Maslay Ka Hal Kya Ho?
مسئلے کا حل کیا ہو؟

بلوچستان اسمبلی میں اس وقت جو سیاسی جماعتیں موجود ہیں ان میں اپوزیشن کی قریب قریب سب ہی جماعتوں اور حکمران اتحاد جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کئی ایک اراکین صوبائی اسمبلی نے اس مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ بلوچ اور پشتون قوم پرست سیاسی جماعتوں کی قیادت اے این پی کو چھوڑ کر سب نے پاکستان کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ بلوچ مسئلے کے سیاسی حل نہ نکلنے کی سب سے بڑی ذمہ دار ہے۔
بلوچستان میں چیف منسٹر رہنے والے ڈاکٹر عبدالمالک، سردار اختر مینگل نے الزام عائد کیا ہے کہ فوجی اسٹبلشمنٹ نے بلوچستان میں عوام کی اصل نمائندہ سیاسی جماعتوں کو دیوار سے لگایا اور ان کی طرف سے مسلح جدوجہد کرنے والی بلوچ تنظیموں سے بات چیت کو سبوتاژ کیا۔ مذاکرات کی حامی بلوچ سیاسی جماعتوں کو انتخابی انجنئیرنگ کے زریعے سے بلوچستان اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے سے روکا اور بلوچستان میں ایک ایسی حکومت تشکیل دی جس کی بلوچ عوام میں کوئی سیاسی ساکھ نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان کا موقف یہ ہے کہ بلوچستان میں ایک ڈمی صوبائی حکومت ہے جس کی ڈوریاں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہیں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ بلوچستان کے مسئلے کو سیاسی راستے سے حل کرنے کی بجائے ریاستی جبر اور طاقت سے اس مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے۔
اس موقف کے جواب میں بلوچستان کے چیف منسٹر میر سرفراز بگٹی نے بلوچستان اسمبلی کے فلور پر ایک تقریر کی جسے ہم فوجی اسٹیبلشمنٹ کا موقف قرار دے سکتے ہیں۔
میر سرفراز بگٹی نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ بلوچستان میں فوجی آپریشن ہمیشہ اس وقت شروع کیے گئے جب علیحدگی پسند مسلح عسکریت پسندوں نے سیاسی مذاکرات کرنے سے انکار کردیا اور مسلح کاروائیاں جاری رکھیں۔ ان کی تقریر کا لب لباب یہ تھا کہ بلوچستان میں مسلح جدوجہد کے پیچھے بلوچ عوام کا احساس محرومی نہیں ہے نہ ہی پاکستان کی ریاستی پالیسیاں ہیں بلکہ یہ بلوچ عسکریت پسندی ایک بیرونی سازش ہے اور مسلح عسکریت پسند بیرونی طاقتوں کی پراکسی/آلہ کار کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں جن سے نمٹنے کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے طاقت کا استعمال۔
چیف منسٹر بلوچستان نے اپنی تقریر میں اس سے بھی آگے جاکر یہ کہا کہ بلوچستان میں اس وقت انسانی حقوق کے نام پر یا سیاست کے نام پر جتنی بھی تنظیمیں سرگرم ہیں وہ دراصل علیحدگی پسند عسکریت پسندوں کا جعلی سیاسی چہرہ ہیں ان کا بہت واضح اشارہ بلوچ یک جہتی کمیٹی، اس کی قیادت اور ان کی حمایت کرنے والی بلوچ سیاسی جماعتوں کی طرف تھا۔
انھوں نے اپنی تقریر میں یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل اور ریاستی فورسز پر لگنے والے الزامات میں کوئی صداقت ہے۔
ان کی تقریر کو اگر ہم پاکستان کی سیکورٹی اسٹبلشمنٹ کا موقف قرار دیں تو صاف پتا چلتا ہے کہ سیکورٹی اسٹبلشمنٹ یہ ماننے سے انکاری ہے کہ بلوچ مسئلہ کوئی سیاسی مسئلہ ہے اور اس کا حل بھی سیاسی ہونا چاہیے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ پاکستان کی ریاست نے ابھی بلوچستان میں کوئی بھرپور طریقے سے جنگ شروع نہیں کی ہے۔ بین السطور انہوں نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ ریاست بلوچ یک جہتی کمیٹی جیسی تنظیموں اور افراد کو بھی پاکستان کی سلامتی کے خلاف ہونے والی مبینہ سازش کا نام نہاد سیاسی اور سماجی محاذ سمجھتے ہیں اور ان کی بیخ کنی کیے بغیر اس سازش کو ناکام بنانا مشکل ہے۔
سوشل میڈیا اور پاکستان کے مین سٹریم میڈیا پر سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے حامی سمجھے جانے والے افراد کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کی سیکورٹی اسٹبلشمنٹ کو چاہیے کہ وہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں سے نمٹنے کے لیے وہی حکمت عملی اپنائی جائے جو ترکی کی ریاست نے کردوں کے خلاف اپنائی ہوئی ہے یا پھر وہ کیا جائے جو اسرائیل نے غزہ کے ساتھ کیا ہے۔ کیا ہم اس کا مطلب یہ لیں کہ سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ میں ایک سوچ یہ پائی جا رہی ہے کہ اب تک سیکورٹی اپریٹس نے بلوچستان میں جو جنگی حکمت عملی اپنائی ہے جسے بلوچ قوم پرست بلوچوں کی نسلی صفائی اور نسل کشی سے تعبیر کرتے ہیں اسے اس سے کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر بروئے کار لایا جائے اور ہر اس بلوچ کو ملک دشمن قرار دے کر سخت ریاستی جبر اختیار کیا جائے جو بلوچستان میں طاقت کے استعمال کا مخالف ہے اور بلوچ مسئلے کی جڑ پاکستان کی ریاست کی بلوچستان کے حوالے سے اختیار کی جانے والی پالیسیوں کو قرار دیتا ہے۔
پاکستان کی حکمران اشرافیہ یہ ماننے کو تیار نہیں ہے کہ اس کا چین کے ساتھ جو سرمایہ کارانہ وینچر ہے جس کی سب سے بڑی نشانی سی پیک ہے اس میں کوئی خرابی نہیں ہے اور نہ ہی ریاست کا جو موجودہ سرمایہ کاری کا ماڈل اور طرز حکمرانی ہے وہ سامراجی، نو آبادیاتی طرز کا نہیں ہے۔ اس میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ وہ بلوچستان میں ترقی کا جو ریاستی ماڈل ہے اسے پاکستان کی ترقی کے لیے ناگزیر بلکہ پاکستان کی سلامتی کے لیے ناگزیر سمجھتی ہے اور اس کی مخالفت کو ملک دشمنی سے تعبیر کرتی ہے۔ اس ترقی کے ماڈل کے ہر مخالف کو چاہے وہ اس کی مخالفت مسلح جدوجہد کے زریعے کر رہا ہے یا پرامن سیاسی جدوجہد کی شکل میں کر رہا ہے اسے پاکستان کے مبینہ دشمنوں کی پراکسی اور آلہ کار سمجھتی ہے۔
پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ بلوچ قومی تحریک کے ہر اس سیکشن کو ملک دشمن سمجھتی ہے جو پاکستان کی ریاست کے سرمایہ کارانہ ترقی کے موجودہ ماڈل کو بلوچ قوم کو محکوم بنانے، اس کے وسائل پر قبضہ کرنے اور بلوچ قوم کو اقلیت میں بدلنے کا منصوبہ قرار دیتا ہے۔
سادہ لفظوں میں کہا جائے تو فوجی اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں بلوچستان میں چل رہے ترقیاتی پروجیکٹس کی مخالفت کرنے والوں سے جنگ کرنے اور فوجی آپریشن کو ہی واحد اور ممکن حل سمجھتی ہے اور اس کا خیال ہے کہ یہی حل بلوچ مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کرسکتا ہے۔

