Wednesday, 02 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ashfaq Inayat Kahlon
  4. Chalte Ho To Baku Chalte Hain (1)

Chalte Ho To Baku Chalte Hain (1)

چلتے ہو تو باکو چلتے ہیں (1)

فلائٹ اڑے ایک گھنٹہ ہوا تھا کہ ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی روسی حسینہ نے مجھے جگایا، فضائی صنف نازک میزبان کھانا سرو کر رہی تھی، سارا دن سفر میں گذارنے باعث تھکاوٹ فرض تھی اور معدہ بھی کھانا مانگ رہا تھا، اگلی سیٹ کی پشت پر نصب کھانے والی پلیٹ ایڈجسٹ کرکے اس سے کھانا شکریہ کے ساتھ وصول کیا، کھانے کی مقدار گرچہ زیادہ نہ تھی لیکن بھوکے پیٹ کی شانتی کیلئے کافی تھا۔

کھانے کے بعد سگریٹ کی طلب ہوئی لیکن اس فلائٹ پر سگریٹ نوشی کی سختی سے ممانعت تھی، اگلی سیٹ کی پشت پر نصب ٹی وی سکرین کو آن کرکے فلائٹ روٹ چیک کیا، پرواز کئے ڈیڑھ گھنٹہ ہو چکا تھا، ہم ایران کی فضائی حدود سے گزرنے کے بعد بحیرہ کیسپین پر محو پرواز تھے، باکو پہنچنے میں ابھی لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا، کھڑکی سے نیچے نظر دوڑائی تو تاحد نگاہ پانی ہی پانی دکھائی دیا۔

وقت گذاری کیلئے ایک سفرنامہ پڑھنا شروع کیا، روسی حسینہ نے مجھے مخاطب کیا "میرا نام روزا ہے، روزا فرام روس"، میں اپنا نام اسے روسی زبان میں بتایا تو وہ الجھن نما حیرت سے بولی "ایش فک"، میں جواب دیا "آپ فقط ایش بھی پکار سکتی ہیں "، اب وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی لیکن صاف ظاہر تھا کہ ہنسی چھپانے کی کوشش کر رہی تھی، بولی "بہت دلچسپ نام ہے"، میں عرض کیا "میری نانی میرا نام صادق رکھنا چاہتی تھی لیکن دادی نے اشفاق کو ترجیح دی کہ اس نام کا کوئی دوسرا فرد ہمارے ایریا میں نہیں تھا"، وہ پوچھتی "رشین زبان کیسے سیکھی؟" تب میں اسے عرصہ چوبیس سال پہلے سیمی میں دوران طالب علمی گزرے وقت بارے بتایا، پھر پوچھتی "کیا کرتے ہو اور باکو کس لئے جا رہے ہو؟"

میں عرض کیا "سعودیہ میں جاب کرتا ہوں اور عید کی چھٹیاں گذارنے باکو جا رہا ہوں "، کچھ لمحے توقف ہوا، پھر وہ بولی "میں سینٹ پیٹرز برگ میں رہتی ہوں، چھٹیاں گذارنے کچھ دن کیلئے گروپ کے ساتھ دبئی گئی تھی، اب باقی چھٹیاں گذارنے اپنی خالہ کے پاس باکو جا رہی ہوں "، ان رشین لوگوں کی رشتہ داریوں یوں ہیں کہ ایک ہی خاندان کے لوگ مختلف سابقہ رشین ریاستوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور ان کیلئے تمام سابقہ رشین ریاستوں بشمول روس 90 دن کا آن آرائیول ویزہ کی سہولت ہے۔

لگ بھگ ایک گھنٹے بعد روٹ برقرار رکھنے کیلئے جہاز دائیں طرف جھکا تو بائیں طرف کھڑکی سے پار پہاڑوں پر جمی برف پر نظر پڑی، منہ سے بے ساختہ نکلا "سبحان تیری قدرت"، میں کہ جو مڈل ایسٹ کی گرمی سے بھاگ کر آیا تھا، پہاڑوں پر جمی برف دیکھ کر اندازہ ہوگیا کہ آگے موسم بہت خوشگوار ہوگا، تھوڑی دیر بعد پائلٹ نے لینڈنگ اناؤنس کرتے انتبہ کیا کہ تیز ہواؤں کے باعث پرواز غیر ہموار ہو سکتی ہے لہذا اپنے سیٹ بیلٹ باندھ لیں اور ساتھ ہی جہاز کو نیچے اتارنا شروع کیا، تین چار مرتبہ بہت تیز ہواؤں نے جہاز کو لرزایا لیکن ماہر پائلٹ نے کمال ہوشیاری اور مہارت سے پرواز کو بروقت ہموار رکھا۔

پانچ منٹ بعد بحیرہ کیسپین ختم ہونے کے بعد باکو کی سرزمین نظر آنا شروع ہوئی، نیچے نظر دوڑائی تو سمندر میں تیرتی کشتیاں نظر آئیں، باکو کی پہچان فلیم ٹاورز اور باکو آئی بھی دور سے نظر آئے، پائلٹ نے طیارے کو مزید نیچے اتارا تو ہر طرف آبادی اور گھروں کی لمبی قطاریں تھیں، پرواز مزید نیچے ہونے سے جب حد نگاہ مزید وسیع ہوئی تو ان گھروں کی یورپی طرز پر بنی چھتیں اور بھورے رنگ کے رنگ و روغن مزید واضح نظر آئے، ایک ہی طرز اور ترتیب سے بنے گھر بہت خوشنما محسوس ہوئے۔

دو منٹ بعد پائلٹ نے کمال مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پرواز کو غیر متوازن ہونے سے بچاتے ہوئے نہایت عمدگی سے حیدر علییوف انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر لینڈنگ کی، ٹائروں نے رن وے کو چھوا تو ایک جھٹکا لگا، جان میں جان آئی، سیٹ بیلٹ کھول کر آرام سے بیٹھ گیا، طیارہ رن وے پر ٹیکسی کر رہا تھا، باکو کا رن وے انٹرنیشنل معیار کا اور بہت لمبا ہے، اس بات کا مجھے تب اندازہ ہوا جب وہاں امریکن ایئرلائنز کا طیارہ نظر آیا، باکو کا ایئرپورٹ زیادہ مصروف نہیں اور زیادہ تر پروازیں دن کے وقت آپریٹ ہوتی ہیں۔

کھڑکی سے باہر جھانکتے ایک قدیم طرز کی روسی وین متحرک نظر آئی تو سیمی میں گزرا زمانہ طالب علمی کا وقت آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح لہرا گیا، سابقہ سوویت یونین دور کی بنی گاڑیوں، وین اور ٹریکٹرز میں یہ خاصیت تھی کہ اگر کوئی خرابی پیدا ہوتی تو اسے جگاڑ کرکے بھی کام چلایا جا سکتا تھا، پاکستان میں روسی ٹریکٹر اس کی بہترین مثال ہے، طیارہ ٹیکسی کرتا ہوا ٹرمینل بلڈنگ کے پاس جا رکا، خود کار دروازے کو طیارے کے ساتھ جوڑا گیا تو میں آرام سے بیٹھا رہا، میرا تجربہ ہے کہ طیارہ رکتے ہی ہڑبونگ مچ جاتی ہے، ایسے میں دھکم پیل سے بچنا فرض ہوتا ہے، جب ہمارے آگے کے مسافروں نے بھی باہر کی راہ لی تو ہم بھی ان کے پیچھے ہو لئے، خوش شکل اور خوش پوشاک فضائی میزبانیں مسافروں کو الوداع کر رہی تھیں۔

کوریڈور سے گزرے ہوئے دونوں اطراف لگے شیشوں کے پار، ایمریٹس، فلائی ناس، طیران العربیہ، وز ایئر، سلک ایئرویز، ایرو فلوٹ، الجزیرہ ایئرویز اور دیگر دو تین فضائی کمپنیوں کے جہاز بھی نظر آئے، طیاروں کی تعداد سے اندازہ ہوگیا کہ آگے امیگریشن لاؤنج میں بہت رش ہوگا، کوریڈور سے گزرتے روزا نے مجھ سے قیام بارے پوچھا تو اسے ہوٹل کا بتایا، اس نے پیشکش کی "اگر تم پسند کرو تو میری خالہ کے گھر میں ایک علیحدہ مہمان خانہ ہے، جہاں ہر طرح کی سہولت دستیاب ہے، اگر مفت قیام پسند نہیں تو کرایہ ادا کر دینا، صبح بہترین ناشتہ بھی ملتا ہے، گھومنے کیلئے گاری بھی دستیاب ہے، پیٹرول شیئر کرلینا، میں تمہیں باکو دکھاؤں گی"۔

میں اس کا شکریہ ادا کیا کیونکہ ہوٹل پہلے سے بک کر چکا تھا البتہ باقی پیشکش معقول تھی، یورپی ممالک میں رہنے والے لوگ اکثر اپنے گھروں میں ایک علیحدہ کمرہ مختص کر دیتے ہیں جو مفت کی آمدن دیتا ہے، اب تو بہت سے افراد نے اپنے مکمل گھر یا گھر کا کچھ حصہ ایئر بی این بی نامی ویب سائٹ پر مشتہر کر رکھا ہے، آن لائن بکنگ اور بعد از قیام رقم ادائی کی سہولت بھی، فقط کنفرمیشن کیلئے آپ کے موبائل نمبر پر ایک او ٹی پی آتا ہے، کھچا کھچ بھرے امیگریشن لاؤنج میں مختلف قومیتوں کے لگ بھگ دو ہزار لوگ تھے، روزا اپنا سامان سنبھالتی "دس ودانیا" بولتی، ہاتھ ہلاتی رخصت ہوگئی۔

Check Also

Hawai Firing Aur Awam

By Sadiq Anwar Mian