شعور ہو تو سفر خود سفر کا حاصل ہے

زندگی کا بہت بڑا سبق، اپنی آسائش کی دنیا سے نکل کر مختلف بلکہ متضاد ممالک کی تہذیب کو پرکھنا اور پڑھنا ہے۔ ہر ملک کے سماج میں اتنا تنوع ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اخلاقی قدریں تک تبدیل ہو جاتی ہیں۔ گناہ اور ثواب کا پیمانہ بھی بدل جاتا ہے۔ انسان جس طرز پر، سفر در سفر سے سیکھتاہے، وہ کسی بھی درسگاہ سے بڑھ کر ہوتا ہے۔
یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اپنے ملک سے قدم باہر نکالنے سے ہی، ایک ایسی تعلیم اور تربیت کا آغاز ہو جاتا ہے۔ جس کا کوئی متبادل نہیں۔ طارق محمود مرزا نے اپنا سفر نامہ لکھ کر انسانی ذہن اور فکر کی نئی جہتیں کھول دی ہیں۔
اس کتاب، جس کا عنوان "ملکوں ملکوں، دیکھا چاند" ہے۔ اس میں چار منفرد ممالک کا جوہر، کشید کیا گیا ہے۔ ڈنمارک، سویڈن، ناروے اور قطر۔ پہلے تینوں ممالک یورپ میں واقع ہیں۔ بذات خود، سویڈن اور ناروے میں بہت بار جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ موجودہ انسانی تہذیب کی معراج، اگر آپ نے اپنی آنکھ سے دیکھنی ہے تو سکینڈنیویا کے ان تین ممالک میں بخوبی معلوم پڑتی ہے۔
خوش و خرم لوگوں کا ملک، ڈنمارک: ہم ساحل سمندر پر واقع ایک وسیع اور دلکش پارک میں کھڑے تھے۔ حسین قدرتی مناظر کے باوجود اس وقت وہاں سناٹا تھا۔ کار پارک میں صرف دو گاڑیاں کھڑی تھیں۔ ان کے مالکان ساحل سمندر پر کسرت میں مصروف تھے۔
ایک بلند مقام پر کھڑے ہو کر ہم نے سبزو شاداب پارک، شیشے کی طرح شفاف پانی والا سمندر اور اس سمندر پر واقع ایک عجوبہ روز گار پل دیکھا۔ دراصل یہی پل دکھانے کے لیے رمضان صاحب مجھے یہاں لے کر آئے تھے۔ یہ طویل و عریض پل ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن اور سویڈن کے شہر مالمو کو ملاتا ہے۔ دو شہروں بلکہ دو ملکوں کو ملانے والا یہ راستہ محض ایک پل نہیں ہے بلکہ پل، مصنوعی جزیرے اور زیر آب سرنگ پر مشتمل فن تعمیر کا ناقابل یقین شاہکار ہے۔ اسے دیکھ کر انسان ان ذہنوں اور ہاتھوں کو بے اختیار داد دینے پر مجبور ہو جاتا ہے جن کی یہ تخلیق ہے۔ یہ پل کوپن ہیگن والی سمت سے شروع ہوتا ہے اور آٹھ کلو میٹر تک سمندر کے اوپر زمینی شاہراہ کی طرح چلتا جاتا ہے۔
1219میں تخلیق کردہ ڈنمارک کا قومی پرچم ڈین بروگ (Deneborg) آزاد دنیا کا سب سے قدیم پرچم تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ یقیناََ ڈینش قوم کے لیے باعث افتخار ہے۔
ڈنمارک میں تعلیم اور علاج بالکل مفت ہے۔ اگرچہ اس کے اخراجات عوام کے ٹیکس کے ذریعے ادا ہوتے ہیں۔ مگر اس سے مستفید ہونے والو ں میں ٹیکس دہندگان کے ساتھ ساتھ کم آمدنی والے لوگ بھی شامل ہیں۔ گویا تعلیم اور صحت کے مواقع غریب اور امیر سب کو یکساں حاصل ہیں۔ میرے خیال میں دنیا کو ڈنمارک سے سیکھنے اور اس فلاحی نظام کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آسٹریلیا جس کا میں شہری ہوں وہاں بھی یہی نظام رائج ہے۔ کاش پوری دنیا کے انسانوں کو یہ سہولتیں حاصل ہوں۔
الفریڈ نوبل کا دیس، سویڈن: واپس اسٹاک ہوم کے قدیم شہر گا ملا اسٹین چلتے ہیں جہاں اسٹاک ہوم کی بنیاد پڑی تھی۔ پانی کے کنارے اور ڈھلوان سطح پر آباد یہ علاقہ سویڈن ہی نہیں اس خطے کا قدیم ترین شہر ہے۔ قرون وسطیٰ کے دور کے قدیم اور محفوظ ترین شہروں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ گا ملا اسٹین ہی وہ مقام ہے جہاں 1252ء میں باقاعدہ اسٹاک ہوم شہر کی بنیاد رکھی گئی۔ گویا یہ اسٹاک ہوم کا مرکز اور بنیاد ہے۔ گاملا اسٹین اور ملحقہ جزیرہ Ridder holmen انتہائی دلکش اور قدرتی رنگوں سے مزید ہے۔ قدرتی حسن یعنی پہاڑ، پانی اور پھول پودوں کے علاوہ اس کی تاریخی کشش بھی کم نہیں ہے۔
میں جتنی دیر بھی اس علاقے میں موجود رہا ایک ایک عمارت، اس کے درودیوار، اس کی ساخت، اس کے پتھر اور نقش و نگار کے حسن اور قدامت سے محفوظ ہوتا رہا۔ تاریخی علاقہ، قدیم ترین فن تعمیر کی شاہکار عمارتیں، ہر عمارت کی جدا تاریخ، اس کا حسن اور سیاحوں کی رونق میں اتنا دلچسپ وقت گزرا کہ بیان نہیں کر سکتا۔ دو گھنٹے کی چہل قدمی اور سیر و سیاحت کے بعد میں سمندری پٹی کے کنارے اور درجنوں گملوں میں سجے رنگا رنگ پھولوں کے درمیان واقع ایک کیفے کے باہر رکھی رنگین و آرام دہ کرسیوں میں سے ایک پر جا بیٹھا۔ یہاں وسیع اور پختہ میدان تھا جو سمندری پٹی کے کنارے دور تک چلا جاتا تھا۔
سویڈن کی چند اہم اور دلچسپ باتیں: سویڈن کے بارے میں چند اہم اور دلچسپ باتیں آپ کی نذرکرتا ہوں۔
1- سویڈن کی اراضی کا دو تہائی حصہ جنگلات پر مشتمل ہے۔ ان جنگلات کا کل رقبہ 280650مربع کلو میٹر ہے جب کہ ملک کا آدھا رقبہ نجی اور آدھا سرکاری ملکیت ہے۔
2- بالحاظ رقبہ سویڈن یورپ کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ اس کا کل رقبہ 447435 مربع کلو میٹر ہے۔ اس کے باوجود فی مربع کلو میٹر کے لحاظ سے سویڈن یورپ میں سب سے کم آبادی والا دوسرا ملک ہے۔
3- سویڈش فخریہ بتاتے ہیں کہ ان کے جنگلات میں تقریباً چار لاکھ موس (Moose) آزادانہ گھوم رہے ہیں۔ موس ہرن اور بارہ سنگھے کی نسل کا جانور ہے۔
4- سویڈش پاسپورٹ کی دنیا میں سب سے زیادہ قدر ہے۔ وہ دنیا کے ایک سو چوبیس ملکوں میں بغیر ویزے کے جاسکتے ہیں۔
5- سویڈن فن کار ا ور موسیقار بہت مشہور ہیں۔ موسیقی کی برآمدات سے سویڈن خطیر رقم کماتا ہے۔
طویل ساحلوں کا دیس، ناروے: دنیا کے آخری کنارے کے راستے میں ہم کئی چھوٹے چھوٹے گاؤں کے اندر سے گزرے جہاں دیہی حیات اپنے فطری رنگ روپ میں نظر آئی۔ چھوٹے چھوٹے گھر، کشادہ گلیاں، درختوں کے جھنڈ، رنگا رنگ پھولوں کے پودے، مویشیوں کے فارم جس میں گائیں، گھوڑے فطرت سے ہم آہنگ تھے۔
راہ میں کئی دکانیں اور پٹرول پمپ نظر آئے۔ مجھے کافی کی طلب محسوس ہو رہی تھی مگر یہ کام دنیا کے آخری کنارے پر کرنے کا ارادہ تھا۔ ایک مقام پر ہماری کار ایک طویل سرنگ کے اندر سے گزری۔ سرنگ میں روشنی اور ہوا کا مناسب بندوبست ہونے کے باوجود اتنی دیر تک زیر زمین رہنے پر خوش سا محسوس ہوتا تھا۔ کھلے آسمان تلے آئے تو جیسے سب نے اطمینان کا سانس لیا۔ دوران سفر میں نے پوچھا۔ "ناروے کی خاص اور دلچسپ بات کیا ہے؟"
مرزا ذوالفقار نے بتایا"ناروے پہاڑوں پر جمے عظیم گلیشیرز (برفانی تودے)، سمندری کھائیاں جو زمین کے اندر دور تک چلی آتی ہیں، ماہی گیری، ہائکنگ (اندرون ملک طویل سفر) اسکینگ (برف پر پھسلنے والا کھیل) کے بڑے بڑے میدان رکھنے والا ملک ہے۔ اس کی کل آبادی ترپن لاکھ ہے جوپچاس برس قبل جب میں یہاں آیا تھا تو چالیس لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ یوں آبادی بہت کم اور اس میں اضافہ کی شر ح بہت ہی کم ہے۔ یہ معمولی اضافہ بھی نقل مکانی کرکے آنے والے ہم جیسے مہاجرین کی وجہ سے ہے۔
سمندری موتیوں کا شہر، قطر: سوق الوقف دوحہ کا قدیم ترین اور روایتی تاریخی بازار ہے۔ سوق کے معنی بازار اور وقف کا مطلب رکنا ہے۔ اس بازار کا ذکر قطر کی تاریخ میں بھی ملتا ہے۔ ایئرپورٹ پہنچ کر عبدالکریم ٹرالی لے آیا۔ میں نے کرایہ ادا کیا اور جو قطری کرنسی بچی تھی وہ بھی چپکے سے اپنے اس ہم وطن کے ہاتھ میں تھما دی اور سامان کی ٹرالی لے کر چل دیا۔ کافی آگے جا کر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ اسی حالت میں کھڑا تھا۔ اس کے مرجھائے گالوں پر نمی تیر رہی تھی۔ طویل عرصے کے بعد ایک اچھا سفر نامہ پڑھنے کو ملا ہے۔ بہت بلندپایہ تصنیف ہے۔ دعا ہے کہ طارق محمود مرزا، اسی طرح قلم سے موتی بکھیرتے رہیں۔