Noor Ki Barish Barasne Dain
نور کی بارش برسنے دیں
آپ سے بڑا کوئی بھاری پتھر ہو ہی نہیں سکتا۔ آپ ہی وہ پتھر ہیں جس نے روکا ہوا ہے تمام خوشیوں کو، آسائشوں کو۔ جس نے روکا ہوا ہے آسمان سے برسنے والی رحمتوں کو برسنے سے۔ جس نے روکا ہوا ہے کائنات کی ان طاقتوں کو جو قربان ہونے کے لیے صرف آپ کے ایک اشارے کی منتظر ہیں۔ آپ خود حائل ہیں اپنے اور اپنی کامیابیوں کے درمیان۔ اپنے اور اپنے ہستے مسکراتے مستقبل کے درمیان۔ اس لیے خود کو ہٹائیے درمیان سے اور نور کی بارش برسنے دیں۔
ہم جب یہ سوچتے ہیں کہ تمام راستے بند ہو گئے۔ ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں، نو مور آپشن، اس وقت دراصل ہم خود تمام راستوں کے دروازوں کو لاک لگا کے اپنے آپ کو کمرے میں بند کر لیتے ہیں کیونکہ ایسا پل کبھی کسی شخص کی زندگی میں نہیں آیا جب سارے دروازے بند ہو جائیں۔ ہاں مگر ہم خود تمام دروازے اپنے ہاتھ سے بند کرکے چابی دریا میں نہ پھینک دیں۔ ہم اپنی طبیعت کی سستی اور کام چو رویے کی وجہ سے اپنے آپ کو چار دیواری میں قید کر لیتے ہیں۔ ہم کام کرنے کے لیے ایک آئیڈیل سیچویشن سوچتے ہیں۔
ہم جب یہ رویہ اپناتے ہیں تو دراصل ہم کامیابی کے منہ پہ تھپڑ رسید کرتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ ہم کام تب کریں گے جب ایسا ماحول ہوگا۔ ہم تب پڑھیں گے جب ایک خاص قسم کا ماحول ہمیں میسر ہوگا۔ ہم وہ خاص ماحول پیدا کرنے کی بجائے اس کا انتظار کرتے ہیں۔ انتظار کی دہلیز پہ بیٹھے بیٹھے ہمارے سر کے بال سفید ہو جاتے ہیں۔ ہمارے جسم کے جوڑ ہل جاتے ہیں۔ آواز کپکپاہٹ کا شکار ہو جاتی ہے مگر وہ موقع نہیں آنا تھا۔ نہیں آیا۔ وہ موقع کہاں سے آتا کیونکہ ہم نے سارے دروازے، سارے سوراخ اچھی طرح بند کر دیے تھے جہاں سے اس موقع کے آنے کے امکانات تھے۔
وہ موقع بار بار آ کر ان دیواروں سے ٹکرایا مگر آپ نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونسی ہوئی تھیں۔ اس لیے آپ کو کوئی آواز سنائی نہیں دی۔ جب کبھی آپ اپنے آپ کو اس سیچوایشن سے نکال کر باہر لے آتے ہیں تو وہ موقع پھر بھی آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ وہ بار بار آپ کی آنکھوں کے آگے پیچھے رقص کرتا ہے اور آپ یا تو اسے پہچان نہیں پاتے یا پھر پہچانتے ہوئے منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں۔ اگر وہ موقع بار بار آپ کی آنکھوں سے ٹکرائے تو پھر آپ اپنی آنکھوں پہ پٹی باندھ لیتے ہیں مگر وہ موقع، وہ امید کا چھوٹا سا، ننھا سا جگنو، آپ کو بار بار ٓوازیں دینے لگتا ہے مگر ہم کیا کرتے ہیں۔ روئی اٹھاتے ہیں کانوں میں ٹھونس لیتے ہیں۔
ہم خود اپنے ہاتھوں اس موقع کا گلا گھونٹ دیتے ہیں جو آئیڈیل سچویشن، آئیڈیل انوائرمنٹ، آئیڈیل فیوچر، آئیڈیل لائف کی چابی ہوتا ہے۔ پھر وہ موقع ہماری زندگی سے نکل کر کہیں دور، صحراؤں میں، سمندر کی تہ میں، خود ہی آپنے آپ کو دفن کر لیتا ہے۔ تب ہم کاش کاش کرتے ہوئے سر دروازے پہ مار کر روتے ہیں۔ چیختے ہیں۔ دھاڑیں مارتے ہیں مگر وہ موقع مر چکا ہوتا ہے۔ اس وقت ہم پھر وہی غلطی کرتے ہیں۔ ہم اس وقت اس موقع کو تلاش کرتے ہیں جو ماضی کی ریت تلے دب چکا ہوتا ہے جبکہ اس وقت ہمارے سامنے اور کئی مواقع ہوتے ہیں جو ہمیں دیکھتے ہی ہماری طرف لپکتے ہیں مگر ہم پھر وہی سوچتے ہیں کہ نہیں نہیں ہمیں تو وہی موقع چاہیے جو گزر چکا ہے، جو مر چکا ہے۔
جو گزر گیا، وہ گزر گیا۔ ماضی کے پیٹ سے آج تک کوئی نہیں نکل سکا کیونکہ اس کا ہاضمہ بہت زبردست ہے اس لیے وہ مواقع جو گزر گئے ان کے لیے آنکھیں مت بھریں۔ نہیں تو آپ کو وہ مواقع دکھائی نہیں دیں گے جو آپ کے سامنے ناچ رہے ہیں۔ پکڑو انھیں۔ وہ چاہے جیسے بھی ہیں۔
ہر مسئلہ ہمارے لیے ایک موقع لے کر آتا ہے۔ جتنا بڑا مسئلہ ہوگا اتنے بڑا موقع میسر آئے گا۔ ہمارے تاریک راستے میں اگر روشنی کا ایک بلب ہے تو ہم اسے پھونک مار کے کیوں بجھائیں یا پھر ہم اس کی روشنی سے لطف اندوز ہونے کی بجائے اس کی طرف پیٹھ کرکے کیوں بیٹھیں۔ اگر ہم اس بلب کا بٹن آف کر دیں گے تو پھر شاید ساری عمر ہائے ھو کی آگ میں جلتے رہیں۔ ہمارے راستے میں جو ایک جگنو ہے، جو ایک لالٹین ہے، اسے مت بجھائیں۔ اس کی روشنی سے بھرپور فائدہ اٹھائیے۔ ممکن ہے یہ روشنی آپ کو سورج تک لے جانے میں مدد کرے یا پھر آگے چل کر خود ہی، یہ جگنو وہ سورج بن جائے، جس سے ہمارے دن رات چمک اٹھیں۔
تو آئیں پھر اس جگنو کو، اس موقع کو بوسہ دیں، اس کو سر آنکھوں پہ رکھیں، اس چھوٹے اور مختصر سے موقع میں ایسی آؤٹ سٹینڈنگ پرفارمنس دیں کہ یہ موقع یا جگنو ہمیں اس میدان میں لے جائے جہاں امیدوں کی کہکشائیں ہوں گیں۔ جہاں پھولوں کے وہ باغات ہوں گے جن کی خوشبوئیں ہماری روحوں کو معطر کریں گی، لیکن اگر ہم نے سوئچ آف کر دیا۔ پرفارمنس دینے کی بجائے سر گھٹنوں میں دبا لیا۔ اس موقع کو گلے لگانے کی بجائے، اسے پتھر مارے۔ تو پھر ہمارے پاس حالات اور قسمت کا رونا رونے کے علاوہ کچھ نہیں بچتا۔
جب ہمارے ارد گرد کے حالات اور قسمت موقع پہ موقع دے رہے ہوتے ہیں تب ہم گدھے کی طرح اسے ٹانگیں مارتے ہیں۔ جب وقت گزر جاتا ہے تب ہم چیتے کی رفتار سے موقع کے پیچھے بھاگتے ہیں مگر وہ ماضی کی خوراک بن جاتا ہے۔ جب موقع ماضی کے حلق میں اتر جائے پھر اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں نکال سکتی۔ ہاں یہ بات یاد رکھیں مواقع کبھی ختم نہیں ہوتے بشرطیکہ ہم راستے کا پتھر نہ بنیں۔ ایک کے بعد ایک موقع ہماری قسمت کی کھڑکی پہ دستک دیتا ہے۔ اچھا موقع بڑے مسئلے کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔
ہم مسائل کے انبار میں اتنے دبے ہوتے ہیں کہ ہم بھول جاتے ہیں کہ موقع تو خزانے کی چابی ہوتا ہے۔ ہم جب مسائل سے الجھ رہے ہوتے ہیں۔ دیواروں پہ سر مار رہے ہوتے ہیں۔ ٹھیک اسی لمحے مواقع بھی ہمیں قسمت کا سکندر بنانے کے لیے، ہمارے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہیں مگر ہم بازو جھٹک دیتے ہیں۔ جب قسمت چاہتی ہے کہ ہمیں مقدر کا سکندر بنائے تو مسائل کی چھابڑیاں ہماری طرف اچھال دیتی ہے۔ قسمت اپنے آپ کو ہمارے حوالے کرنے سے پہلے، ہماری صلاحیتوں کا مسائل کی شکل میں ٹیسٹ لیتی ہے اگر ہم اس ٹیسٹ میں سرخرو ہو جائیں تو پھر ہم قسمت کے رحم وکرم پر نہیں بلکہ تقدیر ہمارے ہماری انگلیوں کے اشارے پہ ناچتی ہے۔
اگر آپ مایوسی کے گٹر میں گر کر ڈھکن بند بھی کر لیں تو مواقع پھر بھی گٹر کے ڈھکن پہ دستک دیتے ہیں۔ مواقع ہمیشہ اپنا منہ آپ کی طرف تب موڑتے ہیں جب آپ گڑھوں، کھڈوں میں گرتے ہیں۔ اس لیے کبھی آنکھیں بند مت کریں۔ اتنے مایوس اور نا امید مت ہوں کہ سورج کی روشنی بھی دکھائی نہ دے۔