Wednesday, 08 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mujahid Khan Taseer
  4. Kitab, Mobile Aur Hamari Masroof Zindagi

Kitab, Mobile Aur Hamari Masroof Zindagi

کتاب، موبائل اور ہماری مصروف زندگی

یہ کہنا یا سوچنا کہ موجودہ دور میں کتاب بینی کا رواج ختم ہو چکا ہے، بالکل غلط ہے۔ آج بھی لوگ کتاب پڑھنے کے خواہش مند ہیں اور دل سے چاہتے ہیں کہ ایک عمدہ کتاب کا مطالعہ کریں۔ لیکن بدقسمتی سے، ہمارے پاس کتاب پڑھنے کے لیے فرصت نہیں ہے۔ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں فارغ ہونے کے باوجود بے حد مصروف ہیں۔

ہماری مصروفیت کی ایک بڑی وجہ ہمارے ہاتھ میں موجود موبائل فون ہے، جو ہمیں ہر لمحہ مشغول رکھتا ہے۔ خاص طور پر واٹس ایپ کے ان غیر ضروری گروپس نے ہماری زندگیوں کو بوجھل کر دیا ہے، جن کا ہمیں شاید کبھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اگر ہم خبریں پڑھنا چاہتے ہیں، تو ویب سائٹس اور معتبر ذرائع موجود ہیں، لیکن ہم بنا وجہ غیر ضروری گروپس کا حصہ بنے رہتے ہیں۔

موبائل فون کی ہر وقت بجتی آواز نے ہمیں نہ سکون سے رہنے دیا ہے اور نہ ہی فرصت دی ہے۔ آج کا انسان چاہتا ہے کہ وہ اس مشغلے سے نجات حاصل کرے، کیونکہ اب اسے سمجھ آ چکی ہے کہ یہ کتنا وقت ضائع کر رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے؟ اگر ہم ایک لمحے کے لیے بھی موبائل بند کریں، تو دوسرا شخص فوراً بے چین ہو جاتا ہے کہ خدانخواستہ کوئی حادثہ پیش نہ آیا ہو۔

یہ سب اس لیے ہے کہ ہم نے توکل کرنا چھوڑ دیا ہے۔ پہلے جب کسی کو گھر سے رخصت کرتے تھے تو کہتے تھے: "اللہ کی امان میں" اس جملے میں سکون اور تحفظ کی طاقت ہوتی تھی۔ لیکن آج ہم گھر سے نکلتے وقت یا داخل ہوتے وقت سلام کرنا بھول چکے ہیں۔ ہمیں یقین ہوتا ہے کہ گھر والے اگر ضرورت پڑی تو کال کر لیں گے، ورنہ رابطہ نہیں کریں گے۔

دسمبر اور جنوری کی سرد راتوں میں کتابیں پڑھنے کا لطف اور شوق کبھی ہماری زندگیوں کا حصہ تھا۔ ہم گھنٹوں تک مطالعہ کرتے تھے اور یہ وقت ہماری روح کو سکون دیتا تھا۔ مگر آج یہ شوق دم توڑ چکا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہم نصابی کتب تک کو دیکھنا گوارا نہیں کرتے، جبکہ یہی کتابیں ہماری ترقی اور شخصیت سازی کی بنیاد ہیں۔

موجودہ دور میں کتابوں کی جگہ موبائل فون کی برکت سے سوشل میڈیا نے لے لی ہے اور یہ نہ صرف ہمارے خیالات بلکہ ہماری شخصیت پر بھی گہرا اثر ڈال رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی طاقت اور اس کا بڑھتا ہوا رجحان اس قدر واضح ہے کہ آپ کسی محفل میں ہوں یا تنہا بیٹھے ہوں، یہ آپ کے اردگرد ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر آپ کسی دوا یا برانڈ کا ذکر کریں تو کچھ ہی دیر میں اس کا اشتہار آپ کے سامنے آجاتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا ہماری زندگیوں میں مرکزی حیثیت اختیار کر چکا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ کتابوں کی ضرورت کو پورا کر سکتا ہے؟

اسی حوالے سے میں نے خود ایک تجربہ کیا۔ ایک دوست نے مجھے ایک کتاب پی ڈی ایف کی صورت میں دی۔ کتاب کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا، اس لیے شوق اور تجسس کے باعث موبائل پر پڑھنا شروع کر دیا۔ موبائل کی روشنی نے میری آنکھوں اور دماغ کو تھکا دیا، لیکن میں نے کتاب ختم کر لی۔ نتیجہ؟ وہ کتاب مجھے یاد تو رہی، لیکن اس کا اثر دل پر وہ نہیں ہوا جو کاغذی کتاب کا ہوتا ہے۔ اگلے پورے مہینے میں، میں کوئی اور کتاب نہ پڑھ سکا، کیونکہ موبائل کے استعمال نے میری ذہنی توانائی ختم کر دی تھی۔

موبائل اور کتاب میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ کتاب صرف معلومات فراہم نہیں کرتی بلکہ ایک خاص قسم کا سکون اور روحانی تسکین بھی دیتی ہے، جو موبائل فون کی اسکرین کبھی نہیں دے سکتی۔

موبائل فون نے نہ صرف ہماری کتاب بینی کی عادت چھین لی ہے بلکہ ہماری محفلوں کا رنگ بھی پھیکا کر دیا ہے۔ ہم دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے بیٹھتے ہیں، لیکن اپنی دنیا میں گم ہو جاتے ہیں۔ ہماری توجہ ان ریِلز، ویڈیوز اور پوسٹس پر ہوتی ہے جنہیں لائک یا کمنٹ مل رہا ہوتا ہے، چاہے وہ تعلقات سطحی اور غیر حقیقی کیوں نہ ہوں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر جو لوگ ہمیں متاثر کرتے ہیں، جب ہم ان سے حقیقی زندگی میں ملتے ہیں تو وہ اتنے دلچسپ یا پر تاثیر نہیں لگتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ہر کوئی ایک مصنوعی چہرہ لیے پھرتا ہے، جو حقیقی زندگی میں نہیں ہوتا۔

ہم اس بے چہرگی کے دور میں جی رہے ہیں جہاں حقیقت اور تصنع کے درمیان فرق مٹ چکا ہے۔ لیکن اس سب سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے: کتب بینی۔ کتاب کی خوشبو، اس کے اوراق پلٹنے کا احساس اور مطالعے کا سکون وہ سب کچھ ہے جو ہمیں سوشل میڈیا کی بے معنی مصروفیت سے نکال سکتا ہے۔

زندگی ہمیشہ سے مصروف رہی ہے اور یہ مصروفیت کبھی ختم نہیں ہوگی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے رشتوں کو توڑ دیں، اپنے آپ کو بھول جائیں، یا کتابوں کو خیرباد کہہ دیں۔ ہمیں اپنی زندگیوں میں کتاب کو واپس لانا ہوگا، کیونکہ یہی وہ واحد ذریعہ ہے جو ہمیں حقیقی علم اور سکون عطا کر سکتا ہے۔

Check Also

Taliban Ki Panjabion Se Nafrat

By Nusrat Javed