Arif Iqbal Bhatti Aur Salman Taseer, Do Siasi Qatal
عارف اقبال بھٹی اور سلمان تاثیر، دو سیاسی قتل
سلمان تاثیر سابق گورنر پنجاب جنھیں ان کی حفاظت پر مامور ایلیٹ فورس کے اہلکار محمد ممتاز نے گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے یہ تیسرے ممتاز رہنماء تھے جنھیں توہین رسالت کے الزام کا سامنا کرنے والے شخص کے حق دفاع، اسے بلاسفیمی کا مرتکب نہ سمجھنے اور توہین کے مجوزہ قانون میں سقم پر بات کرنے پر گستاخ قرار دے کر قتل کیا گیا۔
پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے پہلے جس رہنماء کو بلاسفیمی کے الزام کے تحت قتل کیا گیا وہ سابق جسٹس لاہور ہائیکورٹ عارف اقبال بھٹی تھے۔ دوسرے سلمان تاثیر اور تیسرے ملک شہباز بھٹی تھے۔
سابق جسٹس لاہور ہائیکورٹ عارف اقبال بھٹی پاکستان پیپلزپارٹی کے نظریاتی کارکن تھے جنھوں نے جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف بطور طالب علم اور وکیل شاندار جدوجہد کی تھی اور پیپلزپارٹی لاہور کے رہنماء کے طور پر ابھرے۔ انھوں نے میاں نواز شریف کے مقابلے میں الیکشن لڑا اور وہ پیپلزپارٹی کے تگڑے امیدوار شمار ہوتے تھے۔ اپنے حلقہ انتخاب میں وہ محنت کشوں، سفید پوش اور اقلیتی ووٹرز میں مقبول عوامی لیڈر سمجھے جاتے تھے۔
دو مسیحی افراد رحمت پرویز مسیح اور سلامت مسیح جو ان پڑھ خاکروب تھے پر پرچیوں پر گستاخانہ عبارت لکھ کر مسجد کے سامنے پھینکنے کا الزام لگایا گیا تھا اور مقدمے کا مدعی مسجد کا امام تھا۔ انھیں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاہور نے فروری 1995ء کے پہلے ہفتے میں سزائے موت سنائی۔ اس فیصلے کے خلاف دونوں ملزمان نے لاہور ہائیکورٹ میں عاصمہ جہانگیر کے ذریعے اپیل دائر کی۔ اس اپیل کی سماعت کے لیے دو رکنی بنچ بنا جس نے 23 فروری 1995ء کو اس اپیل میں ملزمان پر لگے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے دونوں ملزمان کو مقدمے سے بری کردیا۔ دو رکنی بنچ نے اپنے فیصلے میں الزام کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دو سال تک اس مقدمے کو لیکر مذھبی تنظیموں نے کوئی بہت بڑا احتجاج منظم نہیں کیا تھا اور نہ ہی فوری طور پر دونوں ججوں کے لیے کوئی سیکورٹی خطرات پیدا ہوئے تھے۔ لیکن دو سال بعد 1997ء میں اچانک سے عارف اقبال بھٹی کے خلاف ایک مذموم پروپیگنڈا مہم شروع کردی گئی۔ اس مہم کا آغاز لاہور میں ان بریلوی علماء کی طرف سے شروع کیا گیا تھا جن کے شریف خاندان سے بہت گہرے روابط تھے اور انھیں شریف خاندان کی طرف سے بھاری مالی امداد کی جاتی تھی۔ عارف اقبال بھٹی عدلیہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ سے فعال سیاسی زندگی گزار رہے تھے اور نواز شریف کے لاہور سے حلقہ انتخاب میں پوری طرح سے سرگرم تھے۔ اس حلقہ انتخاب میں اندرون لاہور کے معروف علاقے شامل تھے اور ان میں گوالمنڈی بھی تھا جہاں عارف اقبال بھٹی کے زیر اثر پی پی پی کی بڑی حمایت موجود تھی۔
نواز شریف نہیں چاہتے تھے کہ عارف اقبال بھٹی ان کے حلقہ انتخاب میں اپنی سیاست کرتے رہیں۔ عارف اقبال بھٹی کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے انھوں نے لالچ اور مراعات سمیت ہر حربہ استعمال کرکے دیکھ لیا تھا لیکن وہ ان کے زیر دام نہ آئے۔ لاہور شہر میں اگر دیکھا جائے تو شریف خاندان کی اپوزیشن دھوم دھڑاکے سے کرنے اور انھیں چیلنج کرنے میں سب سے نمایاں پی پی پی میں جو لوگ تھے ان میں ایک عارف اقبال بھٹی تھے تو دوسرے سلمان تاثیر تھے جنھوں نے 88ء اور 90ء میں نواز لیگ کے خلاف صوبائی اپوزیشن کے قائد کے طور پر بہت نام کمایا تھ۔ سلمان تاثیر پر ایک جھوٹا مقدمہ بناکر انھیں تھانہ سبزہ زار میں انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اور ان کا کاروبار بھی تباہ کرنے کی بھرپور کوشش ہوئی تھی۔
عارف اقبال بھٹی کو ان کے ایک ایسے مقدمے کے فیصلے کو بہانہ بناکر ان کے چیمبر میں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا جو انھوں نے 2 سال قبل دیا تھا اور وہ فیصلہ انھوں نے اکیلے نہیں دیا تھا۔ ان کے ساتھی جج کو کسی طرح کے خطرے کا سامنا نہیں ہوا۔ ان کے قتل کا الزام اندرون لاہور شہر کے دو ایسے لوگوں پر لگا جو اپنے آپ کو سنی تحریک کا کارکن بتاتے تھے اور ان میں سے ایک کا خاندان نواز شریف کا ووٹر سپورٹر تھا۔
عارف اقبال بھٹی کے خلاف اس زمانے میں جن اخبارات نے اشتعال انگیز مہم چلائی ان میں روزنامہ نوائے وقت، روزنامہ پاکستان، روزنامہ خبریں لاہور بھی پیش پیش تھے اور ان کے مالکان اور ان دنوں شریف خاندان کے قریب سمجھے جانے والے گڑھی شاہو کے جامعہ نعیمیہ، جامعہ نظامیہ کی انتظامیہ بھی اس پروپیگنڈے میں پیش پیش تھے۔
حالات و واقعات بتا رہے تھے کہ جسٹس ر عارف اقبال بھٹی کے خلاف دو سال بعد بلاسفیمی کارڈ ایک ہلاکت انگیز سیاسی کارڈ تھا جو کھیلا گیا اور وہ 17 اکتوبر 1997ء کو اپنے چیمبر میں قتل کردیے گئے۔
عارف اقبال بھٹی کے قتل کی ایف آئی آر ان کے بیٹے علی عارف کی مدعیت میں درج کی گئی لیکن اس کیس کی ٹھیک تفتیش کے امکانات اس وقت بالکل معدوم تھے کیونکہ وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ نواز کی حکومت کا رویہ پی پی پی کی طرف انتہائی جارحانہ تھا اور نواز شریف کی انتقامی کاروائیاں اپنے عروج پر تھیں۔ پنجاب میں پی پی پی کے کارکنوں پر عرض حیات تنگ تھا۔ لاہور شہر کو پی پی پی کے وجود سے پاک کرنے کا پروگرام شروع تھا۔ پنجاب میں میاں شہباز شریف کو اس مقدمے کی صاف شفاف تفتیش سے کوئی غرض نہیں تھی اور نہ ہی مقدمے کے مدعی جو عارف اقبال کے بیٹے تھے ان کے خاندان اور ایسے ہی اس وقوعے کے دیگر دو انتہائی اہم چشم دید گواہوں کو بھی کسی قسم کا کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا تھا۔
پی پی پی کی اپنی قیادت معتوب تھی اور ان کے پاس جسٹس عارف اقبال بھٹی کو انصاف دلانے کے لیے کوئی راہ نہیں تھی۔ ممکن تھا کہ جسٹس عارف اقبال بھٹی کے بیٹے علی عارف بھٹی بھی قتل ہوجاتے تو وہ دیگر دو گواہوں سمیت ملک سے باہر چلے گئے اور پھر کبھی اس مقدمے کی پیروی نہیں کی گئی۔
سال 2012ء میں طویل التواء کے بعد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاہور کی عدالت میں یہ کیس اس وقت لگا جب اس کیس میں ایک ملزم نے اپنی ضمانت قبل از گرفتاری دائر کی جس کو عدالت نے منظور کرلیا اور عدالت کو بتایا گیا کہ اس کیس کے مدعی اور گواہ علی عارف سمیت کوئی گواہ عدالت میں بیان جمع کرانے کے کیے کئی سالوں سے پیش نہیں ہوئے اور علی عارف مدعی مقدمہ ملک سے باہر چلے گئے ہیں تو عدالت نے کیس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا۔
عارف اقبال بھٹی کو انسانی حقوق کی تنظیمیں، رضا کار، اس ملک کے محدود ترقی پسندوں نے بلاسفیمی کے مسائل کے تناظر میں لکھی گئی تحریروں میں تو یاد کیا لیکن رفتہ رفتہ پی پی پی کی مرکزی تنظیم و صوبائی تنظیم، قیادت انھیں فراموش کر بیٹھی۔ عرصہ دراز ہوگیا ان کی اکتوبر میں نہ تو برسی منائی جاتی ہے نہ ہی مرکزی اور صوبائی قیادت اس موقعے پر پریس میں بیانات جاری کرتی ہے اور نہ ہی کوئی تقریب ان کی یاد میں منعقد کی جاتی ہے۔
مجھے ہر سال اکتوبر 17 کی تاریخ کو عارف اقبال بھٹی کی یاد آتی ہے اور میں سوچتا ہوں کہ پی پی پی ان کے مقدمے میں بھی عدالت سے انصاف کرنے کا مطالبہ کرے گی۔ لیکن کچھ بھی لکھنے سے باز رہتا ہوں، کیوں؟ اس کا جواب نہیں دے پاؤں گا۔
لاہور میں سلمان تاثیر نے سرگرم اپوزیشن کا کردار اس وقت ختم کیا تھا جب پی پی پی کی پنجاب کی تنظیم میں انھیں کوئی فیصلہ کن ذمہ داری نہیں دی گئی اور لاہور کی تنظیموں کی تشکیل میں بھی ان سے مشاورت نہیں کی گئی۔
میں نے 2001ء میں ان سے ان کے گھر پر سینئر صحافی احمد بشیر کے توسط اور ان کی موجودگی میں ایک طویل ملاقات کی تھی جو تین گھنٹوں پر محیط تھی اور ان سے ان کے انتخابی سیاست سے پیچھے ہٹ جانے کے اسباب بارے بھی گفتگو کی تھی۔ انھوں نے بتایا تھا کہ پارٹی کے اندر ان کی کیسے حوصلہ شکنی کی گئی اور کیسے وہ مایوس ہوئے۔ اس دوران شریف خاندان نے کیسے ان کے کاروبار کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ کیسے پولیس، ریونیو ڈیپارٹمنٹ، انکم ٹیکس، ایف بی آر، وزرات تجارت سے انھیں تنگ کیا جاتا رہا اور وہ یہ سب برداشت کرکے لاہور میں نواز شریف کے خلاف اپوزیشن جاری رکھنے کو تیار تھے لیکن انھیں پارٹی کے اندر تنہائی کا سامنا کرنا پڑا تو انھوں نے اپنی ساری توجہ کاروبار بڑھانے پر مرکوز کردی۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ سلمان تاثیر لاہور کو بالخصوص اور پنجاب کو بالعموم تنگ نظری، بنیاد پرستی، فرقہ پرستی، جہاد ازم اور رجعت پرستی کے مرکز میں بدلتا دیکھ کر خاموش بیٹھنا چاہتے تھے۔ انھیں لاہور سمیت پنجاب کی اربن مڈل کلاس کی اکثریت میں مسلسل ترقی کرتی قدامت پرستی اور رجعت پرستی کے رجحان میں اضافے پر سخت تشویش تھی۔ وہ پنجاب میں حقیقی ترقی پسند روشن خیالی کی ثقافت کو پروان چڑھانا چاہتے تھے۔ وہ روشن خیال، ترقی پسند جمہوری لبرل بورژوا تھے اور اسی روشن خیال ترقی پسند بورژوازی لبرل ازم کو پروان چڑھانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے پروگریسو لبرٹی پبلیکیشنز لمیٹڈ کی طرز پر ایک میڈیا کمپنی بھی قائم کی تھی اور اس کے تحت انھوں نے پہلے انگریزی روزنامہ "ڈیلی ٹائمز " لاہور کا اجراء کیا پھر اردو روزنامہ آج کل لاہور کا اجراء کا کیا اور پھر بزنس پلس کے نام سے ایک ٹی وی چینل بھی شروع کیا۔ ان کا خواب تھا کہ ڈیلی ٹائمز اپنے وقت کا پاکستان ٹائمز بنے اور "آج کل " "امروز " بنے۔ میں روزنامہ آج کل لاہور سے بطور کالم نگار وابستہ ہوا تو میرے ساتھ ان کا موبائل فون پر رابطہ رہا کرتا تھا۔ جب وہ گورنر پنجاب بنے تو ان کے پی ایس او سرور سکھیرا ان سے میرے رابطے کا ذریعہ رہے۔
انھیں پنجاب یونیورسٹی سمیت پنجاب کی جامعات میں طلباء تنظیموں کو آزادی سے کام کرنے اور وہاں آزادی اظہار کی فضا کو پروان چڑھانے میں خصوصی دلچسپی تھی۔ وہ جامعات میں ادب، ڈرامہ، تھیڑ، ڈیبٹنگ سوسائٹیز کی ثقافت کا احیا چاہتے تھے۔ انھوں نے لاہور میں میلہ چراغاں کو دوبارہ زندہ کرنے اور بسنت کے تیوہار کو دوبارہ واپس لانے کی کوشش بھی کی۔ یہ بھی ان کے ترقی پسند روشن خیال بورژوازی لبرل وژن کا ایک حصہ تھا۔ میرے ہر کالم پر ان کا تبصرہ مجھے ایس ایم ایس میسج پر دوپہر ڈھائی بجے ملا کرتا تھا اور حوصلہ افزائی جاری رکھتے تھے۔
وہ انہی دنوں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ دوبارہ رابطے میں آئے تھے اور شہید بی بی نے انھیں دوبارہ سیاسی طور پہ متحرک ہونے کے لیے راضی کر لیا تھا۔ انہوں نے گورنر ہاؤس کے دروازے لاہور کے جیالوں کے لیے کھول دیے تھے اور گورنر ہاوس، ان کی ذاتی رہائش گاہ جیالوں کی پناہ گاہ بن گئی تھی۔
اگرچہ بے نظیر بھٹو کی شہادت ان کے لیے بہت بڑے دھچکے کا سبب بنی تھی اور اس کا اظہار بطور گورنر انھوں نے ایک انٹرویو کے دوران میرے سامنے کیا تھا۔ لیکن وہ پرامید تھے اور پی پی پی کا دور حکومت آتے ہی وہ سیاسی طور پر مکمل فعال ہوگئے تھے۔
گورنر ہاؤس میں ان کی سیاسی سرگرمیاں مسلم لیگ نواز اور اس کے قائدین کے لیے سخت پریشانی کا سبب بن رہی تھیں۔ لاہور میں پیپلزپارٹی ان کے ذریعے سے پھر گراونڈ میں پرفارم کرتی نظر آ رہی تھی۔ پھر اچانک سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر ان کی کردار کشی کی مہم چلنے لگی۔ انھیں اور اس کے خاندان کی پرائیویسی کو لیک کیا جانے لگا اور ان کی گھر کی خواتین کی پرسنل تصاویر بھی سوشل میڈیا پر لیک کی گئیں۔ انھیں مادر پدر آزاد خاندان کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔ لیکن اس سے بات بن نہیں رہی تھی۔ اسی دوران بھٹہ مزدور مسیحی خاتون آسیہ بی بی پر بلاسفیمی کا الزام لگا اور اسے جیل میں ڈال دیا گیا۔ اسے پہلے سیشن جج نے سزائے موت سنائی اور پھر ہائیکورٹ سے انھیں سزائے موت سنائی گئی اور جیل میں انھیں قید تنہائی میں ڈال دیا گیا۔ آسیہ بی بی کے حق میں کوئی سیاسی طاقتور آواز بلند نہیں ہو رہی تھی تو سلمان تاثیر نے اس کی آواز بننے کا فیصلہ کیا۔
پی پی پی میں اس وقت سلمان تاثیر اور ملک شہباز بھٹی دو ایسے طاقتور حکومتی عہدے دار تھے جن کی سیاسی آن بان تھی دونوں نے بلاسفیمی قوانین میں سقم کو دور کرنے اور اس کی تفتیش کے طریقہ کار پر اعتراض اٹھائے اور انھیں دور کرنے کے لیے ترمیمی بل لانے کا مطالبہ کیا۔
شریف خاندان نے ان کے اس موقف کو اپنے لیے بہترین موقعہ خیال کیا اور ان کے اس وقت کے حامی اینکرز، تجزیہ نگاروں، ٹی وی سیاسی شوز کے میزبانوں نے ان کے خلاف شدید پروپیگنڈا شروع کیا۔ شریف خاندان نے بریلوی، دیوبندی اور اہلحدیث فرقوں میں اپنی حمایتی تنظیموں اور ملاوں کو اس کے لیے خوب استعمال کیا۔ سلمان تاثیر کے خلاف سیاست کا وہی بدترین بلاسفیمی کارڈ استعمال کیا گیا جو انھوں سے پہلے کامیابی کے ساتھ عارف اقبال بھٹی کے خلاف استعمال کیا گیا تھا۔ سلمان تاثیر کے لیے ہانکا لگایا گیا اور سلمان تاثیر آسیہ بی بی کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے کرتے خود ہی گستاخ اور بلاسفیمی کے مرتکب قرار دے دیے گئے۔ پنجاب حکومت نے ان کے خلاف اس زہریلے پروپیگنڈا کو پھیلنے دیا اور تمام فرقوں کی نمائندہ سیاسی جماعتیں، فرقہ پرست اور عسکریت پسند تنظیمیں اور گلی محلے کی مساجد کے خطیب و ائمہ ان کے خلاف متحرک ہوئے اور مذھبی عوام میں ان کے گستاخ ہونے کا تاثر یقین میں بدلتا گیا۔
پی پی پی پی دفاعی پوزیشن پہ آگئی اور اس کے لیے سلمان تاثیر کے مسئلے پر بات کرنا دشوار ہوگیا۔ پنجاب حکومت نے جان بوجھ کر ان کے حفاظتی اقدامات میں سقم برقرار رکھے اور ایک ایسے شخص کو ان کے سیکورٹی اسکواڈ میں شامل رکھا گیا جسے انٹیلی جنس رپورٹوں میں پہلے ہی کسی وی آئی پی شخصیت کی سیکورٹی میں شامل نہ کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ ان کے اسکواڈ نے جس طرح سے ممتاز قادری کو ان پر اپنی گن کی ساری گولیاں برسانے موقعہ دیا اس سے صاف نظر آگیا تھا کہ ان اہلکاروں کو بھی سلمان تاثیر گستاخ ہی لگتے تھے۔ ان کے خلاف مسلم لیگ نواز کے امیدوار اسمبلی عباد ڈوگر نے ان کے قتل پر قاتل کو کروڑوں روپے دینے کا اعلان کیا لیکن پنجاب حکومت نے اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔ یوں سلمان تاثیر نواز لیگ کی بچھائی بساط پر مات کھا گئے اور اس نے لاہور اور پنجاب میں اپنے لیے سیاسی خطرہ بننے والے سیاست دان سے پیچھا چھڑا لیا۔
اس لیے میں عارف اقبال بھٹی، سلمان تاثیر کے قتل کو سیاسی قتل قرار دیتا ہوں اور اس کے پیچھے کسی نہ کسی سطح پر مسلم لیگ نواز اور شریف خاندان کا ہاتھ تھا۔