Thursday, 02 January 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Manmohan Singh, Pakistan Mein Jaren Rakhne Wala Bharti Wazir e Azam

Manmohan Singh, Pakistan Mein Jaren Rakhne Wala Bharti Wazir e Azam

من موہن سنگھ، پاکستان میں جڑیں رکھنے والا بھارتی وزیراعظم

بھارت اور پاکستان کے باہمی تعلقات بے تحاشا وجوہات کی بنا پر ہمیشہ مخاصمانہ رہے ہیں۔ ابدی مخاصمت کے ہوتے ہوئے بھی کبھی کبھار ایسے مواقع آئے جہاں دونوں ممالک نے اپنی ثقافتوں کے مشترکہ عوامل کو اجاگر کرتے ہوئے دنیا کو حیران کردیا۔ حالیہ اولمپکس گیمز کے دوران پاکستانی نیزہ باز کی کامیابی کے بارے میں بھارتی نیزہ باز کی والدہ کا رویہ بھی ایسا ہی ایک واقعہ تھا۔

مخاصمت کے دور میں انسانی اقدار معدوم ہوجانے کی حقیقت کو میں نے ڈاکٹر من موہن سنگھ کی موت کے بعد شدت سے محسوس کیا۔ بھارتی سیاست کا دیرینہ طالب علم ہوتے ہوئے میں اصرار کرتا ہوں کہ موصوف واقعتا ایک تاریخ ساز شخصیت تھے۔ بھارت کو نہرو کے متعارف کردہ افسر شاہی راج سے نجات دلاکر جدید عالمی معیشت کا مؤثر کردار بنانے میں انھوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔

تاریخ کا جبر یہ بھی ہواکہ نہرو کی وراثت سے جان چھڑانے والے من موہن سنگھ ایک ٹیکنوکریٹ، تھے۔ اس معاشی ٹیکنوکریٹ کو مگر نہرو ہی کی جماعت یعنی کانگریس کے وزیر اعظم نرسمہا رائو نے 1991ء کے برس وزارت خزانہ کا مشیر اور بعدازاں بااختیار وزیر بنایا۔ یہ وہ سال تھا جب بھارت کو دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے اپنے خزانے میں جمع ہوا سونا بھی عالمی اداروں سے قرضہ حاصل کرنے کے لیے گروی رکھنا پڑا تھا۔ نرسمہا رائو کی حکومت قطعی اکثریت سے محروم تھی۔ اپنی بقاء کے لیے کئی جماعتوں کی حمایت کے حصول کے لیے مجبور تھی۔ ایسی کمزور حکومت کا غیر سیاسی وزیر ہوتے ہوئے بھی من موہن سنگھ نے نہایت لگن سے بھارتی معیشت کو پرمٹ راج، سے نجات دلوانے کے لیے نجی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے پائیدار ترقی کی راہ پر ڈال دیا۔

نرسمہا رائو حکومت کا خاتمہ ہوا تو اٹل بہاری واجپائی نے من موہن سنگھ کی متعارف کردہ اصلاحات کی بھرپور سرپرستی کرتے ہوئے بھارت کو India Shining(چمکتا بھارت) کی بڑھک لگانے کے قابل بنایا۔ یہ الگ بات ہے کہ مذکورہ نعرے کے باوجود وہ دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب نہ ہوئے۔ ان کے بعدمخلوط حکومتیں آئی اور جاتی رہیں۔ بھارتی سیاست کا وہ دور مگر اس کالم کا موضوع نہیں۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ کی موت کے بعد پاکستان اور بھارت کے بڑبولے تبصرہ نگاروں کی سردمہری ہے جو من موہن سنگھ کے بے تحاشا حوالوں سے تاریخ ساز کردار کا اعتراف کرنے میں ناکام رہی۔ مجھے شدت سے یہ احساس دلایا کہ دورِ حاضر ان کرشمہ ساز، سیاستدانوں کا غلام وگریدہ بن چکا ہے جو بقول حبیب جالبؔ علاجِ غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں۔۔

ڈاکٹر من موہن سنگھ میری دانست میں بھارت کے وہ آخری وزیر اعظم تھے جن کی جڑیں پاکستان کی زمین میں تھیں۔ اسی باعث وہ دونوں ملکوں کے مابین امن کی راہ نکالنے کے لیے خواہاں بھی تھے۔ من موہن سنگھ چکوال کے نواحی گائوں گاہ، میں میں پیدا ہوئے تھے۔ اسی گائوں کے سکول سے چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد مزید تعلیم کے حصول کے لیے چکوال شہر منتقل ہوگئے۔ اپنے آبائی گائوں کو وہ مرتے دم تک نہیں بھولے۔ بھارتی وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد وہاں موجود دو مسجدوں کے لیے سولر گیزروں کا بندوبست کیا اور پاکستانی حکومت سے درخواست کی کہ وہ لاہور- اسلام آباد موٹروے پر قائم بلکسر انٹرچینج سے ان کے گائوں تک دو رویہ سڑک بچھانے کا بندوبست کرے۔

2004ء کے برس پاک-بھارت تعلقات میں ایک نیا موڑ آیا۔ حکومتوں یا پاک-بھارت امن کی خواہاں این جی اوز کے مابین گفتگو کے بجائے کوشش ہوئی کہ دونوں ممالک کی حکمران جماعتوں کے مابین پالیسی ساز مکالمے اور ملاقاتیں ہوں۔ اسی خواہش کے تحت بھارت کی حکمران جماعت کانگریس نے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین کو ایک وفد لے کر پاکستان آنے کی دعوت دی۔

چودھری صاحب نے اپنا وفد تیار کرتے ہوئے مجھے اس میں شمولیت کو قائل کیا۔ ان کا خیال تھا کہ 1984ء سے بھارت کی سیاست پر نگاہ رکھنے کی وجہ سے میں انھیں کارآمد مشورے دے سکتا ہوں۔ میں نے یہ سوچتے ہوئے ہاں کردی کہ میرا نام جب صدر مشرف اور دیگر ایجنسیوں، کے ہاں جائے گا تو فراغت ہوجائے گی۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔ میرے ساتھ نسیم زہرہ بھی اس وفد میں شامل تھیں۔ ہم دونوں صحافیوں سے یہ وعدہ لیا گیا کہ ہم حکمران جماعت کے وفد کی بھارت کے سرکاری عہدے داروں سے ہوئی گفتگو کو رپورٹ نہیں کریں گے۔ ہم دونوں نے یہ عہد نبھایا۔

بھارت کی افسر شاہی مذکورہ وفد کی پذیرائی سے ناخوش تھی۔ اس میں دو صحافیوں کی شمولیت بھی ان کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ سیاسی قیادتیں مگر فیصلہ کرچکی تھیں۔ افسران بے بس ہوچکے تھے۔ دلی میں ہماری موجودگی کے دوران عین اسی دن جنوبی بھارت میں سونامی طوفان کا حملہ ہوا جب دوپہر کے کھانے سے قبل ہماری بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ سے ملاقات طے تھی۔ سرگوشیوں میں یہ تاثر پھیلایا گیا کہ شاید وزیر اعظم سے ہماری اس دن ملاقات نہ ہوپائے گی۔ اگر ہو بھی گئی تو محض تصویریں بنوانے تک محدود رہے گی۔ من موہن سنگھ کا دفتر مگر اس ملاقات پر ڈٹا رہا۔

سونامی سے نبردآزما ہونے کے لیے اس روز بھارتی کابینہ کا ہنگامی اجلاس ہورہا تھا۔ اس اجلاس کی صدارت کے فوراً بعد من موہن سنگھ ہمارے وفد سے ملنے آگئے۔ ان سے کشمیر سمیت بے تحاشا سوالات ہوئے۔ ان سب کا مختصرترین مگر جامع جواب موصوف نے چہرے پر مستقل سجی مسکراہٹ سے دیا۔ وفد میں شامل ہم دو صحافیوں کو سوالات کی اجازت نہیں تھی۔ فقط چودھری شجاعت حسین اور ان کے سیاسی ساتھی ہی ان سے گفتگو کے حق دار تھے۔

بطور صحافی مگر اس ملاقات کا نہایت غور سے مشاہدہ کرتے ہوئے میں نے یہ محسوس کیا کہ ڈاکٹر من موہن سنگھ کی دور اندیش سوچ متفکر ہے کہ پاکستان او بھارت موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے قحط سالی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ مذکورہ تناظر میں وہ مصر رہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے دریا، سوکھنے سے بچانا ہوں گے۔ اس کے لیے وہ خواہشمند تھے کہ ان دریائوں کو رواں رکھنے والے ہمالیہ کے گلیشیروں کے تحفظ کے لیے دونوں ممالک مشترکہ کاوشوں کی بابت سوچیں۔ اس کے علاوہ انھیں یہ خدشہ بھی لاحق تھا کہ بھارت یا پاکستان کی آئندہ حکومتیں سندھ طاس معاہدے کی نظرثانی پر اصرار کو مجبور ہوجائیں گی۔

متعدد بار انھوں نے چودھری شجاعت حسین کو براہِ راست مخاطب کرتے ہوئے سبزیوں اور دیگر غذائی اجناس کے لیے ایسے بیجوں کی دریافت یا تخلیق پر بھی زور دیا جو اس خطے کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے نمودار ہوتی قحط سالی سے بچاسکیں۔ میں حیران ہوا کہ ایک وزیر اعظم ماضی یا حال کا قیدی ہونے کے بجائے مستقبل پر نگاہ رکھے ہوئے ہے اور اس کی بدولت ابھرتے خطروں کی پیش بندی کی تیاری پر زور دے رہا ہے۔

اسی ملاقات کے دوران موصوف نے اردو کا وہ شعر بھی پڑھا جو لمحوں کی خطائوں کو صدیوں تک سزا کا حقدار ٹھہراتا ہے۔ ہماری حکمران جماعت کے وفد کی اکثریت مگر یہ جاننے کو بے چین تھی کہ چند ہی دنوں بعد پاکستان اور بھارت میں جو کرکٹ میچ دلی میں ہونا ہے اس میں شرکت کے لیے جب صدر مشرف وہاں جائیں گے تو بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ ان سے ملاقات کریں گے یا نہیں۔ من موہن سنگھ نے مہمانوں کی سواگت، والی روایت کا ذکر کیا اور وفد کی اکثریت خوش ہوگئی۔

پاکستان اور بھارت کے دریائوں کو رواں رکھنے والے گلیشیروں کی حفاظت، موسمیاتی تبدیلیوں سے نبردآزماہونے کے لیے نئے بیجوں کی تلاش اور سندھ طاس معاہدے کے مستقبل کی بابت من موہن سنگھ کے فکر مندانہ خیالات کے بارے میں ہمارے وفد میں سے ایک لمحے کو بھی سوچنے کا تردد ہی کسی نے نہیں کیا۔

2004ء میں ہوئی اس ملاقات کے دوران ہی مجھے یہ کھٹکا لگاکہ شاید بھارت مستقبل میں سندھ طاس معاہدے کی موجودہ شکل برقرار رکھنے سے اجتناب کی تیاری کررہا ہے۔ اپنے خدشے کا اظہار دیگر دوستوں سے کیا تو سب نے ورلڈ بینک کی جانب سے فراہم کردہ گارنٹی، کا ذکر کرتے ہوئے مجھے خاموش کروادیا۔ آج جب مودی حکومت کی جانب سے اکثر سندھ طاس معاہدے پر اعتراض سنتا ہوں تو مجھے مذکورہ ملاقات کا ایک ا یک لمحہ یاد آجاتا ہے۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Iss Aashiqui Mein Izzat e Sadat Bhi Gayi

By Muhammad Aamir Hussaini