Israeli Wakalat
اسرائیلی وکالت
بڑے بھائی آپ کی سوچ سے اسرائیلی وکالت کی بو آتی ہے۔ جب آپ اسرائیل کی آنکھ سے دنیا کو دیکھیں گے تو آپ کو ہر جگہ یہ مظلوم نظر آئیں گے پوری تاریخ میں ان پہ ظلم ڈھائے گئے۔ وہ ہر جگہ سے در بدر ہوئے۔ ہر طرف سے دھتکار ملی لیکن کیا کبھی سوچا کہ اہل یہود کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا رہا؟ کیا کوئی قوم بلا وجہ ان کا قتل عام کرے گی۔ انھیں ملک سے نکالے گی آخر کوئی تو گناہ کیا ہوگا۔ حضرت عیسیؑ کو صلیب پہ کس نے لٹکایا؟ مدینہ سے اگر اہلِ یہود کو نکالا گیا تو کیوں؟ ظاہر ہے ان کی سازشوں کی وجہ سے۔ غزوہ خندق کے وقت مسلمان بچوں اور عورتوں پر حملہ کس نے کیا جبکہ انھیں اہل یہود نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر مدینہ کے تحفظ کی قسم کھائی تھی۔ اس لیے میرے بڑے بھائی صرف اسرائیلی آنکھ سے نہیں انصاف پسندی کی آنکھ سے بھی اس دنیا کو دیکھو۔
637 میں جب مسلمانوں نے فاروق اعظم کے دور میں فلسطین فتح کیا۔ تب رومن گورنر نے یروشلم میں یہودیوں کے داخلے پہ پابندی عائد کی ہوئی تھی۔ ان کے ساتھ ثانوی سلوک کیا جاتا تھا۔ وہ دیوار گریہ کے پاس عبادت بھی نہیں کر سکتے تھے یعنی ان کی مقدس عبادت گاہ بھی چھین لی گئی تھی اور کسی یہودی کی جرات نہ تھی کہ علمِ بغاوت بلند کرے۔ سب ان احکامات کو تقدیر سمجھ کر تعمیل کر رہے تھے۔ فتح فلسطین کے بعد حضرت عمرؓ نے یہودیوں کے یروشلم داخلے پر پابندی ہٹا دی۔ انھیں ان کی عبادت گاہ بھی یعنی دیوارِ گریہ کے پاس عبادت کرنے کی اجازت بھی دے دی۔ یہ تھی مسلمانوں کی یہودیوں پہ احسان نوازی اور ان کے ساتھ رواداری۔ اس کے برعکس یہودی آج کل کیا کر رہے ہیں؟ مسلمان نمازیوں کے اوپر بم پھینک رہے ہیں۔ انہیں دورانِ نماز گولیوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ نماز پڑھتے ہوئے ان کی توہین کر رہے ہیں۔
جب 711 میں طارق بن زیاد نے سپین فتح کیا۔ اس وقت یورپ میں یہودیوں پہ ظلم ہو رہے تھے۔ انہی قتل کیا جا رہا تھا۔ ان کے گھر بار لوٹے جا رہے تھے۔ ان کی جائیدادیں ضبط کی جا رہی تھیں۔ جیسے ہی سپین میں مسلم حکمران آئے۔ تو یہودی پورے یورپ سے بھاگ بھاگ کر سپین آنے لگے۔ یہاں انہیں جانی و مالی نہ صرف تحفظ ملا بلکہ انہیں دربار کے اندر اہم عہدے بھی ملے پھر جب صلیبی جنگلوں کا آغاز ہوتا ہے۔ اس وقت عیسائیوں نے اہل یہود کو چن چن کر قتل کیا۔ ان کی بستیاں تباہ کر دیں۔ ان کی عورتوں کو اغوا کیا لیکن صلیبی جنگوں میں کہیں بھی مسلمانوں نے اہلِ یہود کو قتل نہیں کیا۔ بلکہ انہیں تحفظ فراہم کیا۔
پھر جب 1492 میں سپین سے مسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ ہوتا ہے تو مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ ہجرت کرنے پہ مجبور کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہودیوں کو بھی قتل کیا گیا اور یہودی بھی ہجرت کرنے پہ مجبور ہوئے یعنی جب تک مسلمان رہے اہل یہود بھی پرامن زندگی گزار رہے تھے لیکن مسلمانوں کے زوال کے ساتھ ساتھ ان کا زوال بھی شروع ہو جاتا ہے۔ ان پر یہ ظلم کرنے والے کون تھے؟ سپین سے انھیں کس نے نکالا؟ انہیں برطانیہ اور یورپ کے دوسرے حصوں سے کس نے نکالا۔ ظاہری بات ہے عیسائیوں نے۔ مسلمانوں نے تو انھیں پناہ دی تھی اور آج وہی مسلمان پناہ گزین بنے بیٹھے ہیں۔
آپ یورپی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں اہل یہود کے ساتھ عیسائی کتنا برا سلوک کرتے تھے۔ انہیں انسان بھی نہ سمجھتے تھے۔ ان کی توہین کے لیے ان کے گلے میں تختیاں لٹکائی جاتی تھیں۔ ان کے گھروں پہ خاص قسم کے نشان تھے تاکہ پہچان کی جا سکے یہ گھر یہودیوں کا ہے۔ ان کی بستیاں شہر سے دور آباد تھیں۔ جس دن عیسائیوں کا مذہبی تہوار ہوتا۔ یہودیوں پہ اس دن گھر سے باہر نکلنے پہ پابندی ہوتی تھی۔ یہ سارا ناروا سلوک، یہ ذلت، یہ اذیت یہودیوں نے عیسائیوں کے دیس میں اٹھائی لیکن کہیں بھی مسلمانوں نے ان کے ساتھ ایسا انسانیت سوز سلوک نہیں کیا۔ جب یہودی مسلمانوں کے زیر ماتحت آئے تو انھیں برابری کے حقوق ملے۔ ان کی عزت نفس بحال ہوئی۔ ان کے مذہبی مقامات کو تقدس ملا۔
عیسائیوں کی یہودیوں کے ساتھ دشمنی کی وجہ مذہبی ہے۔ پہلے یہود نے حضرت عیسیؑ کی مخالفت کی۔ انھیں نبی تسلیم نہیں کیا۔ انھیں اذیتیں اور تکالیف پہنچائیں حتی کہ سازشیں کرکے انہیں صلیب تک پہنچا دیا۔ اس لیے عیسائی یہودیوں کے ساتھ اتنا ناروا سلوک کرتے تھے۔ 1881 میں جب روس میں نسل کشی کا آغاز ہوا تو روس سے اہلِ یہود ہجرت کرنے پہ مجبور ہو گئے۔ تو کس نے انھیں قبول کیا۔ تب وہ فلسطین آئے۔ پناہ کی درخواست کی۔ فلسطینیوں نے بانہیں پھیلا کر انھیں پناہ دی۔ انہیں فلسطین میں رہنے کی جگہ دی اور آج وہی یہودی فلسطین کو اپنا وراثتی حق سمجھتے ہیں۔ مسلمان جنہوں نے انھیں پناہ دی۔ آج وہی مسلمان پناہ گزین ہے اور وہ مہاجر یہودی فلسطین کے اصلی باشندے بنے بیٹھے ہیں۔
آپ کے دعوے کے مطابق اسرائیلی ریاست کے پیچھے ہولو کاسٹ کا تصور ہے میرے بڑے بھائی ہولوکاسٹ تو دوسری جنگِ عظیم میں ہوا جبکہ اسرائیلی ریاست کا تصور تو نومبر 1917 میں بلفور ڈکلریشن میں پیش کر دیا گیا۔ یعنی ہولوکاسٹ کا تصور ابھی دور دور تک نہیں تھا جب صیہونی قوتیں فلسطینیوں سے ان کا آبائی وطن فلسطین چھیننے کا منصوبہ بنا چکی تھیں۔ جس میں برطانیہ ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار تھا۔ بعد میں ہولوکاسٹ کی وجہ سے اسرائیل نے پورے یورپ سے بہت ہمدردیاں سمیٹیں۔ اسرائیلی ریاست کے قیام کے سلسلے میں سن 1900 میں بھی سلطان عبدالحمید دوم کو آفر دی گئی تھی کہ اگر آپ ہماری بات مان لیں تو خلافتِ عثمانیہ کے سارے قرضے ہم اتار دیں گے لیکن انہوں نے نہ صرف سختی سے منع کر دیا بلکہ یہود یوں کے فلسطین داخلے پر بھی پابندی لگا دی تھی۔
بڑے بھائی حقائق بیان کریں۔ وکالت نہ کریں۔ ہولوکاسٹ ظلم تھا۔ کربلا ظلم تھا۔ جو آج غزہ میں ہو رہا ہے یہ بھی ظلم ہے۔ اگر اہلِ یہود اپنی نسل کے حوالے سے حساس ہیں تو کیا غزہ کی مائیں اپنی نسل کے حوالے سے حساس نہیں۔ اگر یہودیوں کو اپنی بقا کا حق ہے تو کیا فلسطینوں کو اپنی بقا کا حق نہیں؟