خود کو محصور محسوس کرتے کرّم کے مکینوں کا دُکھ
ہمارے ہاں نومبر اور دسمبر کے مہینے شادی کا سیزن ہوتے ہیں۔ لاہور سے اسلام آباد منتقل ہونے کے بعد میں کئی برسوں تک شادیوں کے فنکشن میں نہیں جاتا تھا۔ یہاں کے باسیوں سے شناسائی تھی آشنائی نہیں۔ صحافت میں لیکن ثقافتی امور پر لکھنے کے بعد ایوان ہائے اقتدار سے ٹھوس خبروں کی تلاش شروع کی تو "ذرائع" درکار تھے۔ جن کو فقط خبر کے لئے ذریعہ بنانے کے لئے استعمال کرنا چاہا وہ بتدریج فیملی کے اراکین کی طرح ہوگئے۔ بعدازاں جب دو بچیوں کا باپ ہوگیا تو خیال آیا کہ اس شہر میں بنائے رشتوں کو مزید مضبوط بنانے کے لئے لازمی ہے کہ دوستوں کے بچوں کی شادی سے متعلق تقریبات میں ہر صورت شریک ہوا جائے۔ اب نوبت بہ ایں جا رسید کہ شادی کے سیزن میں بسااوقات ایک ہی دن اوسطاََ دو سے زیادہ شادی کی تقریبات میں شرکت لازمی ہوجاتی ہے۔
گز شتہ ڈیڑھ مہینے کے دوران شادی سے متعلق تقاریب میں شرکت کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ ہمارے متوسط طبقے کی اکثریت ان دنوں وطن کے بارے میں بہت متفکر ہے۔ اس کا خیال ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ روایتی میڈیا مگر ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے حکومتی موقف ہی بیان کرتا ہے۔ حق وسچ کی تلاش کے لئے فقط سوشل میڈیا سے رجوع کرنے والے 26نومبر 2024ء کو اسلام آباد میں تحریک انصاف کے کارکنوں پر ریاستی تشدد کے بارے میں بھی بہت فکر مند ہیں۔ مجھے ملنے والوں کی اکثریت بضد رہی کہ اس روز مبینہ طورپر "براہ راست چلائی" گولیوں کے ذریعے "سینکڑوں لوگ" مارے گئے تھے۔
مزید بڑھنے سے قبل میں نہایت اخلاص سے اصرار کرنا چاہتا ہوں کہ میری دانست میں ریاستی جبر کے ہاتھوں ایک انسانی جان کا زیاں بھی قطعاََ ناقابل قبول ہے۔ اسے قبول کرنے کی عادت اپنالی ہوتی تو عمر کے آخری حصے میں رزق کمانے کے لئے صبح اٹھتے ہی یہ کالم لکھنے کی مشقت سے نجات پالیتا۔ بطور صحافی مگر آپ کو ٹھوس اعدادوشمار پر توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پیشہ وارانہ ذمہ داری کی وجہ سے لہٰذا یہ سوال اٹھانے کو مجبور ہوا کہ خیبرپختونخواہ کے منتخب وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے 26نومبر 2024ء کی رات اسلام آباد سے نکل جانے کے بعد صحافیوں سے پہلی بار جو گفتگو کی وہ پیمرا کے لائسنس کے تحت چلائے تمام ٹی وی چینلوں پر براہ راست دکھائی گئی تھی۔
اس پریس کانفرنس میں گنڈاپور نے "سینکڑوں" کارکنوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا۔ مذکورہ دعویٰ کے بعد ان کا یہ سیاسی اور اخلاقی فرض تھا کہ وہ اسلام آباد میں مبینہ طورپر "براہ راست چلائی" گولیوں کے ذریعے جاں بحق ہوئے ایک ایک فرد کی نشاندہی کرتے۔ 26نومبر کو سب سے بڑا ہجوم ان کے صوبے سے آیا تھا۔ ملک کے دیگر حصوں سے بھی کارکن متاثر کن تعداد میں اسلام آباد داخل ہوگئے تھے۔ مان لیتے ہیں کہ اگر علی امین پنجاب، سندھ یا بلوچستان کی حکومتوں سے اپنے کارکنوں کے بارے میں تفصیلات کا تقاضہ کرتے تو شاید انہیں مناسب جواب فراہم نہ ہوتے۔
خیبرپختونخواہ سے اسلام آباد آکر جاں بحق ہوئے کارکنوں کی تفصیلات جمع کرنا ان کے لئے مگر ناممکن نہیں تھا۔ عرصہ ہوا عملی رپورٹنگ سے دست بردار ہوچکا ہوں۔ اس کے باوجود تحریک انصاف کے کئی دوستوں سے فریاد کرتا ر ہا کہ مجھے جاں بحق ہوئے کارکنان کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ میں انہیں ریگولر میڈیا پر بیان نہ کرپایا تب بھی کم از کم سوشل میڈیا پر کسی نہ کسی انداز میں ان تفصیلات کو اجاگر کرنے کی ہر ممکن کوشش کروں گا۔ میرے ساتھ وعدے ہوئے مگر ان پر کسی نے عمل کرنے کا تردد ہی نہ کیا۔
بارہا اس کالم میں اعتراف کیا ہے کہ صحافت اب اتنی آزاد نہیں رہی جتنی مثال کے طورپر آج سے دس برس قبل محسوس ہوئی تھی۔ یہ اعتراف کرنے کے بعد یہ سوال پوچھنا بھی میرا حق ہے کہ صحافت کی ساکھ کو تباہ کرنے میں کیا ان ہی لوگوں نے کلیدی کردار ادا نہیں کیا جو ان دنوں آزادی اظہار کے سب سے بڑے چمپئن بنے ہوئے ہیں۔ اپنی ذات کے ذکر سے اجتناب برتتے ہوئے میں کم از کم دس ایسے صحافیوں کے نام گنواسکتا ہوں جنہیں اپریل 2022ء سے قبل چند تلخ حقائق عیاں کرنے کی وجہ سے "غدار اور ملک دشمن" کہا جاتا تھا۔
غداری کی تہمتوں کے علاوہ میرے ان صحافی دوستوں کے نام لے کر ان کی ذاتی زندگیوں کو ایسے سکینڈل گھڑنے کیلئے استعمال کیا گیا جن کے ذکر سے گھن آتی ہے۔ ربّ کا شکرہے ان میں سے چند دوست "آزادی اظہار" کے نوزائیدہ مخافظوں کو ان دنوں "اچھے" لگنا شروع ہوگئے ہیں۔ میرے میں اب ہمت نہیں رہی۔ کوئی ضروری شے خریدنے کے لئے بازار جانا بھی عذاب محسوس ہوتا ہے وگرنہ ہاتھ پا?ں مارکر خود کو آزادی اظہار کے نوزائیدہ محافظوں کے لئے قابل قبول بنالیتا۔ بڑھاپے کے باوجود مگر لہروں کے برعکس تیرنے کا شوق ہے اور مقبولیت کی تمنا بطور صحافی ایک لمحے کو بھی کبھی محسوس نہ کی۔
حسبِ عادت اصل موضوع سے بھٹک گیا ہوں۔ کالم کی ابتداء میں آپ کو بتایا تھا کہ گزشتہ چھ ہفتوں سے شادی کی کئی تقریبات میں گیا اور وہاں موجود لوگوں کی بے پناہ اکثریت کو ملکی حالات کے بارے میں بہت متفکر پایا۔ 26نومبر 2024ء کا ذکر اتوار کی رات ہوئی شادی کی ایک تقریب میں بھی ہوا۔ گزشتہ کئی دنوں سے مگر ہمارے پاکستان کا ایک اور علاقہ پارا چنار بھی ہے۔ یہ وادی کر م میں واقع ہے۔ اس وادی کا بالائی حصہ تین اطراف سے افغانستان سے ملتا ہے۔
افغان علاقوں کے رہائشی مگر اپر کرم میں آباد لوگوں کے مسلک سے تعلق نہیں رکھتے۔ وہاں کے باسیوں کو پاکستان کے دیگر حصوں سے رابطہ برقرار رکھنے کے لئے فقط ایک سڑک میسر ہے جو کوہاٹ لے جاتی ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے یہ سڑک بند ہے۔ زمینوں کی ملکیت پر اس کے دائیں بائیں واقعہ علاقوں میں بے تحاشہ تنازعے کھڑے ہوگئے ہیں جو بتدریج مسلکی اختلاف کو وحشت خیز انداز میں اجاگر کرنا شروع ہوگئے۔ آخری بار میں نے جب اعلیٰ ترین سرکاری ذرائع سے رابطہ کیا تو مجھے بتایا گیا کہ دونوں فریقین کے مابین جاری جنگ کی وجہ سے 130افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ وادی کرم تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے رہائشی خود کو محصور محسوس کررہے ہیں۔
جدید ہتھیاروں کے استعمال کی بدولت تباہ ہوئے گھروں سے بے گھر ہوئے گھرانے معصوم بچوں سمیت سخت سردی کے اس موسم میں کھلے آسمان تلے کپکپارہے ہیں۔ آئین میں 18ویں ترمیم کے بعد امن وامان یقینی بنانا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے اور وادی کرم اب "قبائلی علاقہ" بھی نہیں رہا۔ صوبہ خیبرپختونخواہ میں ضم ہوچکا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ وہاں برپا قیامت کو روایتی میڈیا نے اگر "بکائو" یا "ڈرپوک" ہونے کی وجہ سے بیان نہیں کیا تو سوشل میڈیا پر اس کے بارے میں حق وصداقت کی آوازیں نہایت قلیل تعداد میں کیوں بلند ہورہی ہیں۔ پارا چنار اور وادی کرم یوٹیوب وغیرہ پر رش نہیں لیتے۔ اس وجہ سے وہاں برپا ہوئی قیامت ہمارے نہایت فکر مند وحساس متوسط شہری طبقے تک پہنچ نہیں پائی۔ 130سے زیادہ ہلاکتیں نظرانداز کردی گئی ہیں۔