا اور پھر مجھے ہوٹل کے دوسرے فلور پر واقع نکڑ والا کمرہ دے دیتا جس کی خصوصیت یہ تھی کہ اس کی بالکونی اور کمرے کی کھڑکی سے راکا پوشی عین سامنے نظر آتی۔ یہ چوٹی کا اس کمرے سے خاص ویو ہوا کرتا۔ اب ہنزہ ایمبیسی بک چکا ہے اور نیا نام نئی مینجمنٹ کے ساتھ "رومی داستان" ہے۔

محبوب ہوٹل مینجمنٹ میں سٹیٹ آف دی آرٹ پروفیشنل تو ہے مگر اس سے کہیں بڑھ کر بہترین دلنواز اور مدد گار انسان ہے۔ یوں سمجھ لیجئے اگر آپ نے مشہور زمانہ ڈرامہ سیریل "بریکنگ بیڈ" دیکھ رکھی ہے تو آپ کو اس سیریل کا ایک اہم کردار ساؤل گڈ مین یاد ہوگا جو وکیل ہے اور جس کا کام مصیبت میں پھنسے لوگوں کو نکالنا ہے۔ اس کا ایک ڈائیلاگ ہوتا ہے "Better Call Saul"۔ ہنزہ میں اگر آپ کو کسی قسم کی کوئی مدد چاہئے ہو تو میں کہوں گا "Better Call Mahboob"۔ پتہ نہیں محبوب سے تعلق وقت کے ساتھ کیسے بڑھتا گیا شاید اس کی خوش مزاجی، دیکھ بھال اور مدد کے لیے ہر دم تیار شخصیت کے سبب۔

محبوب ہنزہ واٹر کی گلاسی چڑھا لیتا تو ہوٹل کی بیٹھک میں غیر ملکی سیاحوں یعنی اپنے مہمانوں کے سامنے ایسا بہترین مقامی ہنزئی رقص پیش کرتا کہ جو واقعی دیکھنے سے تعلق رکھتا۔ وہ مہمانوں کی مکمل توجہ حاصل کرنے کا فن جانتا تھا۔ اس وقت یوں بھی ساری دنیا جوان تھی۔ میں پچیس چھبیس سال کا نوجوان تھا تو محبوب پینتیس سال کا جوان۔ ہنزہ واٹر اور محبوب لازم و ملزوم تھے۔

گئے زمانوں میں سینٹرل ہنزہ کے پانی کا واحد ذریعہ اُلتر گلیشئیر سے پگھل کر آتا پانی ہوا کرتا۔ اس پانی کا رنگ منرلز کی بہتات کے سبب دُودھیا تھا۔ اس نالے سے حاصل کیے پانی کو فارنرز نے "ہنزہ واٹر" کہنا شروع کر دیا۔ گئے وقتوں میں پہاڑوں کی سخت سردی میں انسان نے زندہ رہنے کو خوبانی سے تیار کردہ ایک مشروب تیار کیا۔ یہ خوبانی کی شراب تھی۔ پہاڑ واسیوں کے واسطے یہ امرت دھارا تھی۔ اس کا رنگ بھی چونکہ دُودھیا سا ہوتا ہے اس واسطے وقت کے ساتھ خوبانی کی شراب کا کوڈ نیم بھی ہنزہ واٹر پڑ گیا اور یوں اصل ہنزہ واٹر کہیں پیچھے رہ گیا، خوبانی کی شراب آگے نکل گئی۔

اک بار میں کریم آباد ہنزہ سے دور گوجال یعنی بالائی ہنزہ کے گاؤں خیبر میں ایک ہوٹل کے لان میں آنکھیں موندے کرسی سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ یکایک چھپاکا سا ہوا اور محبوب کی آواز گونجی "شاہ جی ڈھونڈ لیا ناں۔ تو تم یہاں دور دور بیٹھا ہے۔ ہنزہ میں رش ہوگیا ناں اس لیے وہاں نہیں رُکا؟ مگر مجھے معلوم پڑا تو میں تلاش کرتا آ گیا"۔ وہ سامنے کرسی پر بیٹھا اور پھر ہاتھ میں تھامے بڑے سے شاپر سے ہاٹ پاٹ نکالا۔ " مچھلی کھاؤ۔ ٹراؤٹ لایا ہے"۔ محبوب ہنزہ سے موٹرسائیکل پر خیبر گاؤں آ گیا تھا اور اپنے ساتھ ٹراؤٹ بنوا کے لے آیا تھا۔ جیسے ہی میں نے مچھلی کا لقمہ لیا محبوب نے "ہنزہ واٹر" نکالا اور گلاسی کا گھونٹ بھرتے بولا " یہ کافر شے تو مچھلی کے ساتھ مزہ زیادہ کرتی ہے"۔  پھر آدھ گلاس چڑھا گیا۔ میں نے ٹہوکا دیا "دھیان کرنا جتنی تم چڑھا رہے ہو مچھلی پیٹ میں تیرنے نہ لگ جائے"۔ 

میرا ہر سال آنا جانا لگا رہا۔ محبوب سے سال میں دو بار ملاقات ہو جاتی۔ ایک موسم بہار میں اور دوجا موسم خزاں میں۔ دو تین بار سابقہ بیگم کے ہمراہ بھی جاتا رہا۔ وقت گزرتا رہا۔ سنہ 2016 میں میں نے اپنے پہلے ازدواجی تعلق کے اختتام کے بعد دوسری شادی کی۔ شادی کے بعد بیگم کو لے کر ہنزہ نکل گیا اور محبوب کو فون کرکے مطلع کر دیا کہ میں بیگم کے ہمراہ آ رہا ہوں۔ میرے ذہن میں تو یہ تھا کہ فیسبک کے توسط سے سارے جگ کو معلوم ہے محبوب کو بھی میرے حالات کا معلوم ہوگا اور وہ جانتا ہوگا کہ میں نے شادی کر لی۔ مجھے کیا خبر تھی کہ محبوب تو فیسبک سے دور رہتا ہے اور کبھی کبھار دیکھتا ہے۔ وہ اس ساری صورتحال سے مکمل لاعلم تھا۔

ہنزہ ایمبیسی ہوٹل داخل ہوا۔ محبوب روایتی گرمجوشی سے ملا اور پھر بیگم کو ہمراہ دیکھ کر یکدم سنجیدہ ہوگیا۔ ہم کو کمرہ دکھایا اور چلا گیا۔ لمبے سفر کی تھکاوٹ کے سبب میں کچھ دیر کو سو گیا۔ شام کو آنکھ کھُلی۔ بیگم کو کہا کہ میں نیچے لابی میں جا رہا ہوں، تم بھی آ جانا وہیں محبوب کے ساتھ چائے پیتے ہیں اور ہنزہ کا حال احوال اس کی زبانی سُنتے ہیں۔ وہ تیار ہونے میں لگ گئی اور میں اکیلا نیچے لابی میں آ گیا۔ محبوب نے مجھے اکیلے پایا تو جھٹ سے میرے سامنے آن بیٹھا اور جھجھکتے جھجھکتے بولا "شاہ جی ایک بات کہوں بُرا نہ منانا"۔

میں چوکنا ہوگیا کہ الہیٰ خیر ہو اس کو اتنا سنجیدہ کبھی نہیں دیکھا اور یہ اس بار کچھ بدلا بدلا سا لگ رہا ہے۔ شاید اس کو کوئی پریشانی ہے۔ میں نے اسے کہا کہ ضرور بلا تکلف کہو جو کہنا ہو۔

"شاہ جی، بات یہ ہے کہ دیکھو مائنڈ نہ کرنا۔ تم دوست ہو۔ تم پہلے بیگم کے ساتھ آتا تھا اب لڑکی لانے لگ گیا ہے اور مجھ سے جھوٹ بولتا ہے کہ بیگم کے ساتھ آ رہا ہوں۔ جیسے مجھے معلوم نہیں کہ تمہارا بیگم کون ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تم نے ایسا کیوں کیا ہے۔ تم کو کوئی دماغی پریشانی ہے تو بولو"۔

یہ سُنتے ہی مجھے سمجھ آ گئی کہ محبوب بالکل کورا ہے اور خدا جانے میں نے اس وقت کیسے اپنی ہنسی کو قابو کیا تھا۔ اس کے معصوم چہرے پر پریشانی اُبھر رہی تھی اور میں دل میں اسی لمحے فیصلہ کیے بیٹھ گیا کہ محبوب کا شغل بڑھایا جائے۔ میں نے سنجیدہ لہجے میں کہا "محبوب، ہاں میں پریشان ہوں۔ دراصل اس لڑکی کو بھگا کر لایا ہوں۔ جب تک پیچھے پنجاب میں پولیس وغیرہ کا چکر ختم نہیں ہو جاتا میں یہیں رہوں گا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ایسی گھمبیر صورتحال میں کہاں جاؤں تو ہنزہ چلا آیا"۔

محبوب یکدم اُچھلا، اس نے صوفے سے کھڑے ہو کر اپنے دونوں ہاتھ ہوا میں بلند کیے اور پھر نیچے لا کر اپنے دونوں زانوں پر دے مارے۔ اس حرکت پر مجھے پھر سے ہنسی آئی مگر ضبط کیے رہا۔

"او شاہ جی۔ یہ کیا حرکت کیا؟ میں تم کو پڑھا لکھا ہوشیار سمجھتا تھا تم نے تو قسم سے بچوں والا کام کر دیا ہے۔ تم نے اس سے نکاح کیا ہے؟"۔ وہ انتہائی بے صبری سے مسلسل بولتا گیا۔

Check Also

Mimbar o Mehrab Ki Asal Zimmadari

By Hafiz Muhammad Irfan