Monday, 06 January 2025
  1.  Home
  2. Hameed Ullah Bhatti
  3. Jagti Aankhon Se Khwab Dekhna

Jagti Aankhon Se Khwab Dekhna

جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنا

معاشی ماہرین تصورات میں گم نہیں رہتے بلکہ حقائق کے تناظرمیں ایسی جامع منصوبہ بندی کرتے ہیں جو معاشی نمو کاسبب بنے 1990تک پاکستان کی معیشت بھارت بہتر تھی یہاں تک کہ پاکستان سے آبادی میں سات جبکہ رقبے میں آٹھ گُنا بڑے ملک بھارت کے زرِ مبادلہ کے ذخائر اگر دوارب ڈالر تھے تو پاکستان کے پاس بھی اِتناہی زرِ مبادلہ موجود تھا پھربدقسمتی سے باری باری حکومت حاصل کرنے کا کھیل شروع ہو اجس سے ملک سیاسی عدمِ استحکام کا شکار ہوتا گیا اپوزیشن والے حکومت گرانے کے لیے دارالحکومت پر چڑھائی کرنے لگے اور حکمرانوں کی توجہ حکومت بچانے، مضبوط اورطویل مدت کے لیے برقراررکھنے پر رہنے لگی جس سے اِداروں کی کارکردگی متاثر ہوئی اور ملکی پیداوار میں اضافہ کرنے کی بجائے درآمدات سے کام چلایا جانے لگا نااہل حکومتوں نے بڑھتے خسارے کاحل یہ تلاش کیا کہ قرض لینے لگیں اِس طرح ملک قرضوں کی دلدل میں دھنتاچلا گیا۔

معاشی ترقی وعدوں، اشتہارات اور تقریروں سے ممکن نہیں بلکہ معیشت میں بہتر ی صنعتیں چلنے سے آتی ہے جبکہ صنعتوں کو خام مال فراہم کرنے کے لیے زرعی ترقی کی اپنی اہمیت ہے معدنیات کی تلاش کا طریقہ کار بنانا بھی ضروری ہے مگرصورتحال یہ ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں سے ملک نے کسی شعبے میں ترقی نہیں کی البتہ ہر شعبہ تنزلی کا شکار ہواہے جس کی ذمہ دار کوئی اور نہیں موجودہ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں ہیں جو اب معاشی ترقی کے وعدے کرتیں مہنگائی کم کرنے کے اشتہار شائع کرانے میں مصروف ہیں اور تقریروں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں کہ وہ ملک کے لیے ناگزیر ہیں یہ جھوٹ ایسی طفل تسلیاں ہیں جن پر اعتبار کرنا مزیدنقصان اُٹھانے کے مترادف ہے اُڑان پاکستان کے اہداف جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے والی بات ہے جن میں آئندہ پانچ برس کے دوران تیس ارب ڈالر کی ملکی برآمدات کوساٹھ ارب تک لے جانے کا ہدف مقررکیاگیاہے حالانکہ گزشتہ ایک دہائی پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تواِس دوران چوبیس ارب چھیالیس کروڑ ڈالر کی برآمدات محض ساڑھے تیس ارب ہوہی سکیں یہ اضافہ صرف چھ ارب ڈالر ہے اِس بناپربرآمدات میں سو فیصد اضافے کا ہدف حاصل کرنا ازحد مشکل کیا ناممکن سا لگتا ہے جب ملکی زراعت زوال پذیر اور صنعتیں بندہورہی ہیں اِن حالات میں برآمدی ہدف ساٹھ ارب ڈالر مقرر کرنے سے سیاسی قیادت کی صورت میں محض شیخ چلی کے زندہ ہونے کاتاثرپیداہواہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ تصورات میں گم رہنے کی بجائے حکمران معاشی ماہرین کی خدمات لیں اور پھر لائحہ عمل بنا کر عمل درآمدکو یقینی بنائیں تاکہ اہداف حاصل ہو سکیں۔

پاکستان کے پاس وسائل کی کمی نہیں چاروں موسم ہونے کی بناپر یہاں ہر قسم کی زراعت ممکن ہے زرعی مصنوعات کی فراوانی سے نہ صرف ملک خوراک میں خود کفالت حاصل کر سکتا ہے اور غربت میں کمی لائی جا سکتی ہے بلکہ برآمدات سے قیمتی زرِ مبادلہ کماسکتے ہیں علاوہ ازیں معدنیات تلاش کرنے پر توجہ مرکوزکریں تو صنعتوں کے لیے خام مال کی خرید پر صرف ہونے والا زرِ مبادلہ بھی بچایا جا سکتا ہے یہ نہیں کہ ملک میں ماہرین نایاب اور مہارت کا فقدان ہے ایسی کوئی بات نہیں البتہ دیانتدار، اہل اور باصلاحیت حکمرانوں کی کمی ضرورہے جب تصورات میں گم حکمران غیر حقیقی دعوے کرتے ہیں تو دل دُکھتا ہے کاش لفاظی سے کارکردگی ظاہر کرنے والوں سے کوئی گزشتہ تین دہائیوں کی کارگزاری دریافت کرے نیز شیخ چلی کی طرح غیرحقیقی دعوے کرنے والوں سے منصوبہ بندی کے متعلق پوچھے کہ وہ کون سے عوامل ہیں کہ تین دہائیوں سے زائد عرصہ کے دوران باری باری حکمران کیونکرمالدار اور ملک کیسے معاشی دلدل میں دھنستا گیا علاوہ ازیں مختلف اِداروں کے سربراہان امیر اور اِدارے کیسے خسارے کا شکار ہوتے گئے؟ یادرکھیں آزمائے کو مزید آزمانا دانشمندی نہیں حماقت ہے۔

قرضوں میں اضافے اور ملکی پیدوار میں کمی کی وجوہات واضح ہیں گھریلو استعمال کی اشیا سے لیکر پاکستان گندم اورخوردنی تیل تک درآمد کرنے پر مجبور ہے حالانکہ خوراک میں خود کفالت بہت آسان ہے بشرطیکہ ذرخیز کھیت اور مناسب موسم سے فائد ہ اُٹھایا جائے پاکستان میں چاول، پھل، سبزیاں، حلال گوشت اور مچھلی برآمدکرنے کی بہت صلاحیت ہے مگر ہاؤسنگ کالونیاں ہر سال لاکھوں ایکڑزرعی رقبہ کم کرتی جارہی ہیں جس سے خوراک میں خود کفالت کی منزل سے دورکرنے کااہم سبب ہے لیکن اِس حوالے سے حکومت کوئی ایسا لائحہ عمل نہیں بنا سکی کہ زرعی زمین کم ہونے کا سلسلہ ختم ہو نمک سمیت دیگر معدنیات سے فائدہ بھی نہیں اُٹھایا جارہا صرف شیخ چلی کی طرح جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھے جا رہے ہیں حالانکہ خسارہ کم کرناہے توزرعی رقبے میں اضافے کے ساتھ ملکی ساختہ اشیا کے استعمال کی حوصلہ افزائی ضروری ہے لیکن عوام اور حکمران دونوں ہی غیر ملکی اشیا پسند کرتے ہیں کچھ عرصہ سے اشرافیہ میں بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے دوران رہائشی اجازت نامے حاصل کرنے کا رجحان بڑھ گیاہے اعلٰی عہدوں پر براجمان ایک بڑی تعداد بیرونی شہریت رکھتی ہے ظاہر ہے جن کے مفاد بیرونِ ملک ہوں گے وہ پاکستان کا سوچنے کی بجائے اپنے آقاؤں کے مفاد کی ہی نگہبانی کریں گے ملازمت سے سبکدوش ہوتے ہی بیرونِ ملک جانے کی روایت بھی پختہ ہوچکی ہے کاش شیخ چلی کی طرح تصورات میں گم رہنے والے وعدوں اور تقریروں تک محدود رہنے کی بجائے اصل مسائل حل کرنے پر توجہ دیں۔

ملکی اِدارے خسار ے کا شکار ہیں ٹیکسٹائل کی صنعت الگ مسائل سے دوچار ہے مہنگی توانائی نے ہر شعبے پر منفی اثر ڈالا ہے کیونکہ پیداواری لاگت میں خوفناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے جو صنعتوں کی بندش کا بڑا سبب ہے ٹیکسٹائل صنعت سے وابستہ سرمایہ کارزرائع ابلاغ میں اعتراف کر چکے کہ گزشتہ ایک برس کے دوران اِس شعبے سے منسلک ستر لاکھ افراد بے روزگار ہو ئے ہیں اگر سستی توانائی فراہم کرنے اوروافر ہُنر مندافرادی قوت کا تعلیمی نظام تشکیل دے لیں تو ٹیکسٹائل صنعت میں اب بھی نمو کی وسیع استعداد ہے آئی ٹی کی برآمدات بڑھانے کی بھی صلاحیت ہے مگر حالات یہ ہیں کہ انٹرنیٹ سے منسلک شعبوں کو مسائل سے دوچار کرنے کی پالیسیاں بنائی جارہی ہیں انٹر نیٹ کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی اورعالمی گیٹ ویز تک رسائی میں دشواریاں دورکرنے سے یہ شعبہ بھی ایسے حیران کُن نتائج دے سکتا ہے جس سے برآمدی ہدف حاصل کرنے میں مدد ملے تیل درآمدات پر ہونے والے اخراجات میں کمی لانا بھی کوئی دشوار نہیں جب ساری دنیا زرائع آمدورفت کے حوالے سے ایسی ایجادات پر انحصار بڑھا رہی ہے جن میں تیل کی بجائے ماحول دوست توانائی استعمال ہو پاکستان توجہ دے تو تیل درآمدات میں کمی لاکر ملک کومعاشی خطرات سے نکالا جا سکتا ہے وسیع سمندر ی ساحل، بلند و بالا پہاڑ، اوردیگر سیاحتی مواقع آسان رسائی میں لاکر آمدن کے زرائع میں اضافہ کر سکتے ہیں مختصر بات یہ کہ خوراک سمیت ہر شعبے میں خود کفالت ہی معاشی مسائل کا حل ہے درآمدات میں کمی لانا ہے تو مقامی مال کی کھپت میں اضافہ کرناہوگا نیز پیداواری شعبہ کو سہولتیں دیے بغیربرآمدات میں سوفیصداضافے کا ہدف حاصل نہیں کیا جا سکتا صرف جامع منصوبہ بندی اور مستقل معاشی پالیسی سے بہتری لائی جا سکتی ہے شیخ چلی کی طرح تصورات میں گم رہ کرجاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے سے اہداف حاصل نہیں کیے جا سکتے۔

Check Also

Waldain Bachon Ke Khud Mahir e Nafsiyat Banen

By Raheel Qureshi