Kharmang Ke Aasar e Qadeema (1)
کھرمنگ کے آثار قدیمہ (1)
سکردو کے مشرق میں واقع وادی کھرمنگ کو قلعوں کی بہتات کی وجہ سے ہی یہ نام جو دو لفظوں کا مرکب ہے پڑگیا، "کھر" یعنی قلعہ اور "منگ" بمعنی کثرت۔ کہا جاتا ہے کہ بلتستان کے نامور اور شیر دل شہنشاہ علی شیر خان انچن نے بیرونی حملہ آوروں کا راستہ روکنے کی خاطر اس علاقے میں متعدد قلعے بنوائے جس کی وجہ سے اس علاقے کا نام زیادہ قلعوں والا علاقہ یعنی " کھرمنگ" پڑگیا نہیں تو اس علاقے کا پرانا نام کرتخشہ ہے۔ ضلع کھرمنگ کا رقبہ پانچ ہزار پانچ سو کلومیٹر جبکہ ابادی ایک لاکھ سے اوپر ہے، سکردو کے مضافات میں سیرمیک نامی گاؤں سے شروع ہو کر کرگل بارڈر پر واقع گاؤں برولمو تک چونتیس مواضعات پہ مشتمل یہ علاقہ اپنی جھیلوں، سبزہ زاروں، آبشاروں اور قلعوں کی وجہ سے منفرد شناخت رکھتا ہے آئیے ہم یہاں کے آثار قدیمہ پر نظر ڈالتے ہیں۔
غبگیا کھری ستاغو
مہدی آباد میں واقع یہ دروازہ ماضی قریب تک موجود تھا۔
ایک مستند روایت کے مطابق بلتستان کے عظیم حکمران علی شیر خان انچن نے گاوں کی دفاع کو مستحکم بنانے کیلے موجودہ محلہ کھر کے مقام پر ایک مضبوط قلعہ بنا کر محلے کے ارد گرد حفاظتی دیوار تعمیر کرایا۔ اس دیوار کے ساتھ ایک بڑا داخلی دروازہ بھی افتادہ تھا۔ اسیے تاریخ میں غبگیا کھری ستاغو یعنی پانچ سو سپاہی والا قلعہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ درحقیقت اس قلعے کی حفاظت کیلے پانچ سو مسلح سپاہی ہمہ وقت تعینات رہتے تھے۔ یہ ستاغو (بڑا دروازہ) آج سے ایک عشرہ قبل بھی اپنی جگہ افتادہ تھا۔ یہاں کے لوگوں نے کسی عامل کے کہنے پر اس کو اکھاڑ کر پھنک دیا۔
بلتستان کے عظیم ثپوت علی شیر خان انچن ایک طرح زور بازو سے فتوحات پر فتوحات حاصل کرتے رہے۔ دوسری طرف مفتوحہ علاقوں اور اپنی پرانی ریاست کے دفاع سے بھی غافل نہیں رہے۔ انہوں نے اپنی ریاست کو کافرستان چترال سے لیکر نیپال کی سرحد تک یعنی پورانگ تبت تک وسیع کر دیا۔ دفاعی ضرورت کو مدنظر رکھ کر انہوں نے اپنی فوج کو جدید رموز سے ہم آہنگ کرایا۔ ریاست کے طول و عرض میں سرحدی مقامات پر حفاظتی دیوار تعمیر کی، اس کے علاوہ جگہ جگہ مضبوط قلعے بنواے۔ انہی قلعوں میں سے ایک قلعہ پرکوتا کے مقام پر قائم غبگیا کھری ستاغو بھی ہے۔
بدھا راک مہدی آباد
مہدی آباد ہی میں ایک چٹان پر بدھا بنا ہوا، بدھسٹ آثار بلتستان میں جا بجا بکھرے ہوئے جن میں زیادہ تر چٹانوں کو کھرچ کر بادشاہ کا دربار یا کوئی بھگوان بنایا ہوا ہے، کئئی مقامات پر مختلف نشانات یا جانور بنے ہوئے جو کوئی مذہبی سلوگن یا آنے والے لوگوں کے لئے کوئی اشارہ ہو سکتا ہے، مہدی آباد کھرمنگ میں بھی ایک چٹان پر کھرچ کر کوئی بادشاہ بنایا ہوا جو اب تک اچھی حالت میں ہے۔
کھری ڈونگ طولتی
ضلع کھرمنگ کے موجودہ صدر مقام طولتی کے جنوب کی طرف واقع پہاڑی پر پرانا قلعہ موجود ہے جسے کھری ڈونگ کہا جاتا ہے، اس کی مضبوط چاردیواری صدیاں گزرنے کے بعد بھی قائم ہے، قلعہ کی اندرونی دیواریں گر چکی ہیں مگر بنیادوں کے نشانات ابھی تک باقی ہیں، اتنے بڑے قلعے کا یہاں بنانا یقیناً اچھنبے کی بات ہے، کہا جاتا ہے کہ یہ قلعہ آٹھویں صدی عیسوی میں تبتی حکومت کا بنایا ہوا ہے، اسی پہاڑی کے آس پاس بدھسٹ دور کے نشانات بنے ہوے جو غالباً مذہبی سلوگن یا راستوں کی نشاندھی کے سنگ میل ہوں گے.
حیرت انگیز طور پر اسی پرانے قلعے کے قریب مختلف گھاٹیوں اور غاروں میں انسانی باقیات بھی دکھائی دیتا ہے، قلعے سے ذرا پرے سرنگ کے نشانات بھی ابھی تک موجود ہیں جو قلعے کا خفیہ راستہ رہا ہوگا، ماہرین آثار قدیمہ اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ پہاڑی ایک نو دریافت بر اعظم کی حیثیت رکھتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور غیر حکومتی تنظیمیں اس قلعے کی تاریخ پہ ریسرچ کرے اور ان ہڈیوں کے ضائع ہونے سے پہلے ان پہ بھی تحقیق کرے تو بہت کچھ حاصل ہو سکتا ہے، بلتستان میں جا بہ جا بدھ ازم اور بون مذہب کے اثرات بکھرے ہوے ہیں۔ انہیں محفوظ کرنا ہماری اولین ذمہ داری ہے۔
آستانہ سید زادہ طولتی
زمانہ قدیم میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ زمین سادات گھرانوں پر تنگ کی گئی، کسی کو دیوار میں زندہ چنا تو کتنوں کو سولی پہ چڑھایا، نہیں معلوم کتنے سیدوں نے زندان آباد کئیے تو کتنی وادیاں اور میدان ان کے مقدس خون سے رنگین ہوئے۔ سید زادوں نے جان بچا کے بھاگنے میں عافیت سمجھی اور جس کا جہاں بھاگنا ممکن ہوا وہ اسی سمت بھاگ نکلے، برصغیر پاک و ہند میں بھی شاید کوئی شہر ایسا ہو جہاں ان سید زادوں کے مزارات نہ ہوں، جہاں درگاہ نہ ہوں، بہت سارے سید زادوں نے کشمیر کا رخ کیا اور ان کے دشمن مختلف بھیس میں ان کے تعاقب میں کشمیر بھی پہنچے، وہی دور تھا کہ طولتی کھرمنگ میں کچھ لوگوں نے ایک لاش کو دریائے سندھ میں تیرتے دیکھا، لوگ ساحل پہ جمع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ لاش گمبہ گونڈ طولتی کے مقام پر ساحل سے جا لگی، لوگوں نے اسے نکال کے دیکھا تو ایک نورانی شکل وصورت کا وجہیہ مرد بزرگ تھا، غالباً جسم پہ موجود لباس سے انہیں پتا چلا کہ سادات گھرانے سے ان کا تعلق ہے اور کرگل کی جانب سے دریائے سندھ کی موجوں پہ سوار یہاں تک پہنچا ہے، لاش نکال کے غسل دیا، نماز جنازہ پڑھی اور لب دریا دفن کردیا، لوگ اس پہ فاتحہ خوانی کے لیے آنے لگے، منتیں پوری ہونے لگیں، کسی نے روایتی طرز تعمیر (ٹھٹھر) سے اس مزار پہ آستانہ بنایا، راجہ طولتی نے اس مزار کی دیکھ بھال اور چراغ جلانے کی ذمہ داری ایک خاندان کو دی اور اس مقصد کے لیے دس کنال سے زیادہ زرعی زمین وقف کردی۔ کہا جاتا ہے یہاں بے اولاد جوڑے یہاں آ کر منت مانگتے ہیں اور چراغ دھویں والی کالک تبرکاً ساتھ لے جاتے ہیں۔
بوتی چو کھر
گلگت بلتستان میں متعدد ایسی جگہیں ہیں جہاں بدھ مت کے آثار کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ بلتستان میں اسلام برصغیر کے دیگر علاقوں کی نسبت دیر سے پہنچا ہے۔ پندرھویں صدی عیسوی تک یہاں کے لوگ بدھ مت کے پیروکار تھے۔ یہ لداخیوں کی طرح بدھ مت کی شاخ لاما ازم کے پیروکار تھے جس کو تبتی بدھ ازم بھی کہا جاتا ہے۔
کھرمنگ کے موضع پاری میں یہ آثار قدرے بلندی پر "وے گو" کے مقام کے پاس موجود ہیں جس کو مقامی لوگ "بوتی چو کھر" کہتے ہیں، جس کے معنی ہوئے "بدھ راجہ کا قلعہ"۔ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ یہاں کسی زمانے میں بدھ راجہ کا قلعہ تھا۔ یقیناََ یہ اس زمانے کی بات پے جب یہاں بدھ مت کا عروج تھا۔ جب مسلمانوں نے حملہ کیا تو یہاں سے بدھ راجہ کی بہن یا بیٹی نے اس چٹان کے پیچھے کھائی میں چھلانگ لگا کر جان دے دی تاکہ مسلمانوں کے ہاتھوں بطور مال غنیمت نہ لگے اور اس کی عزت محفوظ رہے۔ چٹان پر قدیم زبان میں کچھ کندہ ہیں، ایسا لگتا ہے کہ یہ دیگر چٹانوں کی طرح ہے جہاں بدھ مت کی نشر و اشاعت کے لئے مخصوص منتر یا دعائیہ کلمے لکھے گئے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس چٹان پر مارخور بھی بنے ہوئے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ چٹان بہت قدیم ہے۔ یہ واضح ہوتا ہے کہ مختلف ادوار میں وقت کے ساتھ ساتھ یہ آثار مرتب ہوتے گئے۔
بعد میں جب یہاں کی زبان نے ترقی کی اور بدھ مت رائج ہوا تو تبتی رسم الخط میں یہاں بدھ منتر لکھا گیا۔ عین ممکن ہے کہ قریب ہی کوئی بدھ عبادتگاہ ہو جیسے کوئی گونپہ یا سٹوپا جہاں بھکشو ریاضت کرتے ہوں جس کے آثار اب نظر نہیں آتے۔ بدھ مت میں آبادی سے بلندی پر عبادت گاہ بنانے کا رواج ہے جہاں بھکشو دنیا کی لذات ترک کرکے عبادت و ریاضت کرتے تھے۔ اسلام کی آمد کے بعد شاید یہ مقامات مٹا دیے گئے لیکن چٹان پر موجود یہ عبارت بچ گئی ہو۔۔
کیساری ستاغو (کیسار کا دروازہ):
کیسر داستان بلتی اساطیر میں ایک اہم سینہ بہ سینہ دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس داستان کی مختلف زبانوں میں /علاقوں میں کچھ کمی بیشی کے ساتھ ایک سا مافوق الفطرت کردار کیسر ہی ہیرو ہے۔ تبت، سینٹرل ایشیا، چین اور بلتستان اس داستان کی سر زمین ہے۔ اس داستان میں خور یل کے بادشاہ کیسر کی بیوی ہلنو بڑوکمو کو فاتح قوموں کی دستور کے مطابق لونڈی بناکر خور یل لے جاتا ہے، اپنی وفادار اور خوبصورت بیوی کو خوریل کے بادشاہ کی قید سے چھڑانے کے لیے کیسر بھیس بدل کے خور یل کا سفر کرتا ہے، پھر ایک خفیہ منصوبے کے تحت اس بادشاہ پہ حملہ کرتا ہے جس میں اس کے تین پھوپھیاں جو مافوق الفطرت اور ان دیکھی طاقتوں کے حامل ہوتی ہیں، جن کا نام الی کرمان بتایا جاتا کیسر کا بھرپور ساتھ دیتی ہیں، ان طاقتوں کے بل بوتے پر کیسر بالآخر خوریل کے بادشاہ کو قتل کردیتا ہے، اس بہادر بادشاہ کیسر کے آثار بلتستان بھر میں موجود ہیں، کھرمنگ غندوس میں کیسری ستاغو (کیسر کا دروازہ) کیسری مرزن (کیسر کا مقامی کھانا) کیسری ٹھالو (کیسر کا آٹا گوندھنے والا برتن) اسی طرح سکردو کے مضافات میں نرو نامی گاؤں میں کیسر کا گھوڑا، اصطبل، خیمہ وغیرہ موجود ہیں، قیاس یہی کیا جاتا ہے کہ کیسر اسی گھاٹی میں روپوش ہوا۔
موضع غندوس میں نالہ گانچھے جانے والے راستے میں ایک پہاڑی دروازہ ہے جسے کیسار کا دروازہ (کیساری ستاغو) کہا جاتا ہے، اتفاق سے یہ دروازہ ایک ایسے مقام پہ ہے کہ دائیں جانب دیوہیکل چٹان، بائیں جانب لبمی چوڑی جھیل غوراشہ جبکہ اوپر ایک اور اور تکونی چٹان موجود ہے یوں اگر اس دروازے کو دیواریں چن کر یا کسی اور طریقے سے بند کیا جائے تو نالہ گانچھے کا راستہ ہی بند ہوتا ہے، اس کے علاؤہ اسی گاؤں غندوس میں شہ کرلسہ کے مقام پہ ایک پتھر موجود ہے جسے کیساری مرزن یعنی کیسار بادشاہ کا روایتی کھانا کہلاتا ہے، مرزن ایک مقامی کھانا ہے جو بک ویٹ یا جو کو حلوا کی طرح پکاتے ہیں پھر اسے تھالی پہ نکال کے اس کے درمیان کٹورے جیسا گڑھے بنا کر اسے خالص دیسی مکھن پگھلا کے بھر دیتے ہیں، کچھ کچھ علاقوں میں شہتوت کا رس جسے مقامی زبان میں خندہ کہلاتا ہے ملا دیتے ہیں، کہیں کہیں مکھن میں چینی بھی ملا دیتے ہیں، غور سے دیکھیں تو مکھن کے کٹورے کے گرد انگلیوں کے نشان تک واضح دکھائی دیتے ہیں جس سے لقمے بنائے ہوں گے۔۔
غندوس نالہ گانچھے میں پتھر کی مورتیاں
غندوس کهرمنگ سے براستہ نالہ گانچھے خپلو جانے کا راستہ ہے جو ماضی قریب تک استعمال میں تھا، اسی راستے پر غوراشی کے مقام سے ذرا آگے پہاڑ کے کھوہ میں پتھر کی کچھ مورتیاں موجود ہیں، مقامی زبان میں اسے کاچو نا اشچو یعنی راجہ رانی کہا جاتا ہے، لوک روایت کے مطابق یہ کسی شکست خورده باشاه کا خانواده تها جنہوں نے اس پہاڑی غار میں پناه لی تهی، تاہم فاتح افواج یہاں بھی تعاقب میں پہنچی تو ان خواتین نے دشمن کے ہاتھوں یرغمال هونے کے بجائے پتھر بننے کی دعا کی، خدا کی قدرت ان کی دعا قپول ہوئی اور یہ پورا خاندان پتھر کے مورتی بن گئے، دور بین سے دیکھوں تو چھ مورتیاں صاف دکھائی دیتے ہیں۔
کھرمنگ کھر
اس محل کی تعمیر میں جو لکڑیاں استعمال ہوئی ان کو پورے بارہ سال تک دھوپ میں رکھا تاکہ مکمل سوکھ کے فٹنگ میں آسانی ہو، 1840 کے سقوط بلتستان کے بعد ڈوگروں نے بلتستان بھر کے راجاؤں کے وہ محلات جو ٹیلوں پہ تھے کو سکیورٹی مدنظر سے ختم کروا کے ابادی میں محل تعمیر کرنے کا حکم دیا، یوں یہ خوبصورت محل دریائے سندھ کے کنارے تعمیر ہوئی جسے "کھرمنگ پیلس" کہا جاتا ہے، سکردو سے مشرق کی جانب سو کلومیٹر پہ کھرمنگ خاص کا علاقہ ہے جہاں محلہ سادات میں یہ محل صدیوں سے ایستادہ عظمت رفتہ کی کہانی سنا رہی، یہ محل کا وہ جگہ ہے جہاں دربار لگتا تھا، امرا و رؤسا دائیں بائیں جانب مخملیں فرش پہ اور راجہ کھرمنگ چبوترہ نما تخت پہ برا جمان ہوتے وہ سماں ہی کچھ اور ہوتا ہوگا، آنے والے تین مقامات پہ جھک کے فرشی سلام کرتے اور کونے میں دو زانو بیٹھ جاتے، راجہ کے مزاج کے مطابق دربار میں شعرا، قصیدہ خواں اور جگت باز اپنے فن کی نمائش کرتے، جبکہ اینگوت کھرمنگ کے پہلوان "ذکی" کو بھی ان کی ناقابل یقین حد تک جسمانی طاقت کی وجہ سے خصوصی پروٹوکول حاصل تھا، جبکہ ذاکرین اور مرثیہ خوانوں کو بھی خصوصی مقام حاصل تھا، اس دور کے نمایاں شعرا میں کاچو مراد خان غندوس کا نام آتا ہے۔
اگر شگر/خپلو کے محلوں کی طرح اسے بھی مرمت کرکے پبلک کے لیے کھول دیا جائے تو مجھے یقین ہے کہ یہ دربار اور اس کی بغل میں بنی بالکونی جہاں راجہ استراحت کے لیے جاتے ان کی خوبصورتی دیدنی ہوگی، اس بالکونی کا نقشہ، چھت پہ بنے بیل بوٹے اور پچی کاری و کشیدہ کاری انتہائی دیدہ زیب ہیں، ساتھ ہی ایک اور بالکونی ہے جس کی چھت پہ کشمیری ماہر کاریگروں نے انتہائی مہارت سے ایک چھوٹا سا بندر بنایا ہوا ہے، دستور یہ تھا کہ یہاں آنے والے مہمانوں کو راجہ چیلنج کرتا تھا کہ وہ ان بیل بوٹوں کی تصاویر میں بندر کو تلاش کریں جو کہ بہت مشکل کام تھا، اگر مہمان تلاش کرپاتے تو اسے انعام دیا جاتا اور اگر تلاش نہ کر پاتے تو اس پہ جرمانہ لگتا۔ محل میں کئی ایک چیزیں منفرد ہیں ان میں ایک ایسا لکڑی کا بیم بھی ہے جس کی لمبائی چالیس فٹ ہے اور اس میں کوئی جوڑ نہیں، نہیں معلوم چالیس فٹ لمبا اور ڈھائی فٹ چوڑا اس وزنی بیم کو دوسری منزل کی دیواروں کے اوپر فٹ کرنے والے لوگ کتنے طاقتور تھے!
اگر آپ کو تاریخ سے دلچسپی ہے اور آپ نے ابھی تک اس محل کو نہیں دیکھا تو یقین کریں خود پہ ظلم کیا ہے۔۔
مقبرہ ملا مہدی جواد بحرینی
1610 عیسوی کی بات ہے کہ فقیر منش عالم با عمل محمد جواد مہدی کی دروبشی اور کرامات کا شہرہ سکردو کے مضافات میں واقع کواردو نامی گاوں سے جب کھرمنگ پہنچا تو راجہ کھرمنگ ان کو سلام کرنے کواردو پہنچا اور حضرت جواد مہدی کو کھرمنگ آنے کی دعوت دی جو انہوں نے بخوشی قبول کر لیے۔ جس دن وہ کھرمنگ پہنچا اتفاق سے اس روز پولو میچ میں راجہ کی ٹیم جیت کے شادیانے بج رہے تھے۔ انہوں نے پوچھا یہ شور کیسا ہے جواب ملا حضور شغرن میں راجہ کی ٹیم پولو میچ جیت چکا ہے۔ پس انہوں نے شغرن سے گھوڑے کی باگ کھینچ لی اور واپس ہو لیے جب یہ لوگ غندوس پہنچے تب راجہ اور عمایدین گھوڑوں پہ سوار ان کو منانے آ گئے اور غندوس میں موجودہ رونگ رونگ زمبہ نامی پل پر راجہ صاحب نے ملا جواد مہدی کے پیروں پڑ کر معافی مانگ لی۔
راجہ صاحب کی آنکھوں میں ندامت کے آنسو دیکھ کر ملا مہدی کا دل پسیجا اور اس شرط پہ راجہ صاحب کے مہمان بننے پر راضی ہوے کہ جہاں شغرن (پولو گراؤنڈ) ہے وہاں امام بارگاہ تعمیر کرکے گرمیوں میں میدان کربلا میں گرمی کی شدت کا احساس کرتے ہوے مجالس شروع کردیں گے تا کہ کشمیر سے آنے والے مبلغین کے لیے بھی آمد و رفت میں مشکلات نہ ہو۔ جب یہ قافلہ موجودہ گونگمہ شغرن کھرمنگ پہنچا تو راجہ صاحب نے دست بستہ عرض کیا کہ یہ زمین ہماری ہے نیز کرابہ تھنگ اور دوسکر کی زمینیں بھی حاضر ہیں جہاں آپ حکم کرے امام بارگاہ تعمیر کرالیں گے۔ ملا مہدی جوادؒ نے فرمایا کہ میں اپنے گھوڑے کو دعا پڑھ کے دم کرا کے چھوڑ دیتا ہوں جہاں یہ گھوڑا اپنی جان دے وہیں امام بارگاہ بنا لیں یوں وہ گھوڑا ٹھیک اسی جگہ زمین پہ گرا جہاں آج شغرن امام بارگاہ ہے۔
یوں اس جگہ وادی کھرمنگ کا پہلا عزا خانہ تعمیر ہوا اور اسی سال اسد کے مہینے میں محلہ سادات میں تمثیلی انداز میں واقعہ کربلا کو پیش کیا جانے لگا جس میں کشمیری نوحے پڑھتے اور باقاعدہ خیمے سجا کے شام غریبان کے مصایب پیش کرتے اور عزادار امام مظلوم پر گریہ وزاری کرتے، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ وہ لمحہ انتہائی درد ناک ہوتا ہے جب شبیہ ذوالجناح کے جسم پر کئی تیر پیوست ہو کے، اس کا ز ین الٹ کر ہنہناتا ہوا خیمے کے قریب آتا ہے اور خیمے کے اندر موجود چھوٹے چھوٹے بچے سروں پہ خاک ڈالتے ہوے باہر نکل کو وا حسینا ع وا مظلوما کہتے ہوے ماتم کرتے ہیں۔ جہاں یہ تمثیلی مجلس ہوتی ہے وہیں قریب ہی ملا مہدی بحرینی کا مزار موجود ہے جو قدیم تبتی طرز تعمیر کا نمونہ ہے، چاروں جانب دیواریں لکڑی کے اینٹوں (ٹھاٹھیر) سے بنی ہے، دروازے پہ چوب کاری و کشیدہ کاری کے اعلی نمونے ہیں، چھت کچی تھی جسے چند سال قبل لوہے کی چادروں سے نو تعمیر کیا ہے۔
موئے مبارک
کھرمنگ خاص میں محلہ سادات کے نام سے چھوٹا سا گاؤں موجود ہے جسے زمانہ قدیم میں دارالخلافہ کی حیثیت حاصل تھی، اسی گاؤں میں ایک بلند ٹیلے پہ لب دریا قدیم قلعہ موجود تھا جسے بوتی کھر یعنی بودھوں کا قلعہ کہا جاتا ہے، اس نام سے ثابت ہوتا ہے کہ قبل از اسلام یہ قلعہ موجود تھا، اسی قلعے کے ساتھ انٹھوک کھر کے نام سے ایک اور رہایشی محل مقامی راجہ انٹھوک نے تعمیر کیا۔ 1653 عیسوی میں والئی کرتخشہ شیر شاہ نے اسی سے ملحق ایک اور محل بنام "سوما کھر" تعمیر کیا جس کی شہرت دور دور تک پھیلی، زمانے کے دستور کے مطابق مختلف علاقوں کے راجاؤں نے اپنی بساط کے مطابق تحفے تحائف اس نو تعمیر محل کی آرائش و زیبائش کے لیے بھجوا دئیے۔
کشمیر سے ایک فقیر پہنچا اور انہوں نے ایک شیشی میں سر بمہر موے مبارک لا کے تحفے میں دیا جس کے بارے میں فقیر کا یہ کہنا تھا کہ پیغمبر اسلام ﷺ کے مبارک داڈھی کے بال ہیں، شیرشاہ نے فوری طور پر ایک چاندی کی ڈبیا بنوا لیا اور اس ڈبیا میں شیشی کو رکھ کے اسے چھوٹے سے صندوق میں رکھ دیا اور اسے سر بمہر بند کردیا، اس چھوٹے سے صندوق کو ایک اور صندوق میں رکھ کے اسے بھی تالا لگوادیا اور اس صندوق کو کپڑے کے غلاف میں بند کرکے مسجد کے محراب میں رکھوا دی، یوں اس موئے مبارک کی زیارت کے لیے لوگ دور دور سے آنے لگے۔
1832 میں کھرمنگ کے راجہ علی شیر خان نے اولاد نہ ہونے پر سید حسین نامی شخص کی بیٹی سے دوسری شادی کی جو اس کے سسر جو اس کا سگا ماموں بھی تھا والئی سکردو احمد شاہ مقپون کو ناگوار گزرا اور احمد شاہ مقپون نے اپنے بیٹے راجہ مراد کو ایک لشکر کیساتھ اپنے داماد کو سبق سکھانے بھیج دیا جب یہ لشکر کھرمنگ کے نزدیک پہنچا تو راجہ کھرمنگ علی شیر خان بھاگ گیا یوں کئی دن تک راجہ مراد اسی قلعے میں ٹہرا اور موے مبارک والی مسجد کو بند کردیا، اسی دوران راجہ مراد شدید بیمار ہوا اور سکردو واپس ہو لیا، راستے میں ان کا انتقال ہوا تو اس کے لشکرکے لوگوں نے یہی سمجھا کہ چونکہ راجہ مراد نے موئے مبارک کو زیارات کے لیے بند کردیا تھا اسی وجہ سے یہ بیمار ہوکے جوانی میں انتقال کر گیا، یوں ایک بار پھر اس زیارت کی شہرت بلتستان کے گوشے گوشے میں پھیل گئی۔
2017 میں کچھ زائرین کی بے احتیاطی سے قدیم مسجد کو آگ لگی اور پوری مسجد جل کر راکھ ہوگئی مگر وہ صندوق معجزانہ طور پر محفوظ رہا، اگست 2017 میں راقم نے صندوق کو جس کا مہر دوران حادثہ ٹوٹ چکا تھا کھول کے دیکھا تو چاندی کی ڈبیا کے اندر ریشم کے ریشے بھرے ہوئے تھے اور شیشی ریشم کے ریشوں کے اندر دکھائی دے رہا تھا، شدید آگ میں جلنے کے باوجود ریشم کے ریشوں کا محفوظ رہنا حیران کن تھا، اسی جگہ راجہ خاندان نے مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا اور اس متبرک صندوق کو رکھوا دیا۔
علاقے میں یہ بات مشہور ہے کہ کسی کو اولاد نرینہ کی تمنا ہو تو وہ نیت کرتا ہے کہ اولاد نرینہ ہونے کی صورت میں مسجد کی زیارت ضرور کراؤں گا تو اسے اولاد نرینہ کی نعمت عطا ہوجاتا ہے، علاقے کے معمر بزرگ سید سید اکبر شاہ رضوی کہتے ہیں کہ سینکڑوں جوڑے ہیں جو اپنے نومولود بچوں کے ساتھ یہاں زیارت کے لیے پہنچے، جب بچے کے والدین یہاں پہنچتے ہیں تو باقاعدہ ایک مجلس بپا کرتے ہیں جس میں کشمیری زبان میں سوز خوانی ہوتی ہے، مجلس کے بعد سارے سید زادے قبلہ رو ہوکے ایک مخصوص دعا جسے شاہ ازکرم کہا جاتا ہے پڑھتے ہیں جو یقیناً بچے کی درازی عمر اور صحت و سلامتی کے لیے مانگی جاتی ہے، مجلس کے بعد تبرکات کو تقسیم کرتے ہیں اور تمام سادات عظام مسجد کے باہر جمع ہو کر بلند آواز سے پیغمبر اسلام اور ان کی آل پر درود و سلام پڑھتے ہیں جسے عرف عام میں "کہ بر حبیب " کہا جاتا ہے، یہ زیارت گاہ علاقے میں"علی آستانہ" کے نام سے مشہور ہے۔
جاری۔۔