Tuesday, 01 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abdullah Rauf
  4. Musalman Aqliyat

Musalman Aqliyat

مسلمان اقلیت

زندگی کی سب سے بڑی خوش قسمتی اور باعثِ فخر بات یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے پیار ے محبوب رحمت اللعالمین، خاتم النبیین حضرت محمدﷺ کی امت میں پیدا فرمایا ہے اس بات پر رب العالمین کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے حدیث شریف کا مفہوم ہے "اللہ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اس کو دین کی سمجھ دیتا ہے" اللہ رب العزت نے قیامت تک آنے والے آخری انسان کیلئے حضور اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ کو نمونہ بنایا ہے عبادات اللہ رب العزت کا اپنے بندے پر حق ہے یعنی حقوق اللہ ہے اور یہ ہر بندے کا اپنے رب کے ساتھ ذاتی معاملہ ہے کوئی بھی شخص جتنا مرضی عبادت گزار ہو اس کی عبادت کا کسی دوسرے شخص کو کوئی نفع نہیں ہے اور نہ ہی وہ شخص اپنی عبادت پر یہ دعوا کر سکتا ہے کہ میں اپنی عبادت کی وجہ سے جنت میں جاؤں گا جنت کے لئے وہ پھر بھی اللہ رب العزت کے کرم اور فضل کا محتاج ہی رہے گا کیونکہ عبادات میں ہماری نیت اور کمی بیشی صرف اللہ ہی جانتاہے چاہے تو معاف کر دے چاہے تو پکڑ فرمالے، اللہ رب العزت نے ہمیں جتنی نعمتیں عطا فرمائی ہیں ہمیں کوشش کرنی چاہیے ہم ان کا شکر بجا لانے کیلئے رب العالمین کی بارگاہِ ا قدس میں سربسجود رہیں کیونکہ صرف وہی ذات عبادت کے لائق ہے۔

حقوق العباد ایسا معاملہ ہے کہ جس کی وجہ سے ہر شخص کا کسی دوسرے شخص کے ساتھ نفع یا نقصان جڑا ہوا ہے او ر یہ حق جو بندے کا بندے پر ہے اللہ معاف بھی نہیں فرمائے گا جب تک کہ وہ بندہ جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے وہ خود معاف نہ کردے، اب ذرا تصور کریں اُس دن جب نفسا نفسی کا عالم ہوگا اور ہر بندے کو نیکیوں کی اشد ضرورت ہوگی تو بھلا کون کسی کو معاف کرے گا اس لئے ہمیں اپنے اخلاق، کردار اور معاملات پر بہت زیادہ توجہ دینی چاہیے کیونکہ اس کے ساتھ ہماری نہ ختم ہونے والی آخرت کی زندگی جڑی ہوئی ہے دنیا میں سب سے بہترین اخلاق اور کردار جس ہستی کا ہے میں اپنے موضوع پر آنے سے پہلے اُن کی زندگی سے اُن کے اخلاق کی صرف ایک مثال آپ کے سامنے پیش کروں گا۔

عرب میں فتح مکہ سے پہلے انسانوں کو غلام بنا کر اُن پر بہت ظلم و ستم ڈھایا جاتا تھا اور اُن کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں سمجھی جاتی تھی جو مالک کسی غلام کو خرید کر لاتا تھا پھر وہ جیسا مرضی چاہے غیر انسانی سلوک اس غلام کے ساتھ کرے اسے کوئی نہیں پوچھ سکتا تھا اسی طرح ایک کالے حبشی غلام پر اُس کا مالک بہت ظلم ڈھاتا تھا سارا دن اُس سے اپنے گھر میں کام کاج کرواتا تھا اور رات کو اسے اتنی مقدار میں جوہاتھ والی چکی سے پیسنے کیلئے دیتا تھا کہ ساری رات جو پیستے گزر جاتی تھی۔

سردیوں کی ایک رات تھی ٹھنڈ بہت زیادہ تھی غلام کو سخت بخار بھی تھا اس لئے وہ چکی چھوڑ کر بستر پر لحاف اوڑھ کر لیٹ گیا تھوڑی دیر بعد اُس کا مالک آگیا اُس نے غلام کو آرام کرتے دیکھا تو غصے میں پاگل ہوگیا غلام کا لحاف اتار پھینکا اور سزا کے طور پراس کی قمیض بھی اتروا کر اسے نیچے کھلی جگہ پر جو پیسنے کیلئے بیٹھا دیا اور ساتھ دھمکی دی کہ اگر صبح تک سارے جو نہ پیسے تو سرِ بازار ننگا کرکے ماروں گا، اب اندازہ کریں کہ اتنی ٹھنڈ اور سخت بخار میں بغیر قمیض کے اُس غلام کی کیا حالت ہوگی وہ بیچارا اپنی قسمت پر رو رہا تھا اور ساتھ جو بھی پیس رہا تھا کہ اتنے میں نبی مہربان کا گزر وہاں سے ہوتا ہے رونے کی آواز سنتے ہیں تو قریب آکر رونے کی وجہ پوچھتے ہیں تو حبشی غلام روتے ہوئے کہتا ہے کہ جاؤ اپنا کام کرو یہاں دکھ سارے پوچھتے ہیں لیکن مداوا کوئی نہیں کرتا معاذاللہ! پھر چند اور سخت جملوں کے ساتھ اپنا دکھ بتایا، تو حضور واپس جانے لگے جب حضور واپس جارہے تھے تو حبشی غلام نے کہا بس! جارہے ہو نا میں نے پہلے ہی کہا تھا یہاں کون کسی کا دکھ بانٹتا ہے۔

تھوڑی دیر گزرتی ہے تو حبشی غلام کیا دیکھتا ہے کہ وہی مہربان اور حسین و جمیل ہستی ایک ہاتھ میں گرم دودھ کا پیالہ اور دوسرے ہاتھ میں کچھ کجھوریں لے کر تشریف لائے، پھر بڑی محبت کے ساتھ حبشی غلام کو کجھوریں کھلائیں اور دودھ پلایا اور فرمایا کہ جاؤ اب بستر میں آرام کرو تو حبشی غلام نے پوچھا کہ چکی کون پیسے گا؟ اگر جو نہ پیسے تو میرا مالک مجھے بہت مارے گا تو رحمت اللعالمین نے فرمایا کہ تیرے حصے کے جو میں پیسوں گا، یہ صرف ایک رات کی بات نہیں پھر مسلسل تین راتیں یہی عمل دہرایا تو تیسری رات وہ حبشی غلام آپ کے اخلاق سے اتنا متاثر ہوا کہ آپ کے قدموں میں بیٹھ گیا اور کہا کہ مجھے بھی اپنا بنا لو کیونکہ آپ کا تعلق ایک سردار گھرانے سے تھا اور عرب کے معاشرے میں ایک سردار کا ایک حبشی غلام کے ساتھ ایسا سلوک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا اسی لئے غلام نے سوچا کہ ایسا سلوک وہی ہستی کر سکتی ہے جسے پورے جہان کیلئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہو پھر اُس کے بعد حبشی غلام پر جتنا بھی ظلم اور جبر ہوتا رہا لیکن اُس کی زبان صرف احد احد ہی پکارتی رہی آج دنیا اس حبشی غلام کو حضرت بلالؓ کے نام سے جانتی ہے۔

آج ہم اپنی حالت دیکھیں کیا ہمارا خلاق، اقلیت تو درکنار اپنے ہم وطن مسلمان بھائی کے ساتھ ویسا ہی ہے جیسا وجہ کائنات ہستی کا ایک غیر مسلم حبشی غلام کے ساتھ تھا، ہم بحیثیت قوم بری طرح سے مذہبی، سیاسی اور لسانی اختلافات کا شکار ہیں جس کی بڑی وجہ اللہ رب العزت کی لاریب کتاب قرآن کریم میں موجود اللہ کے حکم اور حدیث شریف کی مستند کتب میں موجود پیارے نبی کے فرمان سے روگردانی ہے ہمارے پیارے نبی نے ہم پر دین مکمل کرتے ہوئے ہمیں خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا تھا جس کا مفہوم ہے کہ "میں اپنے بعد تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک اللہ کی کتاب (قرآن مجید) جس میں ہدایت ہے اور دوسری میری سنت (احادیث کی مستند کتب) تم اسے تھامے رکھو تو کبھی گمراہ نہ ہو گے" کیا ہم نے قرآن کریم سے ہدایت حاصل کرنے کیلئے اسے ترجمہ کے ساتھ کبھی پڑھا ہے؟ اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں تو ہم نے قرآن کریم کو صرف عدالتوں میں گواہی، بیٹی یا بہن کی رخصتی یا مردے بخشوانے کیلئے رکھا ہوا ہے رمضان المبارک میں بھی ہم قرآن مجید صرف ثواب کی نیت سے پڑھتے ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم کم ازکم زندگی میں ایک مرتبہ قرآن مجید ہدایت کیلئے ترجمہ کے ساتھ ضرور پڑھیں۔

اگر ہم ہدایت کیلئے پڑھیں گے تو ہمیں پتہ چلے گا کہ قرآن کریم میں واضح طور پر ارشاد باری تعالیٰ ہے جس کا مفہوم ہے "سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو" آپ اندازہ کریں کہ اس کھلی اور واضح آیت مبارکہ کے باوجود ہم پہلے چار اماموں کی وجہ سے آپس میں جھگڑتے رہے اور اب مختلف فرقوں میں تقسیم ہو کر اپنی ساری توانائیاں فروعی، فقہی اور مسلکی مسائل میں ضائع کر رہیں ہیں اور حد تو یہ ہے کہ ان فرقوں کی بھی آگے بہت سی مزید شاخیں الگ مخصوص لباس، الگ رنگ کی مخصوص پگڑی اور ٹوپی کی وجہ سے اپنی الگ پہنچان رکھتی ہیں اس لئے مجھے اب یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان میں "مسلمان" اقلیت میں ہیں اور فرقہ واریت اکثریت میں ہے حالانکہ ہمارے پیارے نبی ہمیں مسلمان اور ایک امت بنا کر گئے تھے ان فرقوں کی پیدائش تو بہت دیر بعد یعنی آج سے تقریباًڈیڑھ سو سال پہلے ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود آپ کو پاکستان میں مختلف فرقوں کی مساجد تو عام نظر آئیں گی لیکن صرف "مسلمانوں" کی بہت مشکل سے۔

اگر ہم اپنے کردار پر نظر دوڑائیں تو ہم بازاروں میں نبی سے محبت کے نعرے تو بہت زور و شور سے لگاتے ہیں لیکن ماہِ مقدس رمضان المبارک کے مہینے میں بھی انہی بازاروں میں جھوٹ، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، ناجائز منافع خوری اور دھوکہ دہی عام نظر آتی ہے حالانکہ بیچنے والے اور خریدنے والے سب مسلمان ہیں ہماری عدالتوں، تھانوں اور سرکاری محکموں میں کوئی کام بھی بغیر تگڑی سفارش یا رشوت کے نہیں ہوتا حالانکہ وہاں بھی کام کرنے والے اور کروانے والے مسلمان ہیں، ہم نیا جوتا پہن کر مسجد میں نہیں جاتے لیکن ہماری تبلیغی خواہش ہے کہ امریکہ اور یورپ والے بھی ہم جیسے بن جائیں۔

اگر ہم اپنی تربیت کو دیکھیں تو ہماری مسجدوں کے واش رومز(لیٹرین) اور گَلوں (پیسے ڈالنے والا) کو ہماری تربیت کی وجہ سے تالے لگے ہوئے ہیں اس کے علاوہ سڑکوں پر جب زیادہ رش کی وجہ سے ٹریفک جام ہو جائے یا ریلوے پھاٹک بند ہوجائے تو آپ کو ہماری تربیت عام نظر آئے گی بازاروں میں پانی والے کولر کے ساتھ زنجیر کے ساتھ بندھا ہوا گلاس ہماری تربیت کا مہنہ بولتا ثبوت ہے، اگر پھر بھی آپ کی تسلی نہیں ہوتی توآپ اپنے علاقے میں ایک دعوتِ عام کا اعلان کریں اور کھانا وافر مقدار میں تیار کریں جب عوام اکٹھی ہو جائے تو کھانا ٹیبلوں پر لگا دیں اور لاؤڈ سپیکر پر بار بار اعلان کریں کہ کھانا وافر مقدار میں موجود ہے کوئی دھکم پیل نہیں ہونی چاہیے آرام سے بیٹھ کرکھانا کھائیں سب کو کھانا ملے گا پھر عوام کو کھول دیں یعنی کھانا کھول دیں تو عوام اتنی زبردست تربیت کا مظاہرہ کرے گی کہ آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔

اس قسم کے اخلاق، کردار اور تربیت کے باوجود ہمیں ہر وقت یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ دشمن ہماری ترقی سے خوفزدہ ہو کر ہمارے خلاف ہر وقت کسی نا کسی سازش میں مصروف رہتا ہے یاد رکھیں ہمارے زوال کی وجہ عبادات میں کمی نہیں بلکہ معاملات میں بگاڑ ہے۔

Check Also

Islam, Nazria e Irtiqa Aur Jadeed Mulhideen Ka Ilmi Fiqr

By Nusrat Abbas Dassu