Tajweed Aur Moseeqi
تجوید اور موسیقی
تجوید خاصا دلچسپ فن ہے، عربی حروف کی صوتی ادائیگی کا ٹھکانہ معلوم کرنے کو تجوید کہتے ہیں، یہ کوئی کلاسیک تعریف نہیں ہے، بلکہ الھدی انٹرنیشنل میں تجوید کی خاصی لمبی نشستیں بھگتنے کے بعد کا ماحصل ہے۔
میں اوائل عمری سے خاصا بے سرا واقع ہوا ہوں، کسی تال میل، کسی سر، خوش الحانی کی ہلکی سے رمق سے بھی حلق سے لے کر نرخرہ تک بنجر ہیں۔ مجھ جیسا صوتی مہارتوں سے محروم کہاں تجوید پڑھ پاتا، ع حلق کے وسط سے ادا ہونا ہے، غ صاحب حلق سے دو تین سینٹی میٹر اوپر سے برآمد ہوں گے، حلوے والی ح تالو کی جڑ سے جہاں سے حلق شروع ہوتا ہلکی سی آواز کی پچکاری سے سے نکل رہی ہے، سین، ص کو زبان اور دانتوں کے درمیان کبڈی کھیل کر ادا کرنا ہے اور سب سے دلچسپ تو ض کا مخرج ہے، جو تالو کو دھاڑ کے ساتھ چھبی ڈالنے سے ادا ہوتا ہے، اب مجھ جیسا جاہل مطلق جو یہاں کی لوکل زبان کے قیل ولہ کو قیلولہ کا صحیح تلفظ اس وقت سمجھتا تھا وہ کہاں بحیرہ عرب کی اس پار کے حجازی خطے کے مخارج کو جبڑوں کی خراد پر چڑھا پاتا۔
پورا سال لگ گیا، مگر میرا حلق بھی گاندھی جی کی سو دیشی تحریک کا پیرو بن گیا، گاندھی جی انگریز کی بنائی اشیاء کا بائیکاٹ کرنے کے لیے سودیشی تحریک شروع کی تھی، میرا اُردو زدہ حلق عربی مخارج کا بائیکاٹ کرنے پر تلا تھا، سو تجوید نہ آسکی تو نہ آسکی اور قرات میں تو اپنا حالَ لکھنؤ کی اس بے سری مغنیہ جیسا تھا جس کے جسمانی حسن کی تاب نہ لا کر بڑے بڑے نواب اپنے انگرکھے، اچکنیں اتار کے لٹو ہو جاتے، مگر آواز سن کر اسے ایسے دیکھتے جیسے مور اپنے پیروں کو دیکھتا ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ میرا ذوقِ سماعت بھی بے سرا ہے۔ قوالی سے لے کر ستار تک، جگجیت سے لے کر اے آر رحمان، آشا بھوسلے سے لے کر جیسمین سینڈلیس تک، فریڈی مرکری سے لے کر bellie elish، نصرت فتح علی خان سے لے کر سونو کمار، سب کی موسیقی کا ٹھرکی ہوں۔
نصرت صاحب سٹیج پر ہیں، ساتھ میں ان کے بھائی ہارمونیم بجاتے جارہے ہیں، ادھر ہی قوالوں کی منڈلی میں پہلی صف میں دائیں طرف سے دوسرے نمبر پر براجمان استاد مجاہد علی خان سرگم اور راگوں میں استاد کو لقمے دئیے جارہے ہیں۔ استاد نصرت تو استاد ہیں، وہ راگوں کی سرجری کر رہے ہیں، راگ الاپ الاپتے الاپتے یک دم راگ درباری پر آجاتے ہیں، وہاں سے وہاں سے یک دم کسی اور راگ پر اور پھر راگ ساگر کا وہ آتش فشاں پھٹ پڑتا ہے۔ سرگم کا ورد اس رفتار سے جاری ہو رہا ہے، تبلے کی تھاپ بھی راگ کو پکڑنے سے معذور ہو کر ہانپنے لگ جائیں۔
مُجھے مصر قاری عبد الباسط یاد آرہے ہیں، سرزمین نیل کی ایک مسحور کن آواز، جس میں سوز ہے، صحرا کی خشکی ہے، مزامیر داؤدی کی تری ہے، لحن ہے کہ جلترنگ گلے میں بج رہے ہیں۔ قاری صاحب کی قرات سنئیے، سورہ رحمان کی قرات ملاحظہ کیجیے، ایک ایک آیت کو کئی سروں سے پڑھ رہے ہیں، لذت لے لے کر ایک حرف کو ادا کرتے ہیں، آواز میں نغمگی دیکھئیے، مطلب کے ساتھ ساتھ آواز کے زیرو بم کو اوپر تلے کرتے جاتے ہیں، مگر حلق پر قابو اتنا ہے، ایک سانس میں کئی کئی آیات پڑھی جاتے ہیں، مگر روانی کہیں بھی نہیں لڑکھڑا رہی۔
قاری عبد الباسط کو جب سنتا ہوں تو مجھے اوپیرا یاد آ جاتا ہے۔ اوپیرا کو پہلی دفعہ مسٹر بین سیریز میں سنا تھا، مسٹر بین کے مزاحیہ کردار میں اوپیرا کا تڑکہ بہت چس دے رہا تھا۔ بعد ازاں اوپیرا کی کئی نشستوں میں سمع خراشی کی، یہ ایلیٹ کی موسیقی ہے، عوام پاپ میوزک سنتے ہیں، خواص اوپیرا ہاؤس کے reserved بالکونیوں میں بیٹھ کر اس ٹھندی موسیقی کا لطف اٹھاتے ہیں۔ اوپیرا کی نغمگی میں بیوگی کا دکھ ہے، پژمردگی کا سوز ہے، مگر یہی سوز، یہی سرد پن قاری عبد الباسط کی آوز میں ملتا ہے۔
مصریوں نے اپنے جد امجد فرعون جیسے آرٹسٹ کے جینز پائے ہیں، اس لیے اسلامی دنیا میں خاصے ماڈرن مصری ہی ہیں، اب داڑھی کو ہی دیکھ لیجیے، مولانا سعید دہلوی جب مصر گے، تو ان کی تھوڑی تلے اگی داڑھی کی دوکان دیکھ کر ایک مصری نے کہا، انت الیہود، مولانا سٹپٹا گے اور کہا میں مسلمان ہوں، مصری نے کہا "پر داڑھی تو آپ نے یہودیوں والی رکھی ہے"۔
مولانا جب جامعہ الازہر پہنچے، کیا دیکھتے ہیں، حدیث کی کلاس لینے والے شیخ الحدیث نے فرنچ کٹ رکھی ہے، ایک داڑھی منڈا فقہ حنفی کے نکات نہایت بلیغ عربی میں بیان کر رہا ہے۔ مولانا نے جب شیخ الازہر کو فضائلِ داڑھی پر لیکچر جھاڑا تو شیخ صاحب نے کوزے میں دریا بند کرتے ہوئے فرمایا "اوضاع ظاہر کا معاملہ امور شریعت میں نہیں آتا"۔
یہ تو مصری تھے، جو داڑھی کو عربی قبائلیت سے نکال لائے تھے۔ وہ قرات کو ماڈرن کرنے سے کہاں باز آتے۔ خدا بھلا کریں دیوبند کا، پہلے پہل انھوں نے مصری قاریوں کو پاکستان بلا کر محفل حسن قرات کرانے کی "صوتی بدعت" کا آغاز کیا تھا، خشک و بنجر دیوبندی ڈھانچے کو یہاں جمالیاتی کریڈٹ نہ دینا زیادتی ہوگی۔
ایک ایسی ہی محفل میں مصری قاری کو سننے کا اتفاق ہوا، پنڈال کچھا کھچ بھرا ہے، مصری قاریوں کو دیکھنے لیے عوام اس طرح امڈ پڑی ہے، جیسے چونٹیاں مصری کی ڈلی پر دھاوا بول دیتی ہیں۔
لمبا چوغہ، سر پر دو پلی ٹوپی، ہاتھ میں موٹے دانوں کی تسبیح پکڑے قاری صاحب برآمد ہو رہے ہیں، قہوے کی چار چسکیاں لیتے ہیں، قرات شروع کرتے ہیں۔ ایک ہی سانس میں کئی سر لگا کر پڑھی جاتے ہیں، ہر لہجے کو تبدیل کرتے وقت ہاتھ میں پکڑی تسبیح کو بھی گھماتے جاتے ہیں، مجمعے کو دیکھیے، سبحان اللہ، بارک اللہ، اللھم فزد کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔
لحن داؤدی کا کمال دیکھیے، قرآن میں جا بجا لکھا ہے کہ یہ وہ کتاب ہے وہ پچھلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے، پچھلی کتابوں میں زبور بھی تھی، زبور میں راگوں، سروں اور نغموں کے ساتھ خدا کی حمد کی تلقین کی گئی ہے، قرآن پچھلی کتابوں کے حقائق کے ساتھ ساتھ زبور جیسی صوتی شاہکار کی تصدیق سے کیسے پیچھے رہ سکتا تھا۔
ہمارے بریلوی تو سب سے زیادہ باذوق واقع ہوئے ہیں۔ اویس قادری، شاہد قادری سے لے کر ٹن ٹنا ٹن والے سنی تک خوش الحانوں کی پوری کھیپ ہے۔ آپ ان میں سے کسی کی محفل میں چلے جائیں آپ فرق نہیں کر پائیں گے آپ محفل میں آئے ہیں یا کنسرٹ میں، نعت خواں سٹیج پر کھڑا ہے، بیگ گراؤنڈ میں میوزک کی تین تہیں ہیں۔ ساتھ میں حق حق حق کے لقمے دینے والا ایک ہارمونیم نواز بھی ہے، جب نعت خوان پیک پر پہنچتا ہے تو نوٹوں کے بورے الٹتے جاتے ہیں۔ کیا ہی ذوق پایا ہے ہمارے بریلوی احباب نے۔
پھر نہ جانے کیوں موسیقی کو حرام کہتے جاتے ہیں۔ تجوید کیا، فن قرات کیا، فن نعت کیا ہر فن میں اس کی رمق موجود ہے۔ پھر بھی کہتے ہیں موسیقی روح کو مردہ کر دیتی ہے، آپ کے اندر روح نہیں بد روح ہے اگر وہ موسیقی سے مردہ ہوتی ہے۔ اگر موسیقی آپ پر اثر نہیں کرتی۔
مُجھے اس سے سلطان بہادر کا وہ طوطا یاد آگیا جس کا ذکر محمد حسین آزاد نے اپنی کتاب آب حیات میں کیا تھا، جب ہمایوں نے گجرات پر فوج کشی کی تو سلطان کا مصاحب رومی خان میر آتش ہمایوں سے مل گیا اور سلطان کو شکست ہوگی۔ مال غنیمت میں سلطان کا طوطا آیا تو اس نے ہمایوں کے دربار میں رومی خان کو دیکھ کر غصے سے کہا تھا "پاپی رومی خان نمک حرام"۔
آزاد نے طوطے کے جملے سے ہندوستان میں فارسی زبان کے اثرات کا استدلال لیا ہے کہ فارسی کا اہل ہند پر اتنا اثر تھا کہ انسان تو انسان طوطے بھی فارسی لفظ بولتے، جیسے نمک حرام۔
میں بھی سلطان کے طوطے کی طرح غزالی کے بیان کردہ اس عربی غلام کی حدی (تھکے ہارے اونٹوں کو تیز بھگانے کے لیے گایا جانے والا گیت) سے استدلال دوں گا جس نے اپنے گیتوں کے ذریعے سو اونٹوں کو اتنا بھگایا کہ وہ تھک چور کر مر گے تھے۔
مگر ہمارے ہاں کی بعض روحیں اتنی سنگلاخ ہیں، اس عربی غلام کی حدی بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اور وہ بدروحیں ہمیں بتاتی ہیں کہ "موسیقی سے روح مردہ ہو جاتی ہے"۔