Markhor, Vego Aur Jahaz
مارخور، ویگو اور جہاز

گزشتہ چند دن اندرون کوئٹہ میں رہنے کا اتفاق ہوا۔ پہلے یہ بتا دوں کہ پہلے کوئٹہ میں صرف میر، ملک، خان ہوا کرتے تھے۔ چاہے وہ رکشہ چلاتے، روزانہ کرتے، سوکھی روٹی اور ٹین ڈبے بیچا کرتے یا پوٹھوہار جیپ میں موٹی سونے کی انگوٹھی پہن کر پیٹ سے اسٹیرنگ کنٹرول کرتے کیونکہ سائیکل یا موٹر سائیکل کے بعد جب اچانک سوزوکی کی پوٹھوہار جیپ ملے اور اس میں بھی جوڑ توڑ کرکے 1C کا ڈیزل انجن ڈالا جائے تو پھر میر معتبر موٹا تو ہوگا۔
اسی طرح سوزوکی بولان بھی مری آباد کا ایک نشان تھی۔ باقی جتنے عزت دار، خان، ملک، میر سردار تھے وہ جناح روڈ کے تھڑے پر چینکی چائے کی چسکیاں لیتے پائے جاتے۔ مگر ایک بات مشترک تھی۔ درد سب بانٹتے۔ کوئٹہ وہ واحد شہر میں نے دیکھا کہ جب کوئی دھماکہ ہوا۔ فائرنگ ہوئی یا حادثہ لوگ اس دور بھاگنے کی بجائے اس جانب بھاگے جہاں وقوعہ ہوا۔ کوئی خوف کسی چہرے پر نہیں تھا۔
اگر کوئٹہ شہر کے رہنے والے بندے کی شناخت کرنا ہوتی تو اس کی خوبصورت گہری اور روشن اور پرسکون آنکھیں سیکڑوں میں پہچانی جاتیں۔ پھر ہمیں پتہ چلا کہ کوئٹہ میں رہنے والے شمال اور جنوب میں تمام ملک دشمن، سرخے اور دوسرے ملکوں کے ایجنٹ ہیں اور مشرق و مغرب میں رہنے والے ناہنجار۔ پھر بس خون کی ہولی اس شہر میں شروع ہوگئی۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ شہر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سپرد کر دیا گیا۔ لمبے بوٹ، لمبی بندوق اور ہر بندے پر نظر۔
اس دور میں ایک لطیفہ مشہور ہوا۔ کہتے ہیں کوئی شخص ایک نامعلوم بس میں بیٹھ کر ایک شہر میں پہنچ گیا۔ بس رکی تو سب اتر گئے اس کی آنکھ کھلی تو دیکھا بس خالی ہے نیچے اترا تو شہر کی بڑی معروف سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر ایک دوست کو اپنے شہر فون کیا کہ یار میں ایک انجان شہر میں آگیا ہوں جس کو دیکھتا ہوں گریبان کھلا اور کھا جانے والی نظروں سے دیکھتا ہے بات کی ہمت نہیں پڑتی نجانے کونسا شہر ہے اس کے دوست نے کہا کوئی تو نشانی بتاو۔ اس نے کہا ہاں ایک چیز سب سے زیادہ ہے یہاں پر ہر موٹر سائیکل، ہر رکشہ اور ہر گاڑی پر "مارخور" کی تصویر بنی ہے اور گاڑی کی شیشے اتنے سیاہ ہیں کہ بعض اوقات ڈرائیور کو گردن باہر نکال کر راستہ دیکھنا پڑتا ہے۔
دوست نے قہقہہ لگایا۔ بولا ارے بھائی تم تو "کوئٹہ" میں ہو۔ یہاں آدھا شہر تخریب کار، ملک دشمن، غدار ہے باقی تمام خصوصی اداروں کے ایجنٹ ہیں۔ جن کی وجہ سے کالے شیشے انہیں میراث میں ملے ہیں اور "مارخور" اس خفیہ ایجنسی سے وابستگی ہے جس کے حقیقی بندے اپنی شناخت چھپاتے ہیں۔ لہذا سواری پر "مارخور" اور اندھے سیاہ شیشے لگانے کا مطلب اب اس علاقے کے آپ میر معتبر، ملک، خان نواب، سب کچھ ہیں بس صرف انسان ہیں یا نہیں اس کا علم نہیں۔
اس دور میں لوگ شہر کے وسط میں کسی اہم دفتر کے بلاوے پر تین چار دن پیچس اور ہیضے کا شکار ہو جایا کرتے۔ انہی دنوں رش اور ٹریفک کے بے ہنگم اور اژدہام کے باعث شہر میں اور ہیڈ برج (پل) بنانے کا ارادہ کیا گیا۔ کوئٹہ شہر کے لئے یہ ایسی سوغات تھی کہ PTV کوئٹہ نے بم دھماکے اور پلاننگ کے پس منظر پر ایک طویل ڈرامہ "پل" بنا دیا جسے بہت پذیرائی ملی۔ خیر یہی پل (اور ہیڈ بریج) کا گزر جب اس دفتر کے قریب سے ہونے کا نقشہ بنا تو ادارے حرکت میں آگئے اور "ویگو" والی سرکار نے کام رکوا دئے کہ سیکورٹی کے خدشات ہیں۔
کوئی بھی ملک دشمن ان پلوں پر سے تخریب کاری کر سکتا ہے اور یہ بات سچ بھی تھی ان دنوں شہر میں ایک دہشت اور خوف کی فضا تھی کچھ دہشت گردوں سے باقی جو حفاظت کرتے تھے۔ کالے، سنہرے، سفید رنگ کی vigo گاڑی خوف کی علامت تھی۔ خیر پھر جس کے پاس پیسہ آیا اس نے اپنی ویگو خرید لی اب کوئٹہ میں یا تو غیر قانونی رکشے بہت ہیں یا مارخور کا نشان لگی غیر قانونی Vigo، لیکن پھر مک مکا یہ ہوا کہ پل بننے چاہئے ضرور بننے چاہیئے لیکن ان پر"فینس" یعنی لوہے کی چار دیواری اس طرح لگائی جائے کہ پل سے نیچے دیکھنا آسان نہ ہو اور وہاں سے خصوصی اداروں، اسکول یا حکومتی تنصیبات کو نقصان نہ پہنچایا جا سکے۔ پھر یہ پل بن گئے ان پر لوہے کی فینس یا گرل یا چادریں لگا دی گئیں اور ٹریفک رواں دواں ہوگئی۔
اس مرتبہ مجھے جا کر یہ احساس ہوا ہے کہ کوئٹہ شہر میں نہ تو میر معتبر، خان نواب، سردار کا قبضہ ہے، نہ مارخور اورVigo والے شہر کو سنبھال رہے ہیں بلکہ وہاں پر شہر کے مشہور سیوریج نالے (جسے کسی زمانے میں حبیب نالہ) کہا جاتا تھا وہاں سے پیدا ہونے والے جہازوں کے کنٹرول میں ہے۔ حکومتی جہازوں نے انہیں اس نالے سے منتشر تو کر دیا ہے۔ مگر اب وہ ہر گلی، ہر محلے، ہر سڑک سے رات کو سریہ، لوہے کی چادریں، گیٹ، حتکہ اس مشہور پل پر لگی پروٹیکٹ کی چادریں جن سے ان اہم تنصیبات کو دشمن سے بچانا تھا انہیں جہاز لے اڑے ہیں۔
دن میں آپ کو شہر میں فاختہ کے رنگ کی ٹریفک پولیس صرف لوگوں سے بدتمیزی کرتے نظر آئے گی۔ کسی کالے شیشے کی بڑی گاڑی کو دیکھ کر یہ امن کی فاختائیں درختوں کو دیکھنا شروع کر دیتی ہیں۔ لیکن آدھ موئے موٹر سائیکل کو روکنا، اسے جرمانہ کرنا ان کے ایمانداری کی روزی کی دلیل ہے۔ رات اندھیرا ہوتے ہی۔ شہر پر جہازوں کا راج ہو جاتا ہے۔ چاہے بجلی کی تاریں ہوں، لوہے کی جالیاں ہوں، گٹر کے ڈھکنے ہوں یا گاڑیوں کی بیٹریاں، شیشے یا ٹائر سب ان کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ تمام پل بالچھر کا شکار ہو گئے ہیں جہاں گرل یوں لگتی ہے جیسے بندہ نیا نیا گنجا ہوا ہو اور کسی جگہ بال ہوں اور کہیں نہ ہوں۔
اب ائیر پورٹ روڈ پر بننے والے ایک بڑے پارک جس کے بعد سڑک ائیرپورٹ کی جانب مڑ جاتی ہے، کی گرل کو ان جہازوں نے فوکس کر لیا ہے۔ کیونکہ سریہ اب زیادہ مہنگا بکتا ہے۔ مجھے حیرت ہے۔ ہمارے خفیہ ادارے، انتہائی منظم پولیس جو کسی جگہ کو بھی سونگھ کر اندازہ لگا سکتی ہے کہ اسے پکڑنا ہے یا چھوڑنا۔ ان پر یہ جہاز کیسے حاوی ہو گئے ہیں اور شہر کے وہ کون سے لوہا خریدنے والے ہیں جہاں یہ تمام لوہا دیدہ دلیری سے بیچا جا رہا ہے اور نہ مارخور پہنچا ہے نہ ویگو پہنچی ہے اور نہ فلاں جگہ سونگھ کر چور پکڑنے والی مستعد پولیس سونگھ پائی تب مجھے اندازہ ہوا ایسے ہی نہی JF تھنڈر 17 مشہور جہاز ہے۔ یہاں تو مارخور پر گلیوں میں راج کرنے والے جہاز سبقت لے گئے ہیں۔ اس وقت کوئٹہ کے بے تاج بادشاہ یہ جہاز ہیں۔