Yehudiyon Se Nafrat Kyun?
یہودیوں سے نفرت کیوں؟
جو پاکستانی کبھی بیرون ملک نہیں گئے، ان کا شاید ہی کبھی کسی یہودی سے واسطہ پڑا ہو۔ غیر ملکوں میں جن کا یہودیوں سے واسطہ پڑتا ہے، وہ بھی ان کی برائیاں نہیں بتاسکتے۔ اس کے باوجود عام پاکستانی کے دل میں یہودیوں کے لیے نفرت ہے۔ ماضی میں ان پر مظالم کی بات کی جائے تو کہا جاتا ہے، کوئی وجہ تو ہے کہ سب قومیں ان سے نفرت کرتی ہیں۔ انھوں نے کچھ تو کیا ہوگا۔ وہ یقیناََ برے ہوتے ہوں گے۔
تاریخ پڑھیں اور تجزیہ کریں تو اس نفرت کی وجوہات آسانی سے معلوم ہوجاتی ہیں۔ اکثر اس کا سبب مذہبی تعصب تھا۔ مسیحی سمجھتے تھے کہ یہودیوں نے حضرت عیسی کے قتل کی سازش کی۔ اس طرح ان کے دل میں نفرت بیٹھ گئی۔ یعنی چند افراد کے کام کی وجہ سے پوری قوم صدیوں تک نفرت کا شکار رہی۔
مسلمان بھی اس معاملے میں کم نہیں رہے۔ اسلامی تعلیمات میں یہود و نصاری کو دشمن بتایا گیا ہے۔ اگر ہوش مندی سے کام لیا جائے تو رسول اللہ ﷺ اور قرآن میں جن یہودیوں کی مذمت ہے، انھیں کسی خاص وقت اور خاص علاقے کا سمجھا جانا چاہیے۔ ایک مکمل قوم کو قیامت تک کے لیے ملعون قرار دینا عقل سے ماورا نظریہ ہوگا۔ ہر قوم میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں۔ کیا چند شرپسندوں کی وجہ سے پورے ملک اور پوری قوم کو دشمن کہنا مناسب کام ہے؟
اکثر دیکھا گیا ہے کہ اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی بقا کے لیے حساس ہونے کی وجہ سے زیادہ محنت کرتے ہیں اور زیادہ کامیابیاں حاصل کرتے ہیں۔ بیشتر یہودی ذہین ہوتے ہیں اور لکھنے پڑھنے، فنون لطیفہ اور سائنس و ٹیکنالوجی میں دوسروں سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ پیچھے رہ جانے والوں کے پاس ان سے نفرت کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
اسی طرح کی نفرت کا سامنا پاکستان، بلکہ دنیا کے ہر ملک میں اقلیتی آبادی کو کرنا پڑتا ہے۔
نازی جرمنی کا مسئلہ مذہب سے زیادہ نسلی افتخار کا تھا۔ وہ اپنے سماج کو بالکل پاک کرنے کے پاگل پن میں مبتلا ہوگئے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے صرف یہودیوں کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ خانہ بدوش روما کمیونٹی، کمیونسٹوں، معذور افراد، حد یہ کہ بزرگوں تک کو قتل کرنا شروع کردیا۔ یہودیوں کو لاکھوں کی تعداد میں قتل کرنے کی وجہ سے ان کا زیادہ ذکر کیا جاتا ہے اور کیا جانا بھی چاہیے، لیکن نازیوں نے دوسروں کے ساتھ بھی بہت برا سلوک کیا۔ ان کے بارے میں کم بات کی جاتی ہے۔ بھلا معذور جرمنوں نے کسی کا کیا بگاڑا ہوگا۔ ان کے واقعات سنیں گے تو رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔
ہم پاکستانی معاشرے کی تطہیر کے اقدامات اکثر دیکھتے رہتے ہیں۔ اس سے نازی جرمنی کے مکروہ چہرے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اب اسرائیل کا جائزہ لیتے ہیں۔ کیا وہاں سماج کی تطہیر کا عمل ہورہا ہے؟ اس کے لیے چند سوالات اور ان کے جوابات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا صرف یہودی اسرائیل کے شہری ہیں یا غیر یہودی، خاص طور پر مسلمان بھی ریاست کے مکمل شہری ہیں؟
جواب یہ ہے کہ بیس لاکھ سے زیادہ اسرائیلی عرب اسرائیل کے مکمل شہری ہیں۔ اس کی فوج تک میں شامل ہیں اور غزہ کی کارروائی میں شریک ہیں۔ اس کی پارلیمان کا حصہ ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں انھیں مکمکل حقوق حاصل ہیں۔
کیا اسرائیل نے مسجد اقصی پر قبضہ کر رکھا ہے اور مسلمانوں کو نماز سے روکتا ہے؟ کیا اپنی عبادت گاہوں کے لیے مساجد گرائی ہیں؟
جی نہیں، مسجد اقصی پر اسرائیل کا قبضہ نہیں ہے۔ اس کا انتظام اردن کی حکومت اور مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔ میں اسرائیل کے یہودی اکثریت کے علاقوں میں خود مساجد دیکھ کر اور اذانیں سن کر آیا ہوں۔ یروشلم کے یہودی کوارٹر میں سیناگوگ کے برابر میں مساجد موجود ہیں اور مسلمان ان میں نماز پڑھتے ہیں۔ اگر اسرائیل مسلمانوں کو ملک سے نکالنا چاہتا تو فلسطینیوں سے پہلے ان مسلمانوں کو نکالتا جو اس کے اپنے شہری ہیں۔ سماجی تطہیر کے لیے پہلے ان کے حقوق ختم کرتا۔
ایک بار پھر یاد دلانا چاہتا ہوں کہ آج جن علاقوں میں فلسطینی ریاست کے قیام پر اتفاق کیا گیا ہے، وہ 1967 تک مسلمان ملکوں کے زیر قبضہ تھے۔ غزہ پر مصر اور مغربی کنارے پر اردن کا قبضہ تھا۔ کیا کبھی آپ نے یہ جاننا چاہا کہ مصر اور اردن نے اپنے زیر انتظام علاقوں میں فلسطینی ریاست کیوں قائم نہیں کی۔ اس سے پہلے سلطنت عثمانیہ نے فلسطین کو آزادی کیوں نہیں دی۔ اس سے پہلے ایوبی، مملوکوں اور فاطمیوں نے فلسطین کو الگ ریاست کیوں نہیں بنایا۔
فلسطین کبھی بھی ایک الگ اور آزاد ملک نہیں رہا جبکہ پہلی اسرائیلی ریاست مسلمانوں کے نبی داودؑ نے تین ہزار سال پہلے قائم کی تھی۔