Qalam Ka Sadqa
قلم کا صدقہ
کئی احباب پوچھتے ہیں، "حقانی یار، تم اتنا زیادہ کیوں لکھتے ہو؟ اور پھر ہر موضوع پر قلم اٹھاتے ہو؟ اس کی ضرورت بھی کیا ہے"۔
میرا جواب ہمیشہ سادہ اور مختصر ہوتا ہے: "یہ قلم کا صدقہ ہے"۔
اہل علم جانتے ہیں کہ یہ جملہ گہری بصیرت کا حامل ہے۔ اللہ نے مجھے فکر و نظر اور قلم و قرطاس کی تھوڑی سی صلاحیت سے نوازا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ صلاحیت میرے پاس محض میرے ذاتی فائدے کے لیے نہیں ہے۔ یہ ایک امانت ہے، جس کا حق یہ ہے کہ میں اسے دوسروں کے فائدے کے لیے استعمال کروں یعنی بہتری و اصلاح کے لئے مسلسل لکھتا رہوں۔
ہر شخص کا صدقہ مختلف ہو سکتا ہے۔ صدقہ صرف مال و دولت کا نام نہیں ہے۔ صدقہ ہر وہ چیز ہے جس سے کسی کی مدد کی جا سکتی ہو، کسی کا بھلا کیا جا سکتا ہو۔ مالدار لوگ اپنے مال سے صدقہ دیتے ہیں، لیکن جو لوگ علم، ہنر، یا کسی اور صلاحیت کے حامل ہیں، ان کا صدقہ وہی ہے۔
یہ قلم کا صدقہ ہے اور میں یہ صدقہ روزانہ اور جب جب موقع ملے کرتا رہتا۔
علم اور ہنر کا صدقہ سب سے قیمتی ہے کیونکہ یہ ایک ایسا تحفہ ہے جو دوسروں کی زندگی بدل سکتا ہے۔ ایک کتاب یا مضمون، کالم یا پوسٹ کسی کے دل میں امید جگا سکتا ہے، راستہ دکھا سکتا ہے، یا کسی کو زندگی کے چیلنجز کا سامنا کرنے کا حوصلہ دے سکتا ہے۔ علم و ہنر کا صدقہ نہ صرف کسی فرد کی مدد کرتا ہے بلکہ معاشرے کی تعمیر میں بھی حصہ ڈالتا ہے۔
صحیح بخاری میں ہے:
عَنُ أَبِي هُرَيُرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنُهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "كُلُّ سُلَامَى مِنَ النَّاسِ عَلَيُهِ صَدَقَةٌ، كُلَّ يَوُمٍ تَطُلُعُ فِيهِ الشَّمُسُ: تَعُدِلُ بَيُنَ الِاثُنَيُنِ صَدَقَةٌ، وَتُعِينُ الرَّجُلَ فِي دَابَّتِهِ فَتَحُمِلُهُ عَلَيُهَا أَوُ تَرُفَعُ لَهُ عَلَيُهَا مَتَاعَهُ صَدَقَةٌ، وَالُكَلِمَةُ الطَّيِّبَةُ صَدَقَةٌ، وَبِكُلِّ خَطُوَةٍ تَمُشِيهَا إِلَى الصَّلَاةِ صَدَقَةٌ، وَتُمِيطُ الُأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ صَدَقَةٌ"۔ (صحیح بخاری: 2989، صحیح مسلم: 1009)
ترجمہ: رسول کریم ﷺ نے فرمایا "انسان کے ہر ایک جوڑ پر صدقہ لازم ہوتا ہے۔ ہر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے۔ پھر اگر وہ انسانوں کے درمیان انصاف کرے تو یہ بھی ایک صدقہ ہے اور کسی کو سواری کے معاملے میں اگر مدد پہنچائے، اس طرح پر کہ اسے اس پر سوار کرائے یا اس کا سامان اٹھا کر رکھ دے تو یہ بھی ایک صدقہ ہے اور اچھی بات منہ سے نکالنا بھی ایک صدقہ ہے اور ہر قدم جو نماز کے لیے اٹھتا ہے وہ بھی صدقہ ہے اور اگر کوئی راستے سے کسی تکلیف دینے والی چیز کو ہٹا دے تو یہ بھی ایک صدقہ ہے"۔
اس حدیث کی روشنی میں صدقے کا وسیع مفہوم مترشح ہوتا ہے
1۔ صدقہ صرف مال دینے تک محدود نہیں، ہر علم، ہنر اور مہارت کو دوسروں تک پہنچانا بھی صدقہ ہے، کیونکہ یہ انسانیت کی خدمت اور اللہ کی رضا کا ذریعہ بنتا ہے۔
2۔ جو ہنر آپ کو عطا ہوا ہے، اگر آپ کسی کی مدد کے لیے اسے استعمال کرتے ہیں، تو یہ عمل صدقہ کے درجے میں شامل ہے، چاہے وہ ایک معمولی مشورہ دینا ہی کیوں نہ ہو۔
3۔ اپنے علم کو چھپانے کے بجائے اسے دوسروں کے فائدے کے لیے پیش کرنا صدقہ جاریہ ہے، جو نہ صرف دوسروں کی زندگیوں میں روشنی لاتا ہے بلکہ آخرت میں بھی نفع بخشتا ہے۔
4۔ ہر مہارت، چاہے وہ لکھنے کی ہو، پڑھانے کی ہو، یا کسی کی راہنمائی کرنے کی، جب دوسروں کی بھلائی کے لیے استعمال ہو، تو یہ صدقہ کی اعلیٰ ترین شکل ہے۔
5۔ صدقہ صرف دینا نہیں، بانٹنا ہے، آپ کی مہارت، وقت اور علم کا ایک حصہ کسی ضرورت مند کو دینا، آپ کی زندگی کو اللہ کے قریب اور انسانیت کے لیے فائدہ مند بناتا ہے۔
6۔ جس طرح پیسہ خرچ کرکے دوسروں کی مدد کی جاتی ہے، اسی طرح کسی کو تعلیم دینا، سکھانا، یا ہنر مند بنانا صدقہ ہے، جو ہمیشہ قائم رہنے والا عمل ہے۔
7۔ علم اور ہنر کی شراکت دوسروں کے لیے امید اور ترقی کا ذریعہ بن سکتی ہے اور یہی صدقہ کی روح ہے کہ دوسروں کی زندگیوں میں آسانی پیدا کی جائے۔
ہم سب کے پاس کوئی نہ کوئی صلاحیت ہوتی ہے۔ کچھ لوگ اچھے مقرر ہیں، کچھ مصور ہیں، کچھ لکھاری ہیں، کچھ اچھے ترکھان ہوتے ہیں، کچھ ماہر معالج اور طبیب، یہاں تک کہ کچھ باکمال ڈرائیور اور کچھ اپنی ذہانت سے لوگوں کے مسائل حل کرنے والے اور دسویں بیسویں صلاحیتیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی صلاحیت کو پہچانیں اور اس سے دنیا میں بہتری لانے کی کوشش کریں۔ اگر آپ کے پاس قلم کی طاقت ہے تو اسے استعمال کیجیے۔ اگر آپ بات کرنے میں ماہر ہیں تو لوگوں کو حوصلہ دیجیے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ جو کچھ کریں، اس میں نیت خالص ہو۔ اللہ کے لیے کیا جانے والا صدقہ، چاہے وہ مال کا ہو یا علم و ہنر کا، کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ یہ نہ صرف آپ کے لیے آخرت میں ذخیرہ بنے گا بلکہ دنیا میں بھی آپ کی زندگی کو سکون اور خوشی سے بھر دے گا۔
لہٰذا، اگر اللہ نے آپ کو مال و دولت، اختیار و طاقت، علم، ہنر، قلم، یا کسی خاص صلاحیت سے نوازا ہے، تو اسے ضائع نہ کیجیے۔ اسے دوسروں کے فائدے کے لیے استعمال کیجیے۔ یہی آپ کا حقیقی صدقہ ہوگا اور یہی آپ کی زندگی کا اصل مقصد بن سکتا ہے۔
میں اپنے فکر و نظر اور قلم و قرطاس کو ہمیشہ اصلاح اور بہتری کے لیے وقف کرتا ہوں۔ ہر لکھاوٹ کا مقصد بہتری ہی ہے۔ اگر کبھی میری تحریر یا خیال سے کسی کو بلا وجہ تکلیف پہنچی ہو تو میں اللہ تعالیٰ سے معافی کا طلبگار ہوں اور آپ سے بھی درگزر کی درخواست کرتا ہوں۔ میرا مقصد ہمیشہ خیر کا ہوتا ہے اور نیت میں کبھی بدنیتی شامل نہیں ہوتی۔