Jaye Maata Di
جے ماتا دی
نگرپارکر ہندو برادری کا گھر ہے۔ یہیں قدیم جین مندر ہیں جن کی تاریخ قبل از اسلام ملتی ہے۔ ان قدیمی مندروں کی جانب جاتی راہوں میں اور مندروں کے باہر کہیں کہیں بچے ٹولیوں کی صورت کھڑے ملتے ہیں جو مسافر کو دیکھتے ہی عین اسی نیت سے "جے ماتا دی" کا نعرہ بلند کرتے ہیں جس نیت سے مسجد کی واسطے چندہ مانگنے والے "جزاک اللہ" کہتے ہیں۔ یعنی کچھ دے جا سخیا۔
اس علاقے میں گھومتے "جے ماتا دی" کا نعرہ بلند کرتے ان مفلوک الحال بچوں کو دیکھ کر دل پسیجتا تو ہے مگر میں بنامِ مذہب مانگنے والوں کو اس واسطے کچھ نہیں دیتا کہ یہ دھندے کی ایک قسم بن چکی ہے۔ خیر، جگہ جگہ "جے ماتا دی" سُنتا ہوا میں ایک تاریخی مسجد "بوڈھیسر مسجد" پہنچا جو حاکمِ گجرات شاہ محمود بیگڑے نے ساڑھے پانچ سو سال قبل تعمیر کروائی تھی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں تبلیغی جماعت والوں کی ٹولی ڈیرہ ڈالے بیٹھی ہے اور ہر آنے والے سیاح کو گھیر کر باتوں کی لسی بنانے پر لگی ہوئی ہے۔ اکا دُکا سیاح جو بیچارے کسی طرح تاریخی مسجد دیکھنے یہاں پہنچ ہی گئے تھے وہ گردن جھکائے تبلیغی بیان سُن رہے تھے۔ جیسے ہی تبلیغیوں نے دیکھا کہ دو نئے شکار آئے ہیں انہوں نے پہلے سے پکڑے پرندوں کو آزاد کر دیا اور ہماری جانب متوجہ ہونے کو کمر کسنے لگے۔ وہ دو تین مرد سیاح آزادی پا کر یوں فرار ہوئے جیسے جیل سے قیدی چھُوٹا ہو یعنی سپیڈو سپیڈ غائب ہو گئے۔
گاڑی سے اُترتے ہی میرے ہمسفر اثمار نے ہولے سے کہا" سر جی ان کے ہاتھ چڑھ گئے تو آج گھنٹہ اِدھر ہی لگ جانا۔ ہم کچھ دیر بعد آ جاتے ہیں تب تک یہ نکل گئے ہوں گے"۔ میں نے اثمار کے کاندھے پر تھپکی دی" فکر نہ کرو اندر چلتے ہیں یہ کچھ نہیں کہنے والے۔ "
جیسے ہی ہم مسجد کے صدر دروازے کی جانب بڑھے باہر کھڑے دو مومنین اکرام نے ہنستے ہوئے مصافحہ کرنے کو ہاتھ آگے بڑھایا۔ ہم نے مصافحہ کیا اور اس سے قبل کہ پیاری پیاری باتوں کا آغاز کرتے میں نے ہاتھ چھڑواتے ہی نعرہ لگا دیا "جے ماتا دی"۔ نعرہ سن کر ان دونوں حضرات کی ہنسی گدھے کے سینگ مافق غائب ہوگئی اور وہ بُت بنے کھڑے ہم دونوں کو دیکھتے رہے۔ ہم مسجد میں داخل ہوئے۔
مسجد کے اندر بیٹھے ان کے دو ساتھی بھی مسجد سے باہر نکل گئے۔ باہر نکل کر وہ ہمیں دیکھتے رہے اور آپس میں گفتگو کرتے رہے۔ میں نے اس مسجد کی ویڈیو بنائی۔ اثمار کا ہاسا کنٹرول ہی نہیں ہو رہا تھا۔ اس کو رہ رہ کر ہنسی کا دورہ پڑتا اور پھر ہولے سے کہتا"یہ آپ نے ان کا ٹھیک توڑ نکالا ہے"۔
صاحبو، سیٹی تو اُن احباب کی تب گُم ہوئی جب ویڈیو بنا چکنے کے بعد اسمار اور میں نے وضو کیا۔ عصر کا وقت ہو رہا تھا۔ اثمار تو باقاعدگی سے نماز ادا کرتا ہے میں نے بھی عصر پڑھ لی۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ چاروں صاحبان آپس میں کیا چہ مگوئیاں کرتے رہے۔ البتہ جب ہم دونوں مسجد سے نکلے تو وہ چاروں حیرت زدہ ہو کر ہم کو دیکھ رہے تھے۔ کوئی آگے نہیں بڑھا۔ میں نے قریب سے گزرتے ہوئے ان کو اونچا کہا"السلام علیکم"۔ مجال ہے جو کسی نے جواباً "وعلیکم السلام" کہا ہو۔ ایکدم سناٹا چھایا رہا اور پھر گاڑی میں بیٹھتے ہی اثمار ہنس ہنس کے پاگل ہوگیا۔ مگر مجھے افسوس ہوتا رہا کہ میری آمد سے قبل وہ اچھا بھلا چہک کر شکار گھیر رہے تھے میں ان کو ورطہ حیرت میں مبتلا پریشان چھوڑ آیا۔